سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عطر دان تھا جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوشبو لگاتے تھے۔ [شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي تَعَطُّرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 215]
تخریج الحدیث: «سنده حسن» : «سنن ابي داود (4162)»
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پوتے ثمامہ بن عبد اللہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا کہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ خوشبو کے ہدیہ (تحفہ) کو واپس نہیں کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ (یہ اس لیے کہ) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (بھی) خوشبو کے ہدیہ کو واپس نہیں فرمایا کرتے تھے۔ [شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي تَعَطُّرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 216]
تخریج الحدیث: «سنده صحيح» : «(سنن ترمذي: 2789 وقال: حسن صحيح)، صحيح بخاري (5929)»
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تین چیزیں رد نہیں کرنی چاہئیں: تکیہ، تیل (خوشبو) اور دودھ۔“[شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي تَعَطُّرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 217]
تخریج الحدیث: «سنده حسن» : «(سنن ترمذي: 2790 وقال: غريب)، المعجم الكبير للطبراني (336/12 ح 13279) من حديث اسماعيل بن ابي فديك به .»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مردانہ خوشبو وہ ہے کہ اس کی خوشبو ظاہر ہو اور رنگ ظاہر نہ ہو، اور زنانہ خوشبو وہ ہے کہ اس کی خوشبو ظاہر نہ ہو اور رنگ ظاہر ہو۔“[شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي تَعَطُّرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 218]
تخریج الحدیث: «سنده ضعيف» : «(سنن ترمذي: 2787 وقال: حسن . . .)» اس روایت کی سند میں طفاوی نامی راوی مجہول الحال ہے، جس کی تو ثیق سوائے ترمذی کے کسی نے نہیں کی، لہٰذا یہ سند ضعیف ہے۔ اس روایت کے ضعیف شواہد بھی ہیں۔ مثلاً دیکھئے انوار الصحیفہ (ص269)
طفاوی نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کی مثل اس کے ہم معنی روایت بیان کی ہے۔ [شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي تَعَطُّرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 219]
تخریج الحدیث: «سنده ضعيف» : «(سنن ترمذي: 2787 وقال: حسن . . .)» اس روایت کی سند میں طفاوی نامی راوی مجہول الحال ہے، جس کی تو ثیق سوائے ترمذی کے کسی نے نہیں کی، لہٰذا یہ سند ضعیف ہے۔ اس روایت کے ضعیف شواہد بھی ہیں۔ مثلاً دیکھئے انوار الصحیفہ (ص269)
ابوعثمان نہدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جب تم میں سے کسی کو ریحان (چنبیلی) دی جائے تو وہ اسے رد نہ کرے بلاشبہ یہ پودا جنت سے آیا ہوا ہے۔“ امام ابوعیسیٰ ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس حدیث کے علاوہ ہم حنان کی کسی اور روایت کو نہیں جانتے۔ نیز فرماتے ہیں کہ امام عبدالرحمٰن بن ابی حاتم اپنی کتاب الجرح و التعدیل میں فرماتے ہیں: حنان اسدی اسد بن شریک کے خاندان میں سے ہیں اور وہ صاحب رفیق مسدد کے والد کے چچا تھے (صاحب رقیق سے مراد یہ ہے کہ وہ غلاموں کی خرید و فروخت کا کاروبار کرتے تھے) انہوں نے ابو عثمان نہدی سے روایت کی ہے کہ ان سے حجاج بن ابی عثمان صواف نے روایت کی ہے، عبدالرحمان بن ابی حاتم کہتے ہیں کہ میں نے یہ بات اپنے والد ابو حاتم سے سنی ہے۔ [شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي تَعَطُّرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 220]
تخریج الحدیث: «سنده ضعيف» : «(سنن ترمذي: 2791 وقال: غريب حسن . . .)، كتاب المراسيل لابي داود (501)» حسن ابوعثمان (عبدالرحمٰن بن مل) النہدی ثقہ تابعی تھے اور انہوں نے سند میں صحابہ کا نام نہیں لیا، یعنی یہ سند مرسل ہے اور مرسل جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہوتی ہے۔
سیدنا جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: مجھے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے سامنے (معائنہ کے لیے) پیش کیا گیا۔ جریر نے اوپر والی چادر اتار دی اور تہبند میں چلنے لگے تو (سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے) فرمایا: اپنی چادر پکڑ لو۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے قوم کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: میں نے جریر سے زیادہ حسین کسی شخص کو نہیں دیکھا سوائے یوسف علیہ السلام کی صورت کے جیسا کہ ہمیں ان کے متعلق معلومات حاصل ہوئی ہیں۔ [شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي تَعَطُّرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 221]
تخریج الحدیث: «سنده ضعيف جدًا» : اس کی سند دو وجہ سے ضعیف ہے: ➊ عمر بن اسماعیل بن مجالد بن سعید متروک (یعنی سخت مجروح) راوی ہے۔ (دیکھئے تقریب التہذیب: 4866) ➋ اسماعیل بن مجالد جمہور کے نزدیک ضعیف راوی ہے۔