الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    


موطا امام مالك رواية ابن القاسم کل احادیث (657)
حدیث نمبر سے تلاش:

موطا امام مالك رواية ابن القاسم
मुवत्ता इमाम मलिक रवायात इब्न अल-क़ासिम
فضائل و سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم
1. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ مبارک کا بیان
حدیث نمبر: 622
159- مالك عن ربيعة بن أبى عبد الرحمن عن أنس بن مالك أنه سمعه يقول: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ليس بالطويل البائن ولا بالقصير، وليس بالأبيض الأمهق وليس بالآدم، وليس بالجعد القطط ولا بالسبط بعثه الله على رأس أربعين سنة، فأقام بمكة عشر سنين وبالمدينة عشر سنين، وتوفاه الله على رأس ستين سنة، وليس فى رأسه ولحيته عشرون شعرة بيضاء صلى الله عليه وسلم. قال مالك: الأمهق: الأبيض. قال أبو الحسن: يريد الشديد البياض.
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ بہت زیادہ لمبے تھے اور نہ بہت زیادہ چھوٹے قد کے تھے، آپ نہ بالکل سیدھے تھے، چالیس سال کی عمر میں اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معبوث فرمایا (نبی بنایا) آپ مکہ میں دس (اور تین) سال رہے اور مدینہ میں دس سال رہے۔ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساٹھ (اور تین) سال کی عمر میں وفات دی۔ آپ کے سر اور داڑھی میں بیس بال بھی سفید نہیں تھے۔ مالک نے کہا: الامہق سفید کو کہتے ہیں۔ ابوالحسن (القابسی) نے کہا: اس سے مراد بہت زیادہ سفید ہونا ہے۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 622]
تخریج الحدیث: «159- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 919/2 ح 1772، ك 49 ب 1 ح 1) التمهيد 7/3، الاستذكار:1704، و أخرجه البخاري (3548) ومسلم (2347) من حديث مالك به.»

2. نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کا بیان
حدیث نمبر: 623
43- وبه: أنها قالت: ما خير رسول الله صلى الله عليه وسلم فى أمرين إلا أخذ أيسرهما ما لم يكن إثما. فإن كان إثما كان أبعد الناس منه. وما انتقم رسول الله صلى الله عليه وسلم لنفسه إلا أن تنتهك حرمة هي لله فينتقم لله بها.
اور اسی سند (کے ساتھ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا) سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جن دو کاموں میں اختیار دیا گیا تو آپ نے ان میں سے آسان کام ہی اختیار کیا بشرطیکہ وہ گناہ والا (ناجائز) کام نہ ہوتا اور اگر گناہ کا کام ہوتا تو آپ اس سے سب سے زیادہ دور رہنے والے ہوتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جان کے لئے کسی سے کبھی انتقام نہیں لیا الا یہ کہ اللہ کی مقرر کردہ حرمت کی خلاف ورزی ہوتی ہو تو اس صورت میں آپ اللہ کے لئے اس کا انتقام لیتے تھے۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 623]
تخریج الحدیث: «43- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 902/2، 903 ح 1736، ك 47 ب 1 ح 2) التمهيد 146/8، الاستذكار: 1668، و أخرجه البخاري (3560) ومسلم (2327/77) من حديث مالك به.»

3. آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت کا بیان
حدیث نمبر: 624
78- وبه: عن أبى سعيد الخدري أن ناسا من الأنصار سألوا رسول الله صلى الله عليه وسلم فأعطاهم ثم سألوه فأعطاهم، ثلاثا، حتى نفد ما عنده، ثم قال: ”ما يكون عندي من خير فلن أدخره عنكم، ومن يستعفف يعفه الله، ومن يستغن يغنه الله، ومن يتصبر يصبره الله. وما أعطي أحد عطاء هو خير وأوسع من الصبر.“
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انصار کے کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تین دفعہ (مال) مانگا تو آپ نے انہیں (تین دفعہ) عطا فرمایا حتی کہ آپ کے پاس جو کچھ تھا سب ختم ہو گیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس جو بھی خیر ہو گی (بہترین مال ہو گا) تو میں اسے تم سے (روک کر) ہرگز ذخیرہ نہیں کروں گا (بلکہ تمہیں دے دوں گا) اور جو شخص مانگنے سے بچے گا تو اللہ تعالیٰ اسے بچائے گا اور جو بےنیازی اختیار کرے گا تو اللہ اسے بےنیاز کر دے گا جو شخص صبر کرے گا تو اللہ اسے صابر و شاکر بنا دے گا اور صبر سے زیادہ بہتر اور وسیع کوئی چیز (لوگوں کو) عطا نہیں کی گئی ہے۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 624]
تخریج الحدیث: «78- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 997/2 ح 1945، ك 58 ب 2 ح 7) التمهيد 131/10، الاستذكار: 1882، و أخرجه البخاري (1469) ومسلم (1053) من حديث مالك به.»

4. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کا بیان
حدیث نمبر: 625
114- مالك عن إسحاق بن عبد الله بن أبى طلحة عن أنس بن مالك قال: رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم وحانت صلاة العصر فالتمس الناس الوضوء فلم يجدوه، فأتي رسول الله صلى الله عليه وسلم بوضوء، فوضع رسول الله صلى الله عليه وسلم فى ذلك الإناء يده وأمر الناس أن يتوضؤوا منه._x005F_x000D_قال: فرأيت الماء ينبع من تحت أصابعه، فتوضأ الناس حتى توضؤوا من عند آخرهم.
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، عصر کی نماز کا وقت ہوا تو لوگوں نے وضو کا پانی تلاش کیا مگر پانی نہ ملا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وضو کا تھوڑا سا پانی لایا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس برتن میں اپنا ہاتھ رکھا اور لوگوں کو اس سے وضو کرنے کاحکم دیا۔ (سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے) کہا: میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں کے نیچے سے پانی پھوٹ رہا تھا پھر (لشکر کے) آخری آدمی تک تمام لوگوں نے اس پانی سے وضو کر لیا ۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 625]
تخریج الحدیث: «114- متفق عليه،الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 32/1 ح 169، ك 2 ب 6 ح 32) التمهيد 217/1، الاستذكار: 55، و أخرجه البخاري (169) ومسلم (2279) من حديث مالك به .»

حدیث نمبر: 626
119- وبه: أنه سمع أنس بن مالك يقول: قال أبو طلحة لأم سليم: لقد سمعت صوت رسول الله صلى الله عليه وسلم ضعيفا أعرف فيه الجوع، هل عندك من شيء؟ فقالت: نعم. فأخرجت أقراصا من شعير، ثم أخذت خمارا لها فلفت الخبز ببعضه، ثم دسته تحت يدي وردتني ببعضه، ثم أرسلتني إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم. قال: فذهبت به فوجدت رسول الله صلى الله عليه وسلم جالسا فى المسجد ومعه الناس فقمت عليهم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”آرسلك أبو طلحة؟“ فقلت: نعم. فقال: ”لطعام؟“ فقلت: نعم. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لمن معه: ”قوموا.“ قال: فانطلق وانطلقت بين أيديهم حتى جئت أبا طلحة فأخبرته. فقال أبو طلحة: يا أم سليم، قد جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم بالناس وليس عندنا من الطعام ما نطعمهم. فقالت: الله ورسوله أعلم. قال: فانطلق أبو طلحة حتى لقي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فأقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبو طلحة حتى دخلا فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”هلم يا أم سليم ما عندك.“ فأتت بذلك الخبز. قال: فأمر به رسول الله صلى الله عليه وسلم ففت، وعصرت عليه أم سليم عكة لها فآدمته، ثم قال فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم ما شاء الله أن يقول. ثم قال: ”إئذن لعشرة“ فأذن لهم فأكلوا حتى شبعوا ثم خرجوا ثم قال: ”إئذن لعشرة“ فأذن لهم فأكلوا حتى شبعوا ثم خرجوا. ثم قال: ”إئذن لعشرة“ فأذن لهم فأكلوا حتى شبعوا ثم خرجوا. ثم أذن لعشرة حتى أكل القوم كلهم وشبعوا، والقوم سبعون رجلا أو ثمانون رجلا.
اور اسی سند کے ساتھ روایت ہے کہ انہوں (اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ) نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا: ابوطلحہ نے(اپنی بیوی) ام سلیم رضی اللہ عنہا سے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز کمزور سنی ہے اس میں بھوک کا اثر محسوس کرتا ہوں، کیا تمہارے پاس (کھانے کے لئے) کوئی چیز ہے؟ تو انہوں نے کہا: ہاں! پھر انہوں نے جوَ کی کچھ روٹیاں نکالیں، پھر اپنا ایک دوپٹہ لے کر اس میں  روٹیاں اوپر نیچے ڈھانپ دیں پھر انہیں میری بغل میں دبا دیا اور بعض حصے کو میری چادر بنا دیا پھر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا گیا تو دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد لوگ بیٹھے ہیں، میں ان کے قریب کھڑا ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا تجھے ابوطلحہ نے بھیجا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا کھانے کے لئے؟ میں نے کہا: جی ہاں! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں سے کہا: اٹھو (انس رضی اللہ عنہ نے) کہا:! پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہوئے اور میں آگے آگے چلا حتی ٰ کہ جا کر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کو بتایا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اے ام سلیم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے ساتھ تشریف لا رہے ہیں اور ہمارے پاس انہیں کھلانے کے لئے کھانا نہیں ہے اُمِ سلیم رضی اللہ عنہا نے فرمایا: اللہ اور اس کا رسول سب سے زیادہ جانتے ہیں، پھر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوطلحہ رضی اللہ عنہ دونوں تشریف لائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اُم سلیم! جو کچھ تمہارے پاس ہے لے آو تو وہ روٹیاں لائیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو ان روٹیوں کے ٹکڑے کر کے چُوری بنائی گئی اور اُم سلیم نے اس پر ایک برتن سے گھی نچوڑا تو یہ چُوری نما سالن بن گیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ دعا پڑھی جو اللہ نے چاہی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دس آدمیوں کو لے آؤ۔ دس آ دمی بلائے گئے حتیٰ کہ انہوں نے خوب سیر ہو کر کھانا کھایا اور باہر چلے گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دس آ دمیوں کو بلاؤ دس آدمی بلائے گئے تو انہوں نے خوب پیٹ بھر کر کھانا کھایا اور باہر چلے گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دس آ دمیوں کو بلاؤ دس آ دمی بلائے گئے تو انہوں نے خوب سیر ہو کر کھانا کھایا اور باہر چلے گئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس آدمی بلائے حتیٰ کہ سارے آدمیوں نے جو ستر یا اسی تھے خوب پیٹ پھر کر سیر ہو کر کھانا کھایا ۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 626]
تخریج الحدیث: «119- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 927/2، 928 ح 1789، ك 49 ب 10 ح 19) التمهيد 288/1، 289، الاستذكار: 1722، و أخرجه البخاري (5381) ومسلم (2040) من حديث مالك به، من رواية يحيي بن يحيي، من رواية يحيي جاء فى الأصل: ”هلم“.»

4. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیر البشر
حدیث نمبر: 627
478- وبه: عن أم سلمة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إنما أنا بشر وإنكم تختصمون إلى ولعل بعضكم أن يكون ألحن بحجته من بعض فأقضي له على نحو ما أسمع منه فمن قضيت له بشيء من حق أخيه فلا يأخذ منه شيئا فإنما أقطع له قطعة من النار.
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تو ایک بشر ہوں اور تم میرے پاس جھگڑے لے کر آتے ہو، ہو سکتا ہے کہ بعض آدمی دوسرے کی بہ نسبت اچھے طریقے سے اپنی دلیل بیان کرنے والے ہوں تو میں جیسے سنوں اس کے مطابق ان کے حق میں فیصلہ کر دوں۔ پس (ایسی صورت میں اگر) میں نے جس شخص کے بارے میں اس کے بھائی کے حق میں سے فیصلہ کر دیا تو وہ اس میں سے کچھ بھی نہ لے کیونکہ میں اس کے حوالے آگ کا ایک ٹکڑا کر رہا ہوں۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 627]
تخریج الحدیث: «478- الموطأ (رواية يحيٰي بن يحيٰي 719/2 ح 1460، ك 36 ب 1 ح 1) التمهيد 215/22، الاستذكار: 1384، و أخرجه البخاري (2680) من حديث مالك، ومسلم (1713/4) من حديث هشام بن عروة به .»