الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    


موطا امام مالك رواية ابن القاسم کل احادیث (657)
حدیث نمبر سے تلاش:

موطا امام مالك رواية ابن القاسم
मुवत्ता इमाम मलिक रवायात इब्न अल-क़ासिम
مناقب صحابہ وصحابیات رضی اللہ عنہم أجمعین
1. سیدنا ابوبکر صدیق کی فضیلت
حدیث نمبر: 628
453- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”مروا أبا بكر فليصل للناس فقالت عائشة: يا رسول الله، إن أبا بكر إذا قام فى مقامك لم يسمع الناس من البكاء، فأمر عمر فليصل للناس، فقال: ”مروا أبا بكر فليصل للناس.“ فقالت عائشة: فقلت لحفصة: قولي له: إن أبا بكر إذا قام فى مقامك لم يسمع الناس من البكاء، فأمر عمر فليصل للناس، ففعلت حفصة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”مه إنكن لأنتن صواحبات يوسف، مروا أبا بكر فليصل بالناس“ فقالت حفصة لعائشة: ما كنت لأصيب منك خيرا.
اور اسی سند کے ساتھ (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنی آخری بیماری میں) فرمایا: ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: یا رسول اللہ! یقیناًً جب ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کے مقام پر کھڑے ہوں گے تو رونے کی وجہ سے لوگوں کو آواز نہیں سنا سکیں گے آپ عمر رضی اللہ عنہ کو حکم دیں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ پھر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے کہا: آپ انہیں کہیں کہ اگر ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کے مقام پر کھڑے ہوں گے تو رونے کی وجہ سے لوگوں کو آواز نہیں سنا سکیں گے، لہٰذا آپ عمر رضی اللہ عنہ کو حکم دیں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسی باتیں نہ کرو، تم ان عورتوں کی طرح ہو جو یوسف علیہ السلام کے بارے میں اکٹھی ہوئی تھیں، ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔، تو سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا: آپ کی طرف سے مجھے کبھی خیر نہیں پہنچی۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 628]
تخریج الحدیث: «453- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 170/1، 171 ح 413، ك 9 ب 24 ح 83) التمهيد 123/22، الاستذكار: 383، و أخرجه البخاري (679) من حديث مالك به، وفي رواية يحيي بن يحيي: ”فمر.“»

2. سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت
حدیث نمبر: 629
117- وبه قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا ذهب إلى قباء يدخل على أم حرام بنت ملحان فتطعمه. وكانت أم حرام بنت ملحان تحت عبادة بن الصامت، فدخل عليها رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما فأطعمته وجلست تفلي رأسه، فنام رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم استيقظ وهو يضحك قالت: فقلت له: ما يضحكك يا رسول الله؟ فقال: ناس من أمتي عرضوا على غزاة فى سبيل الله يركبون ثبج هذا البحر ملوكا على الأسرة أو مثل الملوك على الأسرة يشك إسحاق. قالت: فقلت: يا رسول الله، ادع الله أن يجعلني منهم فدعا لها ثم وضع رأسه فنام ثم استيقظ يضحك. قالت: فقلت: ما يضحكك يا رسول الله؟ قال: ناس من أمتي عرضوا على غزاة فى سبيل الله، ملوكا على الأسرة أو مثل الملوك على الأسرة“ كما قال فى الأولى. قالت: فقلت: يا رسول الله، ادع الله أن يجعلني منهم. فقال: ”أنت من الأولين.“ قال: فركبت البحر فى زمان معاوية بن أبى سفيان فصرعت عن دابتها حين خرجت من البحر فهلكت.
اور اسی سند کے ساتھ روایت ہے کہ (سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے) فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب قباء جاتے تو ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے جاتے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانا کھلاتی تھیں، ام حرام بنت ملحان سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ  عنہ کی بیوی تھیں پس اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے گئے تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانا کھلایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر (کے بالوں) میں ٹٹولنے لگیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نیند سے بیدار ہوئے تو ہنس رہے تھے، ام حرام رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: یا رسو ل اللہ! آ پ کیوں ہنس رہے ہیں؟ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے (نیند میں) میری امت کے کچھ لوگ دکھائے گئے جو اس سمندر کے درمیان اللہ کے  راستے میں جہاد کر رہے تھے گویا کہ وہ تختوں پر بادشاہ بیٹھے ہیں۔ انہوں نے کہا: میں نے عرض کیا: یا رسو ل اللہ! اللہ سے دعا کریں کہ اللہ مجھے ان میں شامل کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے دعا فرمائی پھر سر رکھ کر سو گئے پھر جب نیند سے اٹھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس رہے تھے، ام حرام رضی اللہ عنہا نے کہا: کہ میں نے پوچھا: یا رسول اللہ! آ پ کس وجہ سے ہنس رہے ہیں؟ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کے کچھ لوگ مجھے (نیند میں) دکھائے جو تخت نشین بادشاہوں کی طرح بیٹھے اللہ کی راستے میں جہاد کر رہے ہیں۔ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی دفعہ فرمایا تھا تو ام حرام رضی اللہ عنہا نے کہا: کہ میں نے کہا: یا رسول اللہ! آپ اللہ سے دعا کریں کہ وہ مجھے ان میں شامل کرے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم پہلے گروہ میں ہو۔ (سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے) فرمایا: پھر وہ سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ (کے دور امارت) کے زمانے میں سمندری جہاد میں شامل ہوئیں پھر جب وہ سمندر سے باہر تشرف لائیں تو سواری سے گر کر فوت ہو گئیں۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 629]
تخریج الحدیث: «117- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 464/2، 465 ح 1026، ك 21 ب 18 ح 39) التمهيد 225/1، الاستذكار: 963، و أخرجه البخاري (2788، 2789) ومسلم (1912/160) من حديث مالك به.»

3. سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما صاحب علم تھے
حدیث نمبر: 630
298- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”إن من الشجر شجرة لا يسقط ورقها، وهى مثل الرجل المسلم، فحدثوني ما هي؟“ فوقع الناس فى شجر البوادي، ووقع فى نفسي أنها النخلة، فاستحييت. فقالوا: حدثنا يا رسول الله ما هي؟ فقال: ”هي النخلة.“ قال عبد الله بن عمر: فحدثت بالذي وقع فى نفسي من ذلك عمر بن الخطاب، فقال عمر: لأن تكون قلتها أحب إلى من كذا وكذا. كمل حديثه عن عبد الله بن عمر، وتقدم حديثه ”لا ينظر الله“ فى باب زيد وحدث ”في صلاة الليل“ فى باب نافع.
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: درختوں میں سے ایک ایسا درخت ہے جس کے پتے (سارا سال) نہیں گرتے اور اس کی مثال مسلمان آدمی کی طرح ہے، مجھے بتاؤ کہ یہ کون سا درخت ہے؟ تو لوگ جنگل کے درختوں کے بارے میں سوچنے لگے اور میرے دل میں آیا کہ یہ کھجور کا درخت ہے لیکن میں حیا کی وجہ سے نہ بولا: پھر لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ! ہمیں بتائیے کہ یہ کون سا درخت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ کھجور کا درخت ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: پھر میں نے (اپنے والد) عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے وہ بات کہی جو میرے دل میں آئی تھی تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر تم یہ بات (اس وقت) کہہ دیتے تو میرے نزدیک فلاں فلاں چیز سے بھی زیادہ پسندیدہ ہوتی۔ عبداللہ بن دینار کی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کردہ حدیثیں مکمل ہو گئیں اور ایک حدیث زید (بن اسلم) کے باب [ ح ۱۶۵] میں گزر چکی ہے اور دوسری نافع کے باب [ ح ۲۰۲] میں گزر چکی ہے۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 630]
تخریج الحدیث: «298- و أخرجه الجوهري (486) من حديث مالك به ورواه البخاري (131) من حديث مالك، ومسلم (2811) من حديث عبداللٰه بن دينار به.»

4. سنت سے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی محبت
حدیث نمبر: 631
418- وعن سعيد بن أبى سعيد عن عبيد بن جريج أنه قال لعبد الله بن عمر: يا أبا عبد الرحمن، رأيتك تصنع أربعا لم أر أحدا من أصحابك يصنعها، قال: وما هي يا ابن جريج؟ قال: رأيتك لا تمس من الأركان إلا اليمانيين، ورأيتك تلبس النعال السبتية، ورأيتك تصبغ بالصفرة، ورأيتك إذا كنت بمكة أهل الناس إذا رأوا الهلال ولم تهل أنت حتى كان يوم التروية، قال عبد الله بن عمر: أما الأركان فإني لم أر رسول الله صلى الله عليه وسلم يمس من الأركان إلا اليمانيين، وأما النعال السبتية فإني رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يلبس النعال التى ليس فيها شعر ويتوضأ فيها، فأنا أحب أن ألبسها، وأما الصفرة فإني رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يصبغ بها، فأنا أحب أن أصبغ بها، وأما الإهلال فإني لم أر رسول الله صلى الله عليه وسلم يهل حتى تنبعث به راحلته.
عبید بن جریج رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ انہوں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا: اے ابوعبدالرحمٰن! میں نے اپ کو چار ایسی چیزیں کرتے ہوئے دیکھا ہے جو کہ آپ کے ساتھیوں میں سے کوئی بھی نہیں کرتا۔ انہوں نے پوچھا: اے ابن جریج! یہ کون سی چیزیں ہیں؟ میں نے کہا: آپ (طواف کے دوران میں) صرف دو یمنی رکنوں (کعبہ کی دو دیواریں جو یمن کی طرف ہیں) کو چھوتے ہیں اور میں نے دیکھا ہے کہ آپ بغیر بالوں والے جوتے پہنتے ہیں اور میں نے دیکھا ہے کہ آپ زرد خضاب لگاتے ہیں اور جب آپ مکہ میں ہوتے ہیں (اور) لوگ (ذوالحجہ کا) چاند دیکھتے ہی لبیک کہنا شروع کرتے ہیں جبکہ آپ ترویہ کے دن (۸ ذولحجہ) سے پہلے لبیک نہیں کہتے۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: رہا مسئلہ ارکان کا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو یمنی ارکان چھونے کے علاوہ نہیں دیکھا کہ آپ نے کسی رکن کو چھوا ہو، رہے بغیر بالوں والے جوتے، تو میں نے دیکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بغیر بالوں والے جوتے پہنتے اور ان میں وضو کرتے تھے اور میں پسند کرتا ہوں کہ انہیں پہنوں، رہا زرد خضاب تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خضاب لگاتے ہوئے دیکھا ہے اور میں اس وجہ سے یہ خضاب لگانا پسند کرتا ہوں، رہا لبیک کہنا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (منیٰ کی طرف ۸ ذوالحجہ کو) سواری روانہ کرنے سے پہلے لبیک کہتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 631]
تخریج الحدیث: «418- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 333/1 ح 784، ك 20 ب 9 ح 31) التمهيد 74/21، الاستذكار: 700، و أخرجه البخاري (166) ومسلم (1187) من حديث مالك به، سقط من الأصل واستدركته من رواية يحيي بن يحيي .»

5. سیدہ ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا کی فضیلت
حدیث نمبر: 632
117- وبه قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا ذهب إلى قباء يدخل على أم حرام بنت ملحان فتطعمه. وكانت أم حرام بنت ملحان تحت عبادة بن الصامت، فدخل عليها رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما فأطعمته وجلست تفلي رأسه، فنام رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم استيقظ وهو يضحك قالت: فقلت له: ما يضحكك يا رسول الله؟ فقال: ناس من أمتي عرضوا على غزاة فى سبيل الله يركبون ثبج هذا البحر ملوكا على الأسرة أو مثل الملوك على الأسرة يشك إسحاق. قالت: فقلت: يا رسول الله، ادع الله أن يجعلني منهم فدعا لها ثم وضع رأسه فنام ثم استيقظ يضحك. قالت: فقلت: ما يضحكك يا رسول الله؟ قال: ناس من أمتي عرضوا على غزاة فى سبيل الله، ملوكا على الأسرة أو مثل الملوك على الأسرة“ كما قال فى الأولى. قالت: فقلت: يا رسول الله، ادع الله أن يجعلني منهم. فقال: ”أنت من الأولين.“ قال: فركبت البحر فى زمان معاوية بن أبى سفيان فصرعت عن دابتها حين خرجت من البحر فهلكت.
اور اسی سند کے ساتھ روایت ہے کہ (سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے) فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب قباء جاتے تو ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے جاتے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانا کھلاتی تھیں، ام حرام بنت ملحان سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ  عنہ کی بیوی تھیں پس اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے گئے تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانا کھلایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر (کے بالوں) میں ٹٹولنے لگیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نیند سے بیدار ہوئے تو ہنس رہے تھے، ام حرام رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: یا رسو ل اللہ! آ پ کیوں ہنس رہے ہیں؟ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے (نیند میں) میری امت کے کچھ لوگ دکھائے گئے جو اس سمندر کے درمیان اللہ کے  راستے میں جہاد کر رہے تھے گویا کہ وہ تختوں پر بادشاہ بیٹھے ہیں۔ انہوں نے کہا: میں نے عرض کیا: یا رسو ل اللہ! اللہ سے دعا کریں کہ اللہ مجھے ان میں شامل کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے دعا فرمائی پھر سر رکھ کر سو گئے پھر جب نیند سے اٹھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس رہے تھے، ام حرام رضی اللہ عنہا نے کہا: کہ میں نے پوچھا: یا رسول اللہ! آ پ کس وجہ سے ہنس رہے ہیں؟ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کے کچھ لوگ مجھے (نیند میں) دکھائے جو تخت نشین بادشاہوں کی طرح بیٹھے اللہ کی راستے میں جہاد کر رہے ہیں۔ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی دفعہ فرمایا تھا تو ام حرام رضی اللہ عنہا نے کہا: کہ میں نے کہا: یا رسول اللہ! آپ اللہ سے دعا کریں کہ وہ مجھے ان میں شامل کرے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم پہلے گروہ میں ہو۔ (سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے) فرمایا: پھر وہ سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ (کے دور امارت) کے زمانے میں سمندری جہاد میں شامل ہوئیں پھر جب وہ سمندر سے باہر تشرف لائیں تو سواری سے گر کر فوت ہو گئیں۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 632]
تخریج الحدیث: «117- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 464/2، 465 ح 1026، ك 21 ب 18 ح 39) التمهيد 225/1، الاستذكار: 963، و أخرجه البخاري (2788، 2789) ومسلم (1912/160) من حديث مالك به.»

6. سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کا مثالی کردار
حدیث نمبر: 633
116- وبه قال: كان أبو طلحة أكثر الأنصار بالمدينة مالا من نخل، وكان أحب أمواله إليه بيرحاء وكانت مستقبلة المسجد، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يدخلها ويشرب من ماء فيها طيب. قال أنس: فلما أنزلت هذه الآية: {لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون} قام أبو طلحة إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله إن الله يقول فى كتابه: {لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون} وإن أحب أموالي إلى بيرحاء، وإنها صدقة لله أرجو برها وذخرها عند الله، فضعها يا رسول الله حيث شئت. قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم بخ، ذلك مال رابح، ذلك مال رابح قد سمعت ما قلت فيها، وإني أرى أن تجعلها فى الأقربين.“ فقال أبو طلحة: أفعل يا رسول الله، فقسمها أبو طلحة فى أقاربه وبني عمه.
اور اسی سند کے ساتھ روایت ہے کہ (سیدنا) انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: انصار مدینہ میں سے (سیدنا) ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سب سے زیادہ مالدار  تھے کہ ان کے کھجور کے باغات تھے اور انہیں ان میں سے بیرحاء کا باغ سب سے زیادہ پسند تھا جو مسجد کے سامنے تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس (باغ) میں تشریف لے جاتے اور اس کا میٹھا پانی پیتے تھے، سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب یہ آیت نازل ہوئی « لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ» [ آل عمران: 92]  تم اس وقت نیکی (کے درجے) تک نہیں پہنچ سکتے جب تک (اس کے راستے میں) وہ نہ خرچ کر دو جسے تم  پسند کرتے ہو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: یا رسول اللہ! اللہ اپنی کتاب میں فرماتا ہے: « لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ» اور مجھے اپنے اموال میں سے بیرحاء (کا باغ) سب سے زیادہ پسند ہے اور یہ (اب) اللہ کے لئے صدقہ ہے، مجھے امید ہے کہ یہ اللہ کے دربار میں میرے لئے نیکی اور ذخیرہ ہو گا، یا رسول اللہ! آ پ جیسے چاہیں اسے استعمال کریں انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: واہ! یہ نفع بخش مال ہے، یہ نفع بخش مال ہے، میں نے تمہاری بات سنی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ تم اسے اپنے رشتہ داروں میں خرچ کرو، تو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یا رسول اللہ! میں اسی طرح کرتا ہوں، پھر اسے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنے رشتہ داروں اور اپنے چچا کی اولاد میں تقسیم کر دیا ۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 633]
تخریج الحدیث: «116- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 995/2، 996 ح 1940، ك 58 ب 1 ح 2) التمهيد 198/1، الاستذكار: 1877، و أخرجه البخاري (2752، 1461) ومسلم (998/42) من حديث مالك به.»