203- وعن نافع عن ابن عمر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”إنما مثل صاحب القرآن كمثل صاحب الإبل المعقلة إن عاهد عليها أمسكها وإن أطلقت ذهبت.“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صاحب قرآن (حافظ) کی مثال اس شخص جیسی ہے جس کے اونٹ بندھے ہوئے ہوں، اگر وہ ان کا خیال رکھے گا تو انہیں قابو میں رکھے گا اور اگر چھوڑ دے گا تو یہ اونٹ (بھاگ کر) چلے جائیں گے “[موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 567]
تخریج الحدیث: «203- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 202/1 ح 475، ك 15 ب 4 ح 6) التمهيد 131/14، الاستذكار:444، و أخرجه البخاري (5031) ومسلم (789) من حديث مالك به، من رواية يحيي بن يحيي و سقط من الأصل»
2. جس کے لئے اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ فرمائے
حدیث نمبر: 568
521- مالك عن يزيد بن زياد عن محمد بن كعب القرظي أنه قال: قال معاوية بن أبى سفيان وهو على المنبر: أيها الناس، إنه لا مانع لما أعطى الله، ولا معطي لما منع الله، ولا ينفع ذا الجد منه الجد، من يرد الله به خيرا يفقهه فى الدين. ثم قال: سمعت هؤلاء الكلمات من رسول الله صلى الله عليه وسلم على هذه الأعواد.
سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما نے (مدینہ میں) منبر پر فرمایا: اے لوگو! جسے اللہ دے اسے روکنے والا کوئی نہیں اور جس سے اللہ روک لے، اسے دینے والا کوئی نہیں اور کسی بزرگی والے کی بزرگی اسے نفع نہیں دیتی۔ جس کے ساتھ اللہ خیر کا ارادہ کرتا ہے اسے دین کا تفقہ (سوجھ بوجھ) عطا فرماتا ہے۔ پھر انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس منبر پر یہ کلمات سنے ہیں۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 568]
تخریج الحدیث: «521- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 900/2، 901ح 1732، ك 46 ب 2 ح 8) التمهيد 78/23، الاستذكار: 1669، و أخرجه البخاري فى الادب المفرد (666) من حديث مالك به، من رواية يحيي بن يحيي۔ وجاء فى الأصل: ”عن عبد بن كعب“ وهو خطأ .»
3. تعلیم قرآن پر اجرت کا مسئلہ . . .
حدیث نمبر: 569
411- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم جاءته امرأة فقالت: يا رسول الله، إني قد وهبت نفسي لك؛ فقامت قياما طويلا، فقام رجل فقال: يا رسول الله، زوجنيها إن لم تكن لك بها حاجة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”هل عندك من شيء تصدقها إياه؟“ قال: ما عندي إلا إزاري هذا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”إن أعطيتها إزارك جلست لا إزار لك، فالتمس شيئا“ قال: ما أجد شيئا، قال: ”التمس ولو خاتم حديد“ فالتمس فلم يجد شيئا، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”هل معك من القرآن شيء“ قال: نعم، سورة كذا وسورة كذا لسور سماها لرسول الله صلى الله عليه وسلم فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”قد زوجتكها بما معك من القرآن.“
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا سہل رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک عورت نے آ کر عرض کیا: یا رسول اللہ! میں اپنی جان آپ کو ہبہ کرتی ہوں پھر وہ کافی دیر کھڑی رہی تو ایک آدمی نے کھڑے ہو کر کہا: یا رسول اللہ! اگر آپ کو ضرورت نہیں ہے تو اس کا نکا ح میرے ساتھ کر دیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہارے پاس کوئی ایسی چیز ہے جو تم اسے حق مہر میں دے سکو؟“ اس آدمی نے کہا: میرے پاس اس ازار کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم اسے اپنا ازار دے دو گے تو پھر تمہارے پاس کوئی ازار نہیں رہے گا، جاؤ اور کوئی چیز تلاش کرو“ انہوں نے کہا: میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تلاش کرو اگرچہ لوہے کی ایک انگوٹھی ہی کیوں نہ ہو۔“ اس آدمی نے تلاش کیا تو کچھ بھی نہ پایا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا: ”کیا قرآن میں سے کچھ تمہیں یاد ہے؟“ اس نے کہا: جی ہاں! فلاں فلاں سورت یاد ہے اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کچھ سورتوں کے نام لئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا: میں نے اس عورت کا نکا ح تمہارے ساتھ اس قرآن کے عوض کر دیا جو تمہیں یاد ہے۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 569]
تخریج الحدیث: «411- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 526/2 ح 1141، ك 28 ب 3 ح 8) التمهيد 109/21، الاستذكار: 1065، و أخرجه البخاري (5135) و الترمذي (1114) من حديث مالك به، ورواه مسلم (1424) من حديث ابي حازم به .»
4. اسلام کے دشمن علاقے میں قرآن مجید لے کر جانے کی ممانعت
حدیث نمبر: 570
212- وبه: أنه قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يسافر بالقرآن إلى أرض العدو. قال مالك: أراه مخافة أن يناله العدو.
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اسلام کے) دشمنوں کے علاقے میں قرآن لے کر سفر کر نے سے منع کیا ہے۔، امام مالک رحمہ اللہ نے کہا: میرا خیال ہے کہ اس میں یہ خوف ہے کہ کہیں دشمن کے ہاتھ نہ لگ جائے۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 570]
تخریج الحدیث: «212- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 446/2 ح 992، ك 21 ب 2 ح 7) التمهيد 253/15، الاستذكار:931، و أخرجه البخاري (2990) ومسلم (1869) من حديث مالك به.»
5. سات قرأتوں کا بیان
حدیث نمبر: 571
47- مالك عن ابن شهاب عن عروة بن الزبير عن عبد الرحمن بن عبد القاري قال: سمعت عمر بن الخطاب يقول: سمعت هشام بن حكيم يقرأ سورة الفرقان على غير ما أقرؤها عليه، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم أقرأنيها، فكدت أن أعجل عليه، ثم أمهلته حتى انصرف، ثم لببته بردائه فجئت به رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت: يا رسول الله، إني سمعت هذا يقرأ سورة الفرقان على غير ما أقرأتنيها. فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”اقرأ“ فقرأ القراءة التى سمعته يقرأ. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”هكذا أنزلت.“ ثم قال لي: ”اقرأ“: فقرأت، فقال: ”هكذا أنزلت. إن هذا القرآن أنزل على سبعة أحرف فاقرؤوا ما تيسر منه.“
سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ کو سورة الفرقان اس طرح پڑھتے ہوئے سنا جس طرح میں نہیں پڑھتا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سورت مجھے پڑھائی تھی تو قریب تھا کہ میں ان (ہشام رضی اللہ عنہ) پر جلدی میں حملہ کر دیتا۔ پھرمیں نے انھیں مہلت دی جب وہ (قرأت سے) فارغ ہوئے تو میں ان کی چادر کو ان کے گلے میں لپیٹ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گیا پھر میں نے کہا: یا رسول اللہ! جیسے آپ نے مجھے سورة الفرقان پڑھائی ہے، میں نے ان (ہشام) کو سورة الفرقان اس کے خلاف پڑھتے ہوئے سنا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہشام سے فرمایا: ”پڑھو!“ تو انہوں نے اسی طرح پڑھا جس طرح میں نے سنا تھا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ اسی طرح نازل ہوئی ہے۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”پڑھو!“ میں نے (یہ سورت) پڑھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ اسی طرح نازل ہوئی ہے۔“ یہ قرآن سات حرفوں (قرأت وں) پر نازل ہوا ہے لہٰذا اس میں سے جو میسر ہو پڑھو۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 571]
تخریج الحدیث: «47- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 201/1 ح 474، ك 15 ب 4 ح 5) التمهيد 272/8، الاستذكار: 443، و أخرجه البخاري (2419) ومسلم (818) من حديث مالك به .»
6. سورۂ فتح کی فضیلت
حدیث نمبر: 572
167- مالك عن زيد بن أسلم عن أبيه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يسير فى بعض أسفاره، وعمر بن الخطاب يسير معه ليلا فسأله عمر بن الخطاب عن شيء فلم يجبه رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم سأله فلم يجبه، ثم سأله فلم يجبه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال عمر بن الخطاب: ثكلتك أمك عمر، نزرت رسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاث مرات، كل ذلك لا يجيبك، قال: قال عمر فحركت بعيري حتى تقدمت أمام الناس وخشيت أن ينزل فى قرآن، فما نشبت أن سمعت صارخا يصرخ، فقلت: لقد خشيت أن يكون نزل فى قرآن، فجئت رسول الله صلى الله عليه وسلم فسلمت عليه، فقال: ”لقد أنزلت على الليلة سورة لهي أحب إلى مما طلعت عليه الشمس“، ثم قرأ: {إنا فتحنا لك فتحا مبينا}. قال أبو الحسن: قوله: قال: ”فحركت بعيري“ إلى آخره، يبين أن أسلم عن عمر رواه.
اسلم (تابعی) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کسی سفر میں جا رہے تھے اور سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بھی رات کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر کر رہے تھے، پھر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے آپ سے کسی چیز کے بارے میں پوچھا: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب نہیں دیا، پھر (دوبارہ) پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب نہیں دیا، پھر (سہ بار) پوچھا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہیں دیا، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے (اپنے آپ سے) کہا: اے عمر! تجھے تیری ماں گم پائے، تو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تین دفعہ اصرار کر کے سوالات کئے اور ہر دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب نہیں دیا، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے اپنے اونٹ کو حرکت دی حتیٰ کہ میں لوگوں کے سامنے پہنچ گیا اور مجھے ڈر لگا کے میرے بارے میں قرآن نازل ہو جائے گا تھوڑی ہی دیر بعد میں نے ایک آواز دینے والے کی اونچی آواز سنی، تو میں نے کہا: مجھے ڈر ہے کہ میرے بارے میں قر آن نازل ہو گیا ہے، پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ کو سلام کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آج رات مجھ پر ایک سورت نازل ہوئی ہے جو مجھے ہر اس چیز سے زیادہ پیاری جس پر سورج کی روشنی پڑتی ہے“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے، «إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا» ہم نے آپ کو فتح مبین عطا فرمائی (سورة فتح) کی تلاوت فرمائی۔ ابوالحسن (القابسی) نے کہا: راوی کا قول ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر میں نے اونٹ کو حرکت دی۔۔۔ الخ، یہ واضح کرتا ہے کہ اس روایت کو اسلم نے عمر رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 572]
تخریج الحدیث: «167- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 203/1, 204 ح 478، ك 15 ب 4 ح 9) التمهيد 263/3، الاستذكار:447، و أخرجه البخاري (4177) من حديث مالك به.»
7. سورۂ اخلاص کی فضیلت
حدیث نمبر: 573
382- مالك عن عبيد الله بن عبد الرحمن عن عبيد بن حنين مولى آل زيد بن الخطاب أنه قال: سمعت أبا هريرة يقول: أقبلت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فسمع رجلا يقرأ {قل هو الله أحد. الله الصمد. لم يلد ولم يولد. ولم يكن له كفوا أحد} فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”وجبت“ فسألته: ماذا يا رسول الله؟ فقال: ”الجنة“ فقال أبو هريرة: فأردت أن أذهب إلى الرجل فأبشره، ثم فرقت أن يفوتني الغداء، مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فآثرت الغداء ثم ذهبت إلى الرجل فوجدته قد ذهب. وحديث عبيد الله الأغر قد تقدم مع زيد بن رباح. تم الجزء الثاني من الملخص بحمد الله عدد من وقع فيه ممن روى عنه مالك ثلاثون رجلا، لجميعهم فيه مائتا حديث وأربعة وثلاثون حديثا.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آیا تو ایک آدمی کو «قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ . اللَّـهُ الصَّمَدُ . لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ . وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ»”کہہ دو! وہ اللہ اکیلا ہے، اللہ بے نیاز ہے، نہ اس سے کوئی پیدا ہوا اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔“(سورة الاخلاص) کی تلاوت کرتے ہوئے سنا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”واجب ہو گئی۔“ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: یا رسول اللہ! کیا واجب ہو گئی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنت۔“، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے ارادہ کیا کہ جا کر اس آدمی کو خوشخبری دوں لیکن پھر مجھے یہ خدشہ لاحق ہوا کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دوپہر کا کھانا رہ جائے گا تو میں نے کھانے کو ترجیح دی، پھر اس آدمی کی طرف گیا تو وہ جا چکا تھا۔، عبیداللہ الاغر کی حدیث زید بن رباح کے ساتھ گزر چکی ہے [ ح۱۸۶] اور الملخص کا دوسرا جزء مکمل ہوا۔، والحمدللہ اس میں جن لوگوں سے (امام) مالک نے روایتیں بیان کی ہیں ان کی تعداد تیس آدمی ہے اور (ابوالحسن القابسی کی ترقیم کے مطابق) ان کی کل حدیثیں دو سو چونتیس ہیں۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 573]
تخریج الحدیث: «382- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 208/1، ح 487، ك 15 ب 6 ح 18) التمهيد 215/19، الاستذكار: 456، و أخرجه الترمذي (2897 وقال: هٰذا حديث حسن، إلخ) و النسائي (171/2، ح 995) من حديث مالك به وصححه الحاكم (566/1) ووافقه الذهبي، من رواية يحيي بن يحيي، وسقط من الأصل.»
حدیث نمبر: 574
391- مالك عن عبد الرحمن بن عبد الله بن عبد الرحمن بن أبى صعصعة الأنصاري ثم المازني عن أبيه عن أبى سعيد الخدري أن رجلا سمع رجلا يقرأ {قل هو الله أحد} ويرددها، فلما أصبح جاء إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكر له ذلك وكان الرجل يتقالها، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”والذي نفسي بيده، إنها لتعدل ثلث القرآن.“
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے دوسرے آدمی کو «قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ» پڑھتے ہوئے سنا، وہ اسے بار بار پڑھ رہا تھا، سننے والے آدمی نے صبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بارے میں بتایا، گویا وہ اسے بہت تھوڑا عمل سمجھ رہا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! بے شک یہ (سورہ اخلاص) ایک تہائی قرآن کے برابر ہے۔“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 574]
تخریج الحدیث: «391- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 208/1، ح 486، ك 15 ب 6 ح 17) التمهيد 227/19، الاستذكار: 455، و أخرجه البخاري (5013) من حديث مالك به.»
8. صلوٰۃ الوسطیٰ سے مراد نماز عصر ہے
حدیث نمبر: 575
177- مالك عن زيد بن أسلم عن القعقاع بن حكيم عن أبى يونس مولى عائشة أنه قال: أمرتني عائشة أم المؤمنين أن أكتب لها مصحفا، ثم قالت: إذا بلغت هذه الآية فآذني {حافظوا على الصلاة والصلاة الوسطى}.قال: فلما بلغتها آذنذتها فأملت على {حافظوا على الصلاة والصلاة الوسطى وصلاة العصر وقوموا لله قانتين}.ثم قالت عائشة: سمعتها من رسول الله صلى الله عليه وسلم.
ابویونس مولیٰ عائشہ (تابعی) سے روایت ہے کہ مجھے ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے حکم دیا کہ میں ان کے لئے مصحف (قرآن مجید) لکھوں، پھر آپ نے فرمایا: جب تم اس آیت «حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ وَقُومُوا لِلَّـهِ قَانِتِينَ»”نمازوں کی حفاظت کرو اور درمیانی نماز کی حفاظت کرو۔“[البقرة: 238] ، پر پہنچو تو مجھے بتانا، پھر جب میں وہاں پہنچا تو انہیں بتایا انہوں (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا) نے مجھے لکھوایا: «حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ، وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى، وَصَلَاةِ الْعَصْرِ، وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ» پھر (ام المؤمنین رضی اللہ عنہا نے) فرمایا: میں نے اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 575]
تخریج الحدیث: «177- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 138/1 ح 311، ك 8 ب 8 ح 25) التمهيد 273/4، وقال: ”وحديث عائشة هٰذا صحيح، لا اعلم فيه اختلافا“، الاستذكار:281، و أخرجه مسلم (629) من حديث مالك به.»
9. «ان الصفا والمروة» کا شان نزول
حدیث نمبر: 576
467- وبه قال: قلت لعائشة زوج النبى صلى الله عليه وسلم وأنا يومئذ حديث السن، أرأيت قول الله تبارك وتعالى: {إن الصفا والمروة من شعائر الله فمن حج البيت أو اعتمر فلا جناح عليه أن يطوف بهما} فما أرى على أحد شيئا أن لا يطوف بهما، فقالت عائشة: كلا: لو كانت كما تقول كانت: فلا جناح عليه أن لا يطوف بهما، إنما أنزلت هذه الآية فى الأنصار، كانوا يهلون لمناة، وكانت مناة حذو قديد، وكانوا يتحرجون أن يطوفوا بين الصفا والمروة فلما جاء الإسلام سألوا رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك، فأنزل الله تبارك وتعالى: {إن الصفا والمروة من شعائر الله فمن حج البيت أو اعتمر فلا جناح عليه أن يطوف بهما}.
اور اسی سند کے ساتھ عروہ بن زبیر رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں نے (اپنی خالہ اور) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا اور اس وقت میں چھوٹا بچہ تھا: آپ کا اللہ تعالیٰ کے اس قول کے بارے میں کیا خیال ہے؟ «إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَائِرِ اللَّـهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَن يَطَّوَّفَ بِهِمَا»”بے شک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں، پس جو بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے کہ وہ صفا و مروہ کا طواف (یعنی سعی) کرے۔“[البقرة: 158] ، ميرا خيال ہے کہ اگر کوئی شخص ان کی سعی نہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے، تو ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ہرگز نہیں، اگر یہ بات ہوتی تو آیت اس طرح ہوتی کہ جو طواف نہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ یہ آیت تو انصاریوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو (اسلام سے پہلے) منات (دیوی) کے لئے لبیک کہتے تھے اور اور منات قُدید (مقام) کے قریب تھی، وہ صفا اور مروہ کی سعی میں حرج سمجھتے تھے پھر جب اسلام آ گیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: «إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَائِرِ اللَّـهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَن يَطَّوَّفَ بِهِمَا» ۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 576]
تخریج الحدیث: «467- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 373/1 ح 849، ك 20 ب 42 ح 129) التمهيد 150/22، الاستذكار: 797، و أخرجه البخاري (1790) من حديث مالك به، من رواية يحيي بن يحيي وجاء فى الأصل: ”هالت“ وهو خطأ.»