سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ککڑی کو تازہ کھجور کے ساتھ نوش جان فرماتے تھے۔ [شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي فَاكِهَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 196]
تخریج الحدیث: «سنده صحيح» : «(سنن ترمذي:1844، وقال: حسن صحيح غريب...)، (صحيح بخاري: 5440)، (صحيح مسلم: 2043)»
2. سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے تربوز اور کھجور ملا کر تناول فرمائی
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تربوز کو تر کھجور کے ساتھ تناول فرمایا۔ [شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي فَاكِهَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 197]
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم خربوزہ اور تر کھجوروں کو ملا کر کھا رہے تھے۔ [شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي فَاكِهَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 198]
تخریج الحدیث: «سنده صحيح» : «(مسند احمد 142/3 ح 12449)، (النسائي فى الكبريٰ 6726 وقالا: الخزبز.)، (صحيح ابن حبان الاحسان: 5224، نسخه محققه: 2548 وقال: البطيخ بدل الخزبز)، (مسند ابي يعليٰ 463/6، 464 ح 1112، وقال يجمع بين البطيخ والرطب)، اخلاق النبى صلى الله عليه وسلم لابي الشيخ (ص 217) من حديث مسلم بن ابراهيم نا حميد عن انس: ان النبى صلى الله عليه وسلم كان يجمع بين الرطب والبطيخ، قال مسلم: وربما قال: الخنزبز»
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تربوز تازہ کھجوروں کے ساتھ ملا کر نوش فرمایا۔ [شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي فَاكِهَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 199]
تخریج الحدیث: «صحيح» : «(السنن الكبري للنسائي: 167/4 ح 6727) (اخلاق النبى صلى الله عليه وسلم: ص216. 217)» اس روایت کی سند دو وجہ سے ضعیف ہے: ➊ عبداللہ بن یزید بن الصلت ضعیف (راوی) ہے۔ دیکھئیے: [تقريب التهذيب: 3705 ] ➋ محمد بن اسحاق بن یسار صدوق مدلس تھے اور یہ روایت «عن» سے ہے۔ حدیث سابق (197) اس کا صحیح شاہد ہے، جس کے ساتھ یہ روایت بھی صحیح یا حسن ہے۔
سید الفقہاء سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین جب کسی نئے پھل کو دیکھتے تو اس کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرتے تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب اسے پکڑتے تو یہ دعا پڑھتے: ”اے اللہ! ہمارے پھلوں میں برکت فرما، اور ہمارے شہر میں برکت فرما، اور ہمارے مد اور صاع میں برکت فرما، اے مولا کریم! ابراہیم علیہ السلام تیرے بندے، اور تیرے خلیل، اور تیرے نبی نے مکہ مکرمہ کے لیے آپ کے حضور میں دعا کی تھی اور میں مدینہ منورہ کے لیے آپ کے حضور میں دعا کرتا ہوں، اسی طرح کی دعا، جس طرح کی انہوں نے مکہ مکرمہ کے لیے کی تھی اور اس سے دو چند۔“ راوی کہتا ہے کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے کم عمر بچے کو جو موجود ہوتے طلب فرماتے، اور انہیں اس پھل سے عطا فرماتے۔ [شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي فَاكِهَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 200]
تخریج الحدیث: «سنده صحيح» : «(سنن ترمذي: 3454، وقال: حسن صحيح)، (صحيح مسلم: 1373)، (الموطا للامام مالك رواية يحييٰ 885/2 ح1702، رواية ابن القاسم 447)»
6. آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تحفے کے بدلے میں تحفہ دیا
سیدہ ربیع بنت معوذ بن عفرا رضی اللہ عنہا سے مروی ہے وہ فرماتی ہیں مجھے سیدنا معاذ بن عفرا رضی اللہ عنہ نے تازہ کھجوروں کا ایک تھال دے کر بھیجا جس میں روئی والی چھوٹی چھوٹی ککڑیاں بھی تھیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ککڑی بڑی پسند تھی۔ میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وہ لائی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بحرین سے کچھ زیورات آئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اپنی ایک مٹھی بھر کر مجھے عنایت فرمائے۔ [شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي فَاكِهَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 201]
تخریج الحدیث: «سنده ضعيف» : یہ روایت کئی وجہ سے ضعیف ہے، مثلاً: ➊ محمد بن حمید الرازی ضعیف بلکہ سخت مجروح و ساقط العدالت راوی ہے۔ ➋ محمد بن اسحاق بن یسار مدلس تھے اور یہ سند «عن» سے ہے۔ ➌ ابراہیم بن المختار کو جمہور محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔ نیز دیکھئے: حدیث: 202
سیدہ ربیع بنت معوذ بن عفراء رضی اللہ عنہا سے مروی ہے وہ فرماتی ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تر کھجوروں اور چھوٹی ککڑیوں کا تھال، جن پر ابھی روئی باقی تھی، لےکر حاضر ہوئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ہتھیلی بھر کر زیور دیا، یا فرمایا: سونا عطا کیا۔ [شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي فَاكِهَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 202]
تخریج الحدیث: «سنده ضعيف» : «مسند احمد (359/6)، المعجم الكبير للطبراني (273/24 ح 694) وحسنه الهيثمي فى المجمع (13/9)!» اس روایت کی سند دو وجہ سے ضعیف ہے: ➊ عبداللہ بن محمد بن عقیل جمہور کے نزدیک ضعیف راوی ہے۔ ➋ شریک القاضی مدلس تھے اور یہ سند «عن» سے ہے، لہٰذا اسے حسن قرار دینا غلط ہے۔ نیز دیکھئے حدیث سابق: 201