سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پنڈلیاں کسی قدر باریک تھیں، آپ ہنستے نہ تھے صرف مسکراتے، جب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھتا تو ایسے لگتا کہ آپ نے آنکھوں میں سرمہ لگا رکھا ہے حالانکہ آپ نے سرمہ نہیں لگایا ہوتا تھا۔ [شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي ضَحِكِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 225]
تخریج الحدیث: «سنده ضعيف» : «(سنن ترمذي: 3645 وقال: حسن صحيح غريب)، مسند احمد (105/5)، المستدرك للحاكم (606/2) وصححه فقال الذهبي: ”حجاج (بن أرطاة) لين الحديث“» اس روایت کی سند دو وجہ سے ضعیف ہے: ➊ حجاج بن ارطاۃ مدلس تھے اور یہ سند معنعن ہے۔ ➋ حجاج بن ارطاۃ جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف راوی ہیں۔ تنبیہ: پتلی پنڈلیوں کے الفاظ کے علاوہ اس روایت کے شواہد ہیں لیکن اس متن کے ساتھ یہ روایت ضعیف ہی ہے۔ دیکھئے انوار الصحیفہ (ص304)۔
سیدنا عبداللہ بن الحارث بن جزء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مسکرانے والا کوئی نہیں دیکھا۔ [شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي ضَحِكِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 226]
تخریج الحدیث: «سنده ضعيف» : «(سنن ترمذي: 3641 وقال: غريب)، مسند احمد (190/4 . 191)» اس روایت کے راوی عبداللہ بن لہیعہ نے یہ حدیث اختلاط سے پہلے بیان کی، لیکن وہ مدلس تھے اور سماع کی تصریح ثابت نہیں، لہٰذا یہ سند ضعیف ہے۔ نیز دیکھئے ح227
سیدنا عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہنسی صرف مسکراہٹ تھی (قہقہہ نہیں لگاتے تھے)۔امام ابو عیسیٰ (ترمذی) فرماتے ہیں کہ یہ حدیث لیث بن سعد کی حدیثوں سے غریب ہے۔ [شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي ضَحِكِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 227]
تخریج الحدیث: «سنده صحيح» : «(سنن ترمذي: 3642 وقال: صحيح غريب . . .)» فائدہ: اگر اصول حدیث کی رو سے سند صحیح ہو تو غریب روایت بھی صحیح ہوتی ہے۔
4. سید کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا ہنسنا بھی اعلیٰ تھا
سیدنا ابوذر (غفاری) رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں اس شخص کو بخوبی جانتا ہوں جو سب سے پہلے جنت میں داخل ہو گا اور اس شخص کو بھی جانتا ہوں جو سب سے آخر میں جہنم سے نکالا جائے گا۔ قیامت کے دن ایک شخص دربار الٰہی میں پیش کیا جائے گا تو کہا جائے گا کہ اس کے صغیرہ گناہ اس پر پیش کرو، اور بڑے گناہ اس سے پوشیدہ رکھے جائیں، پھر کہا جائے گا، تو نے فلاں دن فلاں اور فلاں عمل کیے تھے؟ تو وہ ان اعمال کا اقرار کرے گا، انکار نہ کرے گا، اور وہ اپنے بڑے بڑے گناہوں سے خوف زدہ ہو گا تو کہا جائے گا اس کے ہر گناہ کے بدلے میں جو اس نے کیا ہے ایک نیکی دے دو۔ (جب یہ صورت حال دیکھے گا تو) وہ کہے گا: میرے کچھ اور گناہ بھی ہیں جنہیں میں یہاں نہیں دیکھ رہا“، سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اتنا ہنسے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اگلے دانت مبارک نظر آئے۔ [شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي ضَحِكِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 228]
تخریج الحدیث: «صحيح» : «صحيح مسلم (190)، سنن ترمذي (2596) من حديث الأعمش به وقال: ”حسن صحيح“.»
سیدنا جریر بن عبدالله سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں جب سے مسلمان ہوا ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے پاس آنے سے کبھی منع نہیں فرمایا: اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی مجھے دیکھتے تو ہنس پڑتے۔ [شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي ضَحِكِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 229]
تخریج الحدیث: «سنده صحيح» : «(سنن ترمذي: 3820 وقال: حسن صحيح)، صحيح بخاري (3822)، صحيح مسلم (2475)»
6. حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی مجھے دیکھتے مسکراتے
سیدنا جریر رضی الله عنہ فرماتے ہیں جب سے میں مسلمان ہوا ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے پاس آنے سے کبھی نہیں روکا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بھی مجھے دیکھا تو مسکرا دیتے۔ [شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي ضَحِكِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 230]
تخریج الحدیث: «صحيح» : «(سنن ترمذي: 3821 وقال: حسن صحيح)، صحيح بخاري (3035)، صحيح مسلم (2475)»
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے فرمایا: ”یقیناً میں اس شخص کو بخوبی جانتا ہوں جو سب سے آخر میں جہنم سے نکلے گا، وہ ایسا آدمی ہو گا جو سرینوں کے بل گھسیٹتا ہوا دوزخ سے نکلے گا، اس کو حکم ہو گا کہ جاؤ جنت میں چلے جاؤ۔“ کہتے ہیں کہ ”وہ شخص جنت میں داخل ہونے کے لئے جائے گا تو وہ دیکھے گا کہ جنت میں سب لوگوں نے اپنے اپنے ٹھکانوں پر رہائش اختیار کی ہوئی ہے۔ وہ شخص لوٹ کر آئے گا اور کہے گا: اے پروردگار! وہاں تو سب لوگوں نے اپنی اپنی جگہ پر قبضہ کر رکھا ہے۔ پھر اس سے کہا جائے گا کہ کیا تو دنیا کے اس زمانے کو یاد کرتا ہے جس زمانے میں تو وہاں تھا (کہ دنیا کتنی بڑی تھی)؟ وہ عرض کرے گا: ہاں پروردگار! مجھے وہ وقت یاد ہے۔ پھر اس سے کہا جائے گا کہ کوئی آرزو کرو، پس وہ آرزو کرے گا۔ پھر اس سے کہا جائے کہ تمہیں تمھاری آرزو کے مطابق بھی دیا اور پوری دنیا سے دس گناہ زیادہ بھی عطا کیا۔ وہ عرض کرے گا کہ پروردگار! کیا آپ میرے ساتھ دل لگی کرتے ہیں حالانکہ آپ بادشاہوں کے بادشاہ ہیں۔“ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص کی یہ بات بیان فرما رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس موقعہ پر ہنس پڑے، یہاں تک کہ آپ کے دندان مبارک دکھائی دنیے لگے۔ [شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي ضَحِكِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 231]
تخریج الحدیث: «صحيح» : «(سنن ترمذي: 2595 وقال: حسن صحيح)، صحيح بخاري (6571)، صحيح مسلم (186)»
8. حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مسکرانا
علی بن ربیعہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک سواری کا جانور آپ کے لئے لایا گیا تاکہ آپ اس پر سوار ہوں، انہوں نے رکاب میں پاؤں رکھا تو بسم اللہ کہا اور جب سواری پر سیدھے ہو کر بیٹھ گئے تو الحمد اللہ کہا پھر یہ دعا پڑھی «سبحان الذى سخرلنا هذا وما كنا له مقرنين وانا الي ربنا لمنقلبون» کہ پاک ہے وہ ذات جس نے ہمارے لیے اس کو مسخر کر دیا، ورنہ ہم اسے مسخر نہ کر سکتے تھے اور بلاشبہ ہم اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ پھر تین مرتبہ الحمد اللہ، تین بار اللہ اکبر کہا اور یہ دعا پڑھی، «سبحانك اني ظلمت نفسي فاغفرلي فانه لا يغفر الذنوب الا انت» کہ اے اللہ تو پاک ہے میں نے ہی اپنے آپ پر ظلم کیا مجھے معاف فرما دے، بلاشبہ تیرے علاوہ گناہوں کو کوئی معاف نہیں کرتا، پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ مسکرائے، میں نے عرض کیا: امیر المومنین! آپ مسکرائے کیوں ہیں؟ انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تھا انہوں نے بھی اسی طرح کیا تھا جیسا کہ میں نے کیا ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی مسکرائے تھے، تو میں نے بھی عرض کیا تھا، اللہ کے رسول! آپ مسکرائے کیوں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلاشبہ تیرا رب اپنے بندے پر اس وقت خوش ہوتا جب وہ کہتا ہے کہ اے میرے رب، میرے گناہ معاف کر دے، تیرے سوا کوئی میرے گناہ معاف کرنے والا نہیں ہے۔“[شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي ضَحِكِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 232]
تخریج الحدیث: «صحيح» : «(سنن ترمذي: 3446وقال: حسن صحيح)، سنن ابي داود (2602)» امام ابواسحاق السبیعی نے سماع کی تصریح کر دی ہے۔ [ديكهئے السنن الكبري للبيهقي 252/5] اور امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اس روایت کو ایسی علت کے ساتھ معلول قرار دیا جو علت قادحہ نہیں ہے، نیز اس حدیث کے شواہد بھی ہیں۔
9. غزوہ خندق میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مسکرانا
عامر بن سعد رحمہ اللہ فرماتے ہیں سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ خندق کے دن اتنا ہنسے کہ آپ کی ڈاڑھیں ظاہر ہو گئیں (عامر بن سعد کہتے ہیں) میں نے پوچھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم (اتنا) کیوں ہنسے تھے؟ انہوں نے فرمایا: ایک (کافر) آدمی کے پاس ڈھال تھی اور سعد اگرچہ بڑے تیرانداز تھے مگر وہ کافر اپنی ڈھال کو اِدھر اُدھر کر کے اپنا چہرہ بچا رہا تھا، پس سعد نے اپنی ترکش سے تیر نکالا، تو جونہی اس کافر نے اپنا سر اٹھایا تو سعد نے تیر فوراً چھوڑ دیا اور اب کہ یہ تیر خطا نہ ہوا اور سیدھا اس کی پیشانی پر لگا، اور وہ گر گیا اور اس کی ٹانگ اوپر اٹھ گئی، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک نظر آنے لگے۔ عامر کہتے ہیں میں نے پوچھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس وجہ سے ہنسے؟ انہوں نے بتایا کہ سعد کے اس کام سے جو انہوں نے اس کافر سے کیا۔ [شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي ضَحِكِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 233]
تخریج الحدیث: «سنده ضعيف» : «مسند احمد (186/1)» اس روایت کے راوی محمد بن محمد بن اسود کی توثیق معلوم نہیں اور باقی سند صحیح ہے، ابن عون سے مراد عبداللہ بن عون ہیں، یعنی یہ سند ابن الاسود مجہول الحال کی وجہ سے ضعیف ہے۔