ہم سے محمد بن یوسف بیکندی نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو جریر نے خبر دی، انہیں مغیرہ نے، انہیں شعبی نے اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ میں شریک تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اپنے اونٹ کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے۔ کیا تم اسے بیچو گے؟ میں نے کہا ہاں، چنانچہ اونٹ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیچ دیا۔ اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ پہنچے۔ تو صبح اونٹ کو لے کر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس کی قیمت ادا کر دی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الِاسْتِقْرَاضِ وَأَدَاءِ الدُّيُونِ وَالْحَجْرِ وَالتَّفْلِيسِ/حدیث: 2385]
ہم سے معلی بن اسد نے بیان کیا، ان سے عبدالواحد نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، انہوں نے بیان کیا کہ ابراہیم کی خدمت میں ہم نے بیع سلم میں رہن کا ذکر کیا، تو انہوں نے بیان کیا کہ مجھ سے اسود نے بیان کیا اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی سے غلہ ایک خاص مدت (کے قرض پر) خریدا، اور اپنی لوہے کی زرہ اس کے پاس رہن رکھ دی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الِاسْتِقْرَاضِ وَأَدَاءِ الدُّيُونِ وَالْحَجْرِ وَالتَّفْلِيسِ/حدیث: 2386]
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، ان سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا، ان سے ثور بن زید نے، ان سے ابوغیث نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو کوئی لوگوں کا مال قرض کے طور پر ادا کرنے کی نیت سے لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی طرف سے ادا کرے گا اور جو کوئی نہ دینے کے لیے لے، تو اللہ تعالیٰ بھی اس کو تباہ کر دے گا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الِاسْتِقْرَاضِ وَأَدَاءِ الدُّيُونِ وَالْحَجْرِ وَالتَّفْلِيسِ/حدیث: 2387]
اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ نساء میں) فرمایا ”اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے مالکوں کو ادا کرو۔ اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ کرو۔ اللہ تمہیں اچھی ہی نصیحت کرتا ہے اس میں کچھ شک نہیں کہ اللہ بہت سننے والا، بہت دیکھنے والا ہے۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الِاسْتِقْرَاضِ وَأَدَاءِ الدُّيُونِ وَالْحَجْرِ وَالتَّفْلِيسِ/حدیث: Q2388]
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوشہاب نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے زید بن وہب نے اور ان سے ابوذر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دیکھا، آپ کی مراد احد پہاڑ (کو دیکھنے) سے تھی۔ تو فرمایا کہ میں یہ بھی پسند نہیں کروں گا کہ احد پہاڑ سونے کا ہو جائے تو اس میں سے میرے پاس ایک دینار کے برابر بھی تین دن سے زیادہ باقی رہے۔ سوا اس دینار کے جو میں کسی کا قرض ادا کرنے کے لیے رکھ لوں۔ پھر فرمایا، (دنیا میں) دیکھو جو زیادہ (مال) والے ہیں وہی محتاج ہیں۔ سوا ان کے جو اپنے مال و دولت کو یوں اور یوں خرچ کریں۔ ابوشہاب راوی نے اپنے سامنے اور دائیں طرف اور بائیں طرف اشارہ کیا، لیکن ایسے لوگوں کی تعداد کم ہوتی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہیں ٹھہرے رہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دور آگے کی طرف بڑھے۔ میں نے کچھ آواز سنی (جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی سے باتیں کر رہے ہوں) میں نے چاہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو جاؤں۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان یاد آیا کہ ”یہیں اس وقت تک ٹھہرے رہنا جب تک میں نہ آ جاؤں“ اس کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے پوچھا یا رسول اللہ! ابھی میں نے کچھ سنا تھا۔ یا (راوی نے یہ کہا کہ) میں نے کوئی آواز سنی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تم نے بھی سنا! میں نے عرض کیا کہ ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے تھے اور کہہ گئے ہیں کہ تمہاری امت کا جو شخص بھی اس حالت میں مرے کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو، تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔ میں نے پوچھا کہ اگرچہ وہ اس طرح (کے گناہ) کرتا رہا ہو۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ ہاں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الِاسْتِقْرَاضِ وَأَدَاءِ الدُّيُونِ وَالْحَجْرِ وَالتَّفْلِيسِ/حدیث: 2388]
ہم سے احمد بن شبیب بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، ان سے یونس نے کہ ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے بیان کیا، اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر بھی سونا ہو تب بھی مجھے یہ پسند نہیں کہ تین دن گزر جائیں اور اس (سونے) کا کوئی حصہ میرے پاس رہ جائے۔ سوا اس کے جو میں کسی قرض کے دینے کے لیے رکھ چھوڑوں۔ اس کی روایت صالح اور عقیل نے زہری سے کی ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الِاسْتِقْرَاضِ وَأَدَاءِ الدُّيُونِ وَالْحَجْرِ وَالتَّفْلِيسِ/حدیث: 2389]
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہیں سلمہ بن کہیل نے خبر دی، کہا کہ میں نے ابوسلمہ سے سنا، وہ ہمارے گھر میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کر رہے تھے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے قرض کا تقاضا کیا اور سخت سست کہا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس کو سزا دینی چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے کہنے دو۔ صاحب حق کے لیے کہنے کا حق ہوتا ہے اور اسے ایک اونٹ خرید کر دے دو۔ لوگوں نے عرض کیا کہ اس کے اونٹ سے (جو اس نے آپ کو قرض دیا تھا) اچھی عمر ہی کا اونٹ مل رہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہی خرید کے اسے دے دو۔ کیونکہ تم میں اچھا وہی ہے جو قرض ادا کرنے میں سب سے اچھا ہو۔ (حدیث اور باب کی مطابقت ظاہر ہے)[صحيح البخاري/كِتَاب الِاسْتِقْرَاضِ وَأَدَاءِ الدُّيُونِ وَالْحَجْرِ وَالتَّفْلِيسِ/حدیث: 2390]
ہم سے مسلم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عبدالملک نے، ان سے ربعی بن حراش نے اور ان سے حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک شخص کا انتقال ہوا (قبر میں) اس سے سوال ہوا، تمہارے پاس کوئی نیکی ہے؟ اس نے کہا کہ میں لوگوں سے خرید و فروخت کرتا تھا۔ (اور جب کسی پر میرا قرض ہوتا) تو میں مالداروں کو مہلت دیا کرتا تھا اور تنگ دستوں کے قرض کو معاف کر دیا کرتا تھا اس پر اس کی بخشش ہو گئی۔ ابومسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے یہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الِاسْتِقْرَاضِ وَأَدَاءِ الدُّيُونِ وَالْحَجْرِ وَالتَّفْلِيسِ/حدیث: 2391]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
6. بَابُ هَلْ يُعْطَى أَكْبَرَ مِنْ سِنِّهِ:
6. باب: کیا بدلہ میں قرض والے اونٹ سے زیادہ عمر والا اونٹ دیا جا سکتا ہے؟
ہم سے مسدد نے بیان کیا، ان سے یحییٰ قطان نے، ان سے سفیان ثوری نے کہ مجھ سے سلمہ بن کہیل نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنا قرض کا اونٹ مانگنے آیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ اسے اس کا اونٹ دے دو۔ صحابہ نے عرض کیا کہ قرض خواہ کے اونٹ سے اچھی عمر کا ہی اونٹ مل رہا ہے۔ اس پر اس شخص (قرض خواہ) نے کہا مجھے تم نے میرا پورا حق دیا۔ تمہیں اللہ تمہارا حق پورا پورا دے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے وہی اونٹ دے دو کیونکہ بہترین شخص وہ ہے جو سب سے زیادہ بہتر طریقہ پر اپنا قرض ادا کرتا ہو۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الِاسْتِقْرَاضِ وَأَدَاءِ الدُّيُونِ وَالْحَجْرِ وَالتَّفْلِيسِ/حدیث: 2392]
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، ان سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک شخص کا ایک خاص عمر کا اونٹ قرض تھا۔ وہ شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تقاضا کرنے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے اونٹ دے دو۔ صحابہ نے تلاش کیا لیکن ایسا ہی اونٹ مل سکا جو قرض خواہ کے اونٹ سے اچھی عمر کا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہی دے دو۔ اس پر اس شخص نے کہا کہ آپ نے مجھے میرا حق پوری طرح دیا اللہ آپ کو بھی اس کا بدلہ پورا پورا دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں بہتر آدمی وہ ہے جو قرض ادا کرنے میں بھی سب سے بہتر ہو۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الِاسْتِقْرَاضِ وَأَدَاءِ الدُّيُونِ وَالْحَجْرِ وَالتَّفْلِيسِ/حدیث: 2393]