سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بائیں جانب پر تکیہ لگا کر بیٹھے ہوئے دیکھا۔ [شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي تَكَأَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 129]
تخریج الحدیث: «سندہ صحیح» : «سنن ترمذي:2770، وقال:حسن غريب . سنن ابي داود: 4143 . صحيح ابن حبان (الاحسان:588)»
سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کیا تمہیں کبیرہ گناہوں میں سے بڑے بڑے گناہ نہ بتاؤں۔“(صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے) عرض کیا: جی ہاں اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو شریک بنانا، اور والدین کی نافرمانی کرنا۔“ سیدنا ابوبکرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پھر بیٹھ گئے جبکہ پہلے ٹیک لگائے ہوئے تھے تو فرمانے لگے: ”اور جھوٹی گواہی“ یا فرمایا: ”اور جھوٹی بات“ راوی کہتا ہے اس آخری کلمے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بار بار دہراتے رہے حتی کہ ہم نے کہا کاش آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو جائیں۔ [شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي تَكَأَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 130]
تخریج الحدیث: «صحيح» : «سنن ترمذي: 3019، 2301، 1901، وقال: حسن صحيح . صحيح بخاري: 2654 . صحيح مسلم: 87»
سیدنا ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تو ٹیک لگا کر نہیں کھاتا ہوں۔“[شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي تَكَأَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 131]
تخریج الحدیث: «صحيح» : «سنن ترمذي:1830، وقال:حسن صحيح لا نعرفه الا من حديث على بن الاقمر» ، نیز دیکھئیے آنے والی حدیث:132
سیدنا ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”میں تو ٹیک لگا کر نہیں کھاتا۔“[شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي تَكَأَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 132]
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک تکیہ پر ٹیک لگائے ہوئے دیکھا۔ امام ابوعیسیٰ ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس روایت میں وکیع نے «علي يساره» کا لفظ ذکر نہیں کیا اسی طرح بہت سے راویوں نے اسرائیل سے وکیع کی طرح یہ حدیث روایت کی ہے اور ہماری علم میں نہیں کہ اس حدیث میں «علي يساره» کا لفظ اسرائیل سے اسحاق بن منصور کے علاوہ کسی دوسرے راوی سے روایت کی ہو۔ [شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي تَكَأَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 133]
تخریج الحدیث: «سنده صحيح» : «سنن ابي داود: 4143» ، نیز دیکھئیے حدیث سابق: 129 تنبیہ: باب نمبر 21 میں استراحت کے لئے یا بیٹھے ہوئے ٹیک لگانے کا بیان ہے اور باب نمبر 22 کمزوری یا کسی سبب سے چلتے پھرتے وقت کسی کے ساتھ سہارا لینے کا تذکرہ ہے۔