ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو تم لوگوں کی طرح لگاتار جلدی جلدی نہیں ہوتی تھی بلکہ وہ واضح اور صاف صاف گفتگو فرماتے، جو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور بیٹھا ہوتا اس گفتگو کو یاد کر لیتا تھا۔ [شمائل ترمذي/بَابُ كَيْفَ كَانَ كَلَامُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 222]
تخریج الحدیث: «صحيح» : «(سنن ترمذي: 3639 وقال: حسن صحيح . . .)، صحيح مسلم (2493) وعلقه البخاري (3568) متفق عليه (بخاري: 3568 و مسلم) من حديث يونس بن يزيد عن الزهري به .»
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بات کو تین مرتبہ دہراتے تاکہ سننے والے اس کو اچھی طرح سمجھ لیں۔ [شمائل ترمذي/بَابُ كَيْفَ كَانَ كَلَامُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 223]
تخریج الحدیث: «صحيح» : «(سنن ترمذي: 3640 وقال: حسن صحيح غريب . . .)، صحيح بخاري (94.95، 6244)، وسنن الترمذي (2723)»
3. حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا انداز تکلم اور دیگر صفات عالیہ
سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے ماموں ہند بن ابی ہالۃ سے، جو کہ اکثر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف کریمانہ بیان فرماتے تھے عرض کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو کی کیفیت مجھ سے بیان کریں، انہوں نے فرمایا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر حزن و ملال میں رہتے، ہمیشہ متفکر رہتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو راحت میسر نہ تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ تر خاموش رہتے، بلا ضرورت گفتگو نہ فرماتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کلام کی ابتدا اور اختتام اللہ تعالیٰ کے نام سے کرتے تھے، گفتگو فرماتے وقت جامع کلام استعمال فرماتے، آپ کی گفتگو انتہائی صاف اور واضح ہوتی، ضرورت سے زیادہ نہیں ہوتی تھی، اور نہ ادائیگی مقصود میں کوئی کمی ہوتی تھی، نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جفا کرنے والے تھے، اور نہ ہی آپ حقیر و ضعیف تھے، آپ نعمت کو بڑی عظمت بخشتے تھے اگرچہ وہ تھوڑی ہی کیوں نہ ہو، اس نعمت میں سے کسی چیز کی مذمت نہیں فرماتے تھے۔ چنانچہ کھانے کی چیزوں کی مذمت نہ کرتے اور نہ ہی زیادہ تعریف کرتے، نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی دنیاوی امر کی وجہ سے غصہ آتا تھا اور نہ ہی کوئی ایسی چیز تھی جس کی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ان دنیاوی امور میں غصہ آتا، جب کوئی شخص حق سے تجاوز کر جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غصہ کے مقابلے میں کوئی چیز نہیں ٹھر سکتی تھی یہاں تک کہ اس کا انتقام لے لیتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات کے لیے کبھی غصہ نہیں فرمایا اور نہ کبھی اس کا انتقام لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی چیز کی طرف اشارہ فرماتے تو پورے دستِ مبارک سے اشارہ فرماتے، جب کسی بات پر تعجب فرماتے تو دست مبارک ہتھیلی کو پلٹ دیتے۔ اور جب گفتگو فرماتے تو ہاتھ ملا لیتے، اور دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو بائیں ہاتھ کے انگوٹھا کے اندرونی حصہ پر ملاتے، جب کسی پر ناراض ہوتے تو اس سے رخ انور پھیر لیتے اور جس وقت خوش ہوتے تو نظریں جھکا لیتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کمال درجے کا ہنسنا صرف تبسم تھا، اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک سفید اور چمک دار اولے کی مانند دکھائی دیتے تھے۔ [شمائل ترمذي/بَابُ كَيْفَ كَانَ كَلَامُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 224]
تخریج الحدیث: «سنده ضعيف» : یہ حدیث پہلے گزر چکی ہے۔ دیکھئے ح 8