78- وبه: عن أبى سعيد الخدري أن ناسا من الأنصار سألوا رسول الله صلى الله عليه وسلم فأعطاهم ثم سألوه فأعطاهم، ثلاثا، حتى نفد ما عنده، ثم قال: ”ما يكون عندي من خير فلن أدخره عنكم، ومن يستعفف يعفه الله، ومن يستغن يغنه الله، ومن يتصبر يصبره الله. وما أعطي أحد عطاء هو خير وأوسع من الصبر.“
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انصار کے کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تین دفعہ (مال) مانگا تو آپ نے انہیں (تین دفعہ) عطا فرمایا حتی کہ آپ کے پاس جو کچھ تھا سب ختم ہو گیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے پاس جو بھی خیر ہو گی (بہترین مال ہو گا) تو میں اسے تم سے (روک کر) ہرگز ذخیرہ نہیں کروں گا (بلکہ تمہیں دے دوں گا) اور جو شخص مانگنے سے بچے گا تو اللہ تعالیٰ اسے بچائے گا اور جو بےنیازی اختیار کرے گا تو اللہ اسے بےنیاز کر دے گا جو شخص صبر کرے گا تو اللہ اسے صابر و شاکر بنا دے گا اور صبر سے زیادہ بہتر اور وسیع کوئی چیز (لوگوں کو) عطا نہیں کی گئی ہے۔“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 615]
تخریج الحدیث: «78- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 997/2 ح 1945، ك 58 ب 2 ح 7) التمهيد 131/10، الاستذكار: 1882، و أخرجه البخاري (1469) ومسلم (1053) من حديث مالك به.»
2. مصیبت میں خیر کا پہلو
حدیث نمبر: 616
93- مالك عن محمد -يعني ابن عبد الله بن عبد الرحمن بن أبى صعصعة- أنه قال: سمعت سعيد بن يسار أبا الحباب يقول: سمعت أبا هريرة يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”من يرد الله به خيرا يصب منه.“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے ساتھ اللہ خیر کا ارادہ کرتا ہے تو اس (کی صحت یا مال میں) سے کچھ لے لیتا ہے۔“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 616]
تخریج الحدیث: «93- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 941/2 ح 1816، ك 50 ب 3 ح 7) التمهيد 119/13، وقال: ”هذا حديث صحيح“، الاستذكار: 1751، و أخرجه البخاري (5645) من حديث مالك به.»
3. ناشکری جہنم لے جانے کا ایک ذریعہ ہے
حدیث نمبر: 617
171- وبه: أنه قال: خسفت الشمس فى عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، والناس معه، فقام قياما طويلا، قال: نحوا من سورة البقرة، قال: ثم ركع ركوعا طويلا ثم رفع فقام قياما طويلا وهو دون القيام الأول، ثم ركع ركوعا طويلا وهو دون الركوع الأول ثم سجد، ثم قام قياما طويلا وهو دون القيام الأول، ثم ركع ركوعا طويلا وهو دون الركوع الأول، ثم رفع فقام قياما طويلا وهو دون القيام الأول، ثم ركع ركوعا طويلا وهو دون الركوع الأول، ثم سجد ثم انصرف وقد تجلت الشمس، فخطب الناس، فقال: ”إن الشمس والقمر آيتان من آيات الله لا يخسفان لموت أحد ولا لحياته، فإذا رأيتم ذلك فاذكروا الله“، قالوا: يا رسول الله رأيناك تناولت شيئا فى مقامك هذا، ثم رأيناك تكعكعت، فقال: ”إني رأيت الجنة، أو أريت الجنة، فتناولت منها عنقودا، ولو أخذته لأكلتم منه ما بقيت الدنيا. ورأيت النار فلم أر كاليوم منظرا قط أفظع، ورأيت أكثر أهلها النساء“، قالوا: بم يا رسول الله؟ قال: ”بكفرهن“، قيل: أيكفرن بالله؟ قال: ”يكفرن العشير ويكفرن الإحسان، لو أحسنت إلى إحداهن الدهر ثم رأت منك شيئا، قالت: ما رأيت منك خيرا قط.“
اور اسی سند کے ساتھ روایت ہے کہ (سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے) فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سورج گرہن ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو نماز پڑھائی، تو (بہت) لمبا قیام فرمایا یعنی سورة البقرہ کے برابر، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (بہت) لمبا رکوع کیا، پھر اٹھ کر قیام فرمایا جو پہلے قیام سے کم تھا، پھر لمبا رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کم تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا پھر (دوسری رکعت میں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لمبا قیام فرمایا جو پہلے قیام سے کم تھا پھر آپ نے لمبا رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کم تھا پھر آپ (رکوع سے) اٹھے تو لمبا قیام کیا جو پہلے قیام سے کم تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لمبا رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کم تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا پھر سلام پھیرا اور سورج روشن ہو چکا تھا، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو خطبہ دیا اور فرمایا: ”سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، انہیں کسی کے مرنے یا جینے سے گرہن نہں لگتا، لہٰذا اگر تم ایسی حالت پاؤ تو اللہ کا ذکر کرو۔“ لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ! ہم نے دیکھا کہ آپ نے اپنے اس مقام پر کھڑے ہو کر کسی چیز کو پکڑنے کی کوشش کی پھر ہم نے دیکھا کہ آپ پیچھے ہٹ گئے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے جنت دیکھی یا مجھے جنت دکھائی گئی تو میں نے اس میں سے ایک گچھا لینے کا ارادہ کیا اور اگر میں اس سے لے لیتا تو تم جب تک دنیا باقی ہے، اس سے کھاتے رہتے اور میں نے (جہنم کی) آگ دیکھی تو آج تک اس جیسا خوفناک منظر نہیں دیکھا اور میں نے اس میں اکثریت عورتوں کی دیکھی۔“ لوگوں نے پوچھا: یا رسول اللہ! یہ کیوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”ان کے کفر کی وجہ سے۔“ پوچھا گیا: کیا وہ اللہ کے ساتھ کفر کرتی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اپنے خاوندوں کے ساتھ کفر یعنی ناشکری کرتی ہیں اور احسان (نیکی) کی ناشکری کرتی ہیں، اگر تم کسی کے ساتھ ساری عمر نیکی کرتے رہو پھر وہ تم سے کوئی ایسی چیز دیکھے (جو اسے ناپسند ہے) تو وہ کہہ دیتی ہے میں نے تجھ سے کبھی خیر نہیں دیکھی۔“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 617]
تخریج الحدیث: «171- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 186/1، 187 ح 446، ك 12 ب 1 ح 2) التمهيد 301/3، 302، الاستذكار:416، و أخرجه البخاري (1052) ومسلم (907) من حديث مالك به.»