سیدنا ابورمثہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار اس حالت میں کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر دو سبز چادریں تھیں۔ [شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي لِبَاسِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 66]
تخریج الحدیث: «سنده صحيح» : «(سنن ترمذي: 2812، وقال: هذا حديث حسن غريب)، (سنن ابي داود: 4206)، (سنن نسائي 185/3 ح 1573)، صحيح ابن خزيمه (انظر الاصابه 70/4)، (صحيح ابن الجارود: 770)، (صحيح ابن حبان: 1522)، (المستدرك: 607،426/2)، وصححه الحاكم ووافقه الذهبي .» نیز دیکھئیے حدیث سابق: 43
سیدہ قیلہ بنت مخرمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، وہ فرماتی ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حالت میں دیکھا کہ آپ (کے جسم اطہر) پر دو پرانی چادریں تھیں، جن پر زعفران تھا مگر جھڑ کر اس کا معمولی نشان رہ گیا تھا۔ اور حدیث میں ایک لمبا قصہ ہے۔ [شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي لِبَاسِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 67]
تخریج الحدیث: «سنده ضعيف» : «(سنن ترمذي: 2814، وقال: لانعرفه الا من حديث عبدالله بن حسان)، (سنن ابي داود: 3070)» اس روایت کی سند تین وجہ سے ضعیف ہے: ➊ عبداللہ بن حسان کو سوائے قردوسی (بذاتِ خود مجہول الحال) کے کسی نے ثقہ قرار نہیں دیا، یعنی وہ مجہول الحال ہے۔ ➋ صفیہ بنت علیبہ مجہولۃ الحال ہے، اسے سوائے ابن حبان کے کسی نے ثقہ قرار نہیں دیا۔ ➌ دحیبہ بنت علیبہ بھی مجہولۃ الحال ہے، اسے سوائے ابن حبان کے کسی نے بھی ثقہ قرار نہیں دیا۔ دیکھئے: انوار الصحیفہ [ص113] اور سنن ابی داود بتحقیقی [3070] تنبیہ EB: لمبا قصہ سنن ابی داود وغیرہ میں موجود ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”تم لوگ سفید کپڑوں کو اپناؤ، تم میں سے جو بقید حیات ہیں وہ بھی انہیں پہنیں، اور جو فوت ہو جائیں انہیں بھی سفید کپڑوں میں کفن دو، کیونکہ یہ تمہارے بہترین کپڑوں میں سے ہیں۔“[شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي لِبَاسِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 68]
تخریج الحدیث: «سنده حسن» : «(سنن ترمذي: 994 وقال: حسن صحيح)، (سنن ابي داؤد: 4061)، (سنن ابن ماجه: 1472)، صحيح ابن حبان (1439-1441)، المستدرك للحاكم (354/1) وصححه ووافقه الذهبي»
سیدنا سمرۃ بن جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ سفید لباس پہنا کرو، یہ پاک اور صاف ہوتے ہیں اور اس میں اپنے فوت شدگان کو کفن دیا۔کرو۔“[شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي لِبَاسِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 69]
تخریج الحدیث: «سنده ضعيف» : «(سنن ترمذي: 2810، وقال: حسن صحيح)، (سنن ابن ماجه: 3567)، المستدرك للحاكم (185/4) وصححه على شرط الشيخين ووافقه الذهبي .!» ◈ مستدرک میں سفیان ثوری کے سماع کی تصریح موجود ہے، لیکن حبیب بن ابی ثابت ثقہ مدلس تھے اور ان کے سماع کی تصریح موجود نہیں، حکم بن عتیبہ (ثقہ مدلس) نے ان کی متابعت کر رکھی ہے۔ [مسند احمد 17/5 ح 20185] لیکن حکم کے سماع کی تصریح بھی موجود نہیں، لہٰذا یہ سند ضیعف ہے۔ دوسرے یہ کہ میمون بن ابی شبیب کے سیدنا سمرہ رضی اللہ عنہ سے سماع میں بھی نظر ہے۔ فائدہ: مسند احمد میں «فانما اطهر و اطيب» کے بغیر اس حدیث کا ایک شاہد ہے، جس کی سند صحیح ہے۔ [21/5 ح20235] سنن نسائی (5324) وغیرہ میں ایک شاہد «فانما اطهر و اطيب» کے الفاظ کے ساتھ ہے، لیکن اس کی سند میں سعید بن ابی عروبہ ثقہ مدلس ہیں اور سند عن سے ہے۔ خلاصہ یہ کہ اس روایت کی سند ضعیف ہے اور یہ «اطهر و اطيب» کے الفاظ کے بغیر صحیح ہے۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن صبح کے وقت باہر تشریف لے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیاہ بالوں والی کملی اوڑھ رکھی تھی۔ [شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي لِبَاسِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 70]
تخریج الحدیث: «حسن» : «(سنن ترمذي: 2813، وقال: حسن صحيح غريب)، صحيح مسلم (2081، دارالسلام: 5445، و ح 2424، دارالسلام: 6261)»
15. آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رومی جبہ زیب تن فرمایا
عروہ بن مغیرہ بن شعبہ اپنے والد محترم سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رومی جبہ پہنا، جس کی دونوں آستینیں تنگ تھیں۔ [شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي لِبَاسِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 71]
تخریج الحدیث: «صحيح» : «(سنن ترمذي: 1768، وقال: هذا حديث حسن صحيح)، شرح السنة (6/12 ح 3070) والا نوار كلاهما للبغوي (755)» «من حديث الترمذي عن يوسف بن عيسي عن وكيع عن يونس بن ابي اسحاق عن الشعبي به .» مسند احمد (255/4 ح 18239) «عن وكيع عن يونس بن ابي اسحاق عن الشعبي به .» تنبیہ: شمائل ترمذی میں غلطی سے «يونس بن ابي اسحاق عن ابيه عن الشعبي» چھپ گیا ہے، جبکہ صحیح یہ ہے کہ یہ سند «يونس بن ابي اسحاق عن الشعبي يعنى عن ابيه» کے بغیر ہے، جیسا کہ سنن ترمذی، شرح السنہ، الانوار اور مسند احمد میں ہے۔ یونس بن ابی اسحاق سے اسے امام وکیع بن الجراح کے علاوہ سفیان بن عیینہ [مسند حميدي بتحقيقي: 758 ] اور عیسیٰ بن یونس [ سنن ابي داؤد: 1151 ] نے بھی «عن الشعبي» کی سند سے روایت کیا ہے۔ یونس بن ابی اسحاق تدلیس سے بری تھے، لہٰذا یہ سند صحیح ہے اور اس کے صحیح شواہد بھی ہیں۔