246- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قطع سارقا فى مجن ثمنه ثلاثة دراهم. قال مالك: والمجن الدرقة والترس.
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چور کا (دایاں) ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا جس نے تین درہم کی قیمت والی ڈھال چرائی تھی۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: مجن چمڑے یا لوہے کی ڈھال کو کہتے ہیں۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 528]
تخریج الحدیث: «246- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 831/2 ح 1616، ك 41 ب 7 ح 21) التمهيد 375/14، الاستذكار:1544، و أخرجه البخاري (6795) ومسلم (1686/6) من حديث مالك به.»
حدیث نمبر: 529
499- وبه: عن عائشة زوج النبى صلى الله عليه وسلم أنها قالت: ما طال على وما نسيت: القطع فى ربع دينار فصاعدا.
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: نہ تو لمبا وقت گزرا ہے اور نہ میں بھولی ہوں: چوتھائی دینار یا اس سے زیادہ (کی چوری) میں ہاتھ کاٹا جاتا ہے۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 529]
تخریج الحدیث: «499- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 832/2 ح 1619، ك 41 ب 7 ح 24) التمهيد 380/23، الاستذكار: 1547، و أخرجه النسائي (79/8 ح 4931) من حديث مالك به وله حكم المرفوع وللحديث شواهد عند البخاري (6791) ومسلم (1684) وغيرهما .»
2. زانی کو سنگسار کیا جائے گا
حدیث نمبر: 530
41- وبه: عن عروة عن عائشة أنها قالت: كان عتبة بن أبى وقاص عهد إلى أخيه سعد بن أبى وقاص أن ابن وليدة زمعة مني فاقبضه إليك، قالت: فلما كان عام الفتح أخذه سعد، وقال: ابن أخي، قد كان عهد إلى فيه، فقام إليه عبد بن زمعة فقال: أخي وابن وليدة أبي، ولد على فراشه. فتساوقا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال سعد: يا رسول الله، ابن أخي قد كان عهد إلى فيه. وقال عبد بن زمعة: أخي وابن وليدة أبي، ولد على فراشه. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”هو لك يا عبد بن زمعة.“ وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”الولد للفراش وللعاهر الحجر.“ ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لسودة بنت زمعة: ”احتجبي منه“: لما رأى من شبهه بعتبة. قالت: فما رآها حتى لقي الله عز وجل.قالت: فما رآها حتى لقي الله عز وجل.
اور اسی سند کے ساتھ عروہ (بن الزبیر) سے روایت ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: عتبہ بن ابی وقاص نے اپنے بھائی سعد بن ابی وقاص کو (مرتے وقت) یہ ذمہ داری سونپی کہ ذمعہ (بن قیس بن عبدالشمس) کی لونڈی کا بیٹا میرے نطفے سے ہے لہٰذا اسے اپنے قبضے میں رکھنا۔ فتح مکہ والے سال سعد نے اس لڑکے کو لے لیا اور کہا: یہ میرا بھتیجا ہے، میرے بھائی نے اس کے بارے میں مجھے ذمہ داری سونپی تھی۔ تو عبد بن زمعہ نے اس کی طرف کھڑے ہو کر کہا: میرا بھائی ہے اور میرے باپ کی لونڈی کا بیٹا ہے اور اس کے بستر پر پیدا ہوا ہے۔ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے۔ سعد نے کہا: یا رسول اللہ! یہ میرے بھائی کا بیٹا ہے، میرے بھائی نے مجھے اس کے بارے میں وصیت کی تھی۔ عبد بن زمعہ نے کہا: میرا بھائی ہے اور میرے باپ کی لونڈی کا بیٹا ہے اور اس کے بستر پر پیدا ہوا ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عبد بن زمعہ! یہ تمہارے سپرد ہے، اولاد اسی کی شمار ہو گی جس کے بستر پر پیدا ہو، اور زانی کے لئے پتھر (سنگسار کرنا) ہے۔“ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دیکھا کہ لڑکا عتبہ (بن ابی وقاص) سے مشابہ ہے تو آپ نے اپنی بیوی سودہ بنت زمعہ (بن قیس) سے فرمایا: ”تم اس سے پردہ کرو۔“ آپ (عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: پس اس لڑکے نے سودہ رضی اللہ عنہ کو ان کی وفات تک نہیں دیکھا۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 530]
تخریج الحدیث: «41- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 739/2 ح 1488، ك 36 ب 21 ح 20) التمهيد 178/8، الاستذكار: 1412، و أخرجه البخاري (6749) من حديث مالك به ورواه مسلم (1457) من حديث ابن شهاب الزهر به، من رواية يحيي بن يحيي وجاء فى الأصل: عتبة بن وقاص و سعد بن وقاص.»
حدیث نمبر: 531
54- وبه: عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة بن مسعود عن أبى هريرة وزيد بن خا لد الجهني أنهما أخبراه: أن رجلين اختصما إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال أحدهما: يا رسول الله، اقض بيننا بكتاب الله. وقال الآخر وهو أفقههما: أجل يا رسول الله، فاقض بيننا بكتاب والله وأذن لي فى أن أتكلم. فقال: ”تكلم“ فقال: إن ابني كان عسيفا على هذا فزنا بامرأته فأخبرني أن على ابني الرجم، فافتديت منه بمئة شاة وبجارية لي، ثم إني سألت أهل العلم فأخبروني أنما على ابني جلد مئة وتغريب عام وإنما الرجم على امرأته. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”أما والذي نفسي بيده لأقضين بينكما بكتاب الله. أما غنمك وجاريتك فرد إليك“. وجلد ابنه مئة وغربه عاما وأمر أنيسا الأسلمي أن يأتي امرأة الآخر، فإنه اعترفت رجمها، فاعترفت فرجمها. قال مالك: والعسيف الأجير.
اور اسی سند کے ساتھ عبید اﷲ بن عبداﷲ بن عتبہ بن مسعود رحمہ اللہ سے روایت ہے، انہیں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا زید بن خالد الجہنی رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ دو آدمیوں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں اپنا جھگڑا پیش کیا تو ایک نے کہا: یا رسول اﷲ! آپ ہمارے درمیان کتاب اﷲ کے مطابق فیصلہ کریں۔ دوسرا جو ان دونوں میں زیادہ سمجھدار تھا، بولا: جی ہاں، یا رسول اﷲ! آپ ہمارے درمیان کتاب اﷲ کے مطابق فیصلہ کریں اور مجھے بات کرنے کی اجازت دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بات کرو“، تو اس نے کہا: میرا بیٹا اس کا «عسيف» مزدور تھا تو اس نے اس آدمی کی بیوی کے ساتھ زنا کر لیا پھر اس نے بتایا کہ میرے بیٹے کو سنگسار کیا جائے گا۔ میں نے اس فدیے میں سو بکریا ں اور ایک لونڈی دی، پھر اس کے بعد میں نے اہل علم سے پوچھا: تو نہوں نے مجھے بتایا کہ میرے بیٹے کو سو کوڑے لگیں گے اور ایک سال کے لیے جلا وطن کیا جائے گا اور سنگسار تو صرف اس کی بیوی کو کیا جائے گا۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس اﷲ کی قسم جس کی ہاتھ میں میری جان ہے، میں تم دونوں کے درمیان کتاب اﷲ کے مطابق فیصلہ کروں گا، تیری بکریاں اور تیری لونڈی تو تجھے واپس ملے گی۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بیٹے کو سو کوڑے لگوائے اور ایک سال کے لیے جلا وطن کر دیا اور سیدنا انیس الاسلمی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ دوسرے شخص کی بیوی کے پاس جائیں پھر اگر وہ زنا کا اعتراف کر لے تو اسے رجم (سنگسار) کر دیں۔ اس عورت نے اعتراف کر لیا تو پھر اسے رجم (سنگسار) کر دیا گیا۔ (اما م) مالک نے کہا: «عسيف» مزدور کو کہتے ہیں۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 531]
تخریج الحدیث: «54- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 822/2 ح 1597، ك 41 ب 1 ح 6) التمهيد 71/9، 72، الاستذكار: 1526، و أخرجه البخاري (6233-6234) من حديث مالك به ورواه مسلم (1697/25، 1698) من حديث الزهري به.»
حدیث نمبر: 532
245- وبه: أنه قال: إن اليهود جاؤوا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكروا له أن رجلا منهم وامرأة زنيا، فقال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما تجدون فى التوراة فى شأن الرجم؟“ فقالوا: نفضحهم ويجلدون. فقال عبد الله بن سلام: كذبتم، إن فيها الرجم، فأتوا بالتوراة فاتلوها. فنشروها فوضع أحدهم يده على آية الرجم فقرأ ما قبلها وما بعدها، فقال له عبد الله بن سلام: ارفع يدك، فرفع يده فإذا فيها آية الرجم، فقالوا: صدق يا محمد، فيها آية الرجم. فأمر بهما رسول الله صلى الله عليه وسلم فرجما. قال عبد الله بن عمر: فرأيت الرجل يحني على المرأة يقيها الحجارة.
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہودی آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ ان میں سے ایک مرد و عورت نے آپس میں زنا کیا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: ”تم تورات میں رجم کے بارے میں کیا پاتے ہو؟ تو انہوں نے کہا: ہم (زانیوں کو) ذلیل و رسوا کرتے ہیں اور انہیں کوڑے لگائے جاتے ہیں۔“ سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم نے جھوٹ کہا ہے، تورات میں رجم والی آیت موجود ہے، تورات لاؤ اور اسے پڑھو پھر انہوں نے تورات کھولی تو ان میں سے ایک آدمی نے رجم (سنگسار) والی آیت پر اپنا ہاتھ رکھ دیا، پھر اس نے آگے پیچھے سے پڑھا تو سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا: اپنا ہاتھ اٹھا، پھر اس نے ہاتھ اٹھایا تو وہاں آیت رجم تھی یہودیوں نے کہا: اے محمد! ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اس نے سچ کہا:، یہاں رجم والی آیت ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو انہیں رجم کیا گیا۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے دیکھا کہ مرد عورت پر اسے پتھروں سے بچانے کے لئے جھک، جھک جاتا تھا۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 532]
تخریج الحدیث: «245- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 819/2 ح 1592، ك 41 ب 1 ح 1) التمهيد 385/14، الاستذكار:1521، و أخرجه البخاري (3635، 6841) ومسلم (1699/27) من حديث مالك به.»
3. غیر شادی شدہ زانی کی سزا
حدیث نمبر: 533
54- وبه: عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة بن مسعود عن أبى هريرة وزيد بن خا لد الجهني أنهما أخبراه: أن رجلين اختصما إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال أحدهما: يا رسول الله، اقض بيننا بكتاب الله. وقال الآخر وهو أفقههما: أجل يا رسول الله، فاقض بيننا بكتاب والله وأذن لي فى أن أتكلم. فقال: ”تكلم“ فقال: إن ابني كان عسيفا على هذا فزنا بامرأته فأخبرني أن على ابني الرجم، فافتديت منه بمئة شاة وبجارية لي، ثم إني سألت أهل العلم فأخبروني أنما على ابني جلد مئة وتغريب عام وإنما الرجم على امرأته. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”أما والذي نفسي بيده لأقضين بينكما بكتاب الله. أما غنمك وجاريتك فرد إليك“. وجلد ابنه مئة وغربه عاما وأمر أنيسا الأسلمي أن يأتي امرأة الآخر، فإنه اعترفت رجمها، فاعترفت فرجمها. قال مالك: والعسيف الأجير.
اور اسی سند کے ساتھ عبید اﷲ بن عبداﷲ بن عتبہ بن مسعود رحمہ اللہ سے روایت ہے، انہیں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا زید بن خالد الجہنی رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ دو آدمیوں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں اپنا جھگڑا پیش کیا تو ایک نے کہا: یا رسول اﷲ! آپ ہمارے درمیان کتاب اﷲ کے مطابق فیصلہ کریں۔ دوسرا جو ان دونوں میں زیادہ سمجھدار تھا، بولا: جی ہاں، یا رسول اﷲ! آپ ہمارے درمیان کتاب اﷲ کے مطابق فیصلہ کریں اور مجھے بات کرنے کی اجازت دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بات کرو“، تو اس نے کہا: میرا بیٹا اس کا «عسيف» مزدور تھا تو اس نے اس آدمی کی بیوی کے ساتھ زنا کر لیا پھر اس نے بتایا کہ میرے بیٹے کو سنگسار کیا جائے گا۔ میں نے اس فدیے میں سو بکریا ں اور ایک لونڈی دی، پھر اس کے بعد میں نے اہل علم سے پوچھا: تو نہوں نے مجھے بتایا کہ میرے بیٹے کو سو کوڑے لگیں گے اور ایک سال کے لیے جلا وطن کیا جائے گا اور سنگسار تو صرف اس کی بیوی کو کیا جائے گا۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس اﷲ کی قسم جس کی ہاتھ میں میری جان ہے، میں تم دونوں کے درمیان کتاب اﷲ کے مطابق فیصلہ کروں گا، تیری بکریاں اور تیری لونڈی تو تجھے واپس ملے گی۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بیٹے کو سو کوڑے لگوائے اور ایک سال کے لیے جلا وطن کر دیا اور سیدنا انیس الاسلمی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ دوسرے شخص کی بیوی کے پاس جائیں پھر اگر وہ زنا کا اعتراف کر لے تو اسے رجم (سنگسار) کر دیں۔ اس عورت نے اعتراف کر لیا تو پھر اسے رجم (سنگسار) کر دیا گیا۔ (اما م) مالک نے کہا: «عسيف» مزدور کو کہتے ہیں۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 533]
تخریج الحدیث: «54- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 822/2 ح 1597، ك 41 ب 1 ح 6) التمهيد 71/9، 72، الاستذكار: 1526، و أخرجه البخاري (6233-6234) من حديث مالك به ورواه مسلم (1697/25، 1698) من حديث الزهري به .»
4. تورات وغیرہ میں رجم کا ثبوت
حدیث نمبر: 534
245- وبه: أنه قال: إن اليهود جاؤوا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكروا له أن رجلا منهم وامرأة زنيا، فقال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما تجدون فى التوراة فى شأن الرجم؟“ فقالوا: نفضحهم ويجلدون. فقال عبد الله بن سلام: كذبتم، إن فيها الرجم، فأتوا بالتوراة فاتلوها. فنشروها فوضع أحدهم يده على آية الرجم فقرأ ما قبلها وما بعدها، فقال له عبد الله بن سلام: ارفع يدك، فرفع يده فإذا فيها آية الرجم، فقالوا: صدق يا محمد، فيها آية الرجم. فأمر بهما رسول الله صلى الله عليه وسلم فرجما. قال عبد الله بن عمر: فرأيت الرجل يحني على المرأة يقيها الحجارة.
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہودی آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ ان میں سے ایک مرد و عورت نے آپس میں زنا کیا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: ”تم تورات میں رجم کے بارے میں کیا پاتے ہو؟ تو انہوں نے کہا: ہم (زانیوں کو) ذلیل و رسوا کرتے ہیں اور انہیں کوڑے لگائے جاتے ہیں۔“ سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم نے جھوٹ کہا ہے، تورات میں رجم والی آیت موجود ہے، تورات لاؤ اور اسے پڑھو پھر انہوں نے تورات کھولی تو ان میں سے ایک آدمی نے رجم (سنگسار) والی آیت پر اپنا ہاتھ رکھ دیا، پھر اس نے آگے پیچھے سے پڑھا تو سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا: اپنا ہاتھ اٹھا، پھر اس نے ہاتھ اٹھایا تو وہاں آیت رجم تھی یہودیوں نے کہا: اے محمد! ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اس نے سچ کہا:، یہاں رجم والی آیت ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو انہیں رجم کیا گیا۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے دیکھا کہ مرد عورت پر اسے پتھروں سے بچانے کے لئے جھک، جھک جاتا تھا۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 534]
تخریج الحدیث: «245- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 819/2 ح 1592، ك 41 ب 1 ح 1) التمهيد 385/14، الاستذكار:1521، و أخرجه البخاري (3635، 6841) ومسلم (1699/27) من حديث مالك به.»
5. اگر غیر شادی شدہ لونڈی زنا کرے تو اس کی سزا
حدیث نمبر: 535
55- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم سئل عن الأمة إذا زنت ولم تحصن، فقال: إن زنت فاجلدوها، ثم إن زنت فاجلدوها، ثم إن زنت فاجلدوها، ثم بيعوها ولو بضفير.“ قال مالك: قال ابن شهاب: فلا أدري أبعد الثالثة أو الرابعة، والضفير: الحبل.
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ اور سیدنا زید بن خالد رضی اللہ عنہما) روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس لونڈی کے بارے میں پوچھا: گیا جو زنا کرے اور وہ محصنہ (شادی شدہ) نہ ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب وہ زنا کرے تو اسے کوڑے لگاؤ، پھر اگر وہ زنا کرے تو اسے کوڑے لگاؤ، پھر اگر زنا کرے تواسے کوڑے لگاؤ، پھر اسے بیچ دو اگرچہ (اس کی قیمت) «ضيفر»(ایک رسی) ہی ہو۔“ زہری نے کہا: مجھے معلوم نہیں ہے کہ آپ نے یہ بات تیسری دفعہ فرمائی یا چوتھی دفعہ؟ اور «ضيفر» رسی کو کہتے ہیں۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 535]
تخریج الحدیث: «55- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 826/2، ح 1606، ك 41، ب 3، ح 14) التمهيد 94/9، الاستذكار: 1534، و أخرجه البخاري (2154، 2153) من حديث مالك به ورواه مسلم (1704/33) من حديث الزهري به .»
6. جو شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر کو دیکھے . . .
حدیث نمبر: 536
6- قال مالك: حدثني ابن شهاب: أن سهل بن سعد الساعدي أخبره، أن عويمرا العجلاني جاء إلى عاصم بن عدي الأنصاري، فقال له: أرأيت يا عاصم لو أن رجلا وجد مع امرأته رجلا أيقتله فتقتلونه أم كيف يفعل؟ سل لي يا عاصم عن ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم، فسأل عاصم رسول الله صلى الله عليه وسلم فكره رسول الله صلى الله عليه وسلم المسائل وعابها حتى كبر على عاصم ما سمع من رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما رجع عاصم إلى أهله جاءه عويمر فقال: يا عاصم، ماذا قال لك رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقال عاصم لعويمر: لم تأتني بخير، قد كره رسول الله صلى الله عليه وسلم المسألة التى سألته عنها. فقال عويمر: والله لا أنتهي حتى أسأله عنها، فأقبل عويمر حتى أتى رسول الله صلى الله عليه وسلم وسط الناس، فقال: يا رسول الله، أرأيت رجلا وجد مع امرأته رجلا، أيقتله فتقتلونه أم كيف يفعل؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”قد أنزل فيك وفي صاحبتك فاذهب فأت بها“ قال سهل: فتلاعنا وأنا مع الناس عند رسول الله صلى الله عليه وسلم. فلما فرغا قال عويمر: كذبت عليها يا رسول الله إن أمسكتها، فطلقها ثلاثا قبل أن يأمره رسول الله صلى الله عليه وسلم. قال ابن شهاب: فكانت تلك سنة المتلاعنين.قال ابن شهاب: فكانت تلك سنة المتلاعنين.
سیدنا سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عویمر العجلانی رضی اللہ عنہ عاصم بن عدی الانصاری رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان سے کہا: اے عاصم! آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر کوئی آدمی اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو دیکھے؟ کیا وہ اسے قتل کر دے، تو آپ اس (قاتل) کو قتل کر دیں گے؟ یا وہ کیا کرے؟ اے عاصم! اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھیں۔ پھر عاصم رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھا: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایسے) مسئلوں کو ناپسند فرمایا اور معیوب سمجھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام سن کر عاصم رضی اللہ عنہ کو (اپنے آپ پر) بوجھ سا محسوس ہوا۔ جب عاصم اپنے گھر واپس گئے تو ان کے پاس عویمر نے آ کر پوچھا: اے عاصم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو کیا جواب دیا ہے؟ عاصم نے عویمر سے کہا: آپ میرے پاس خیر کے ساتھ نہیں آئے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو مسئلہ پوچھا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ناپسند کیا۔ عویمر نے کہا: اللہ کی قسم! میں تو اس وقت تک نہیں رکوں گا جب تک آپ سے پوچھ نہ لوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے درمیان تشریف فرما تھے کہ عویمر آئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر کوئی آدمی اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو دیکھے؟ کیا وہ اسے قتل کر دے تو آپ اس (قاتل) کو قتل کر دیں گے؟ یا وہ کیا کر ے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے اور تمہاری بیوی کے بارے میں (حکم) نازل ہوا ہے، جاؤ اور اسے (اپنی بیوی کو) لے آؤ۔ سہل رضی اللہ عنہ نے فرمایا: پھر دونوں نے لعان کیا اور میں لوگوں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا۔ پھر جب وہ دونوں (لعان سے) فارغ ہوئے (تو) عویمر نے کہا: یا رسول اللہ! اگر میں اسے (اپنی بیوی بنا کر) روکے رکھوں تو میں نے اس پر جھوٹ بولا؟ پھر انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے پہلے اسے (اپنی بیوی کو) تین طلاقیں دے دیں۔ ابن شہاب (الزہری) نے کہا: پس لعان کرنے والوں یہی سنت قرار پائی۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 536]
تخریج الحدیث: «6- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 566/2، 567 ح 1232، ك 29 ب 13، ح 34) التمهيد 183/6 - 185، الاستذكار: 1152، أخرجه البخاري (5259) ومسلم (1492) من حديث مالك به.»
7. اگر قتل کا معاملہ مشتبہ ہو تو دیت کون دے گا؟
حدیث نمبر: 537
525- مالك عن أبى ليلى بن عبد الله بن عبد الرحمن ابن سهل عن سهل بن أبى حثمة أنه أخبره هو ورجل من كبراء قومه: أن عبد الله بن سهل ومحيصة خرجا إلى خيبر من جهد أصابهم فأتي محيصة فأخبر أن عبد الله بن سهل قد قتل وطرح فى فقير بئر أو عين، فأتى يهود فقال: أنتم والله قتلتموه، قالوا: والله ما قتلناه. فأقبل حتى قدم على قومه، فذكر ذلك لهم، ثم أقبل هو وأخوه حويصة وهو أكبر منه وعبد الرحمن بن سهل، فذهب محيصة ليتكلم وهو الذى كان بخيبر، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لمحيصة: ”كبر كبر“ يريد السن، فتكلم حويصة ثم تكلم محيصة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”إما أن يدوا صاحبكم وإما أن يؤذنوا بحرب“ فكتب إليهم رسول الله صلى الله عليه وسلم فى ذلك، فكتبوا: إنا والله ما قتلناه. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لحويصة ومحيصة وعبد الرحمن: ”أتحلفون وتستحقون دم صاحبكم؟“ قالوا: لا، قال: ”أفتحلف لكم يهود؟“ قالوا: ليسوا بمسلمين. فوداه رسول الله صلى الله عليه وسلم من عنده، فبعث إليهم بمئة ناقة حتى أدخلت عليهم الدار. قال سهل: لقد ركضتني منها ناقة حمراء.
سیدنا سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ کو ان کی قوم کے بزرگوں نے بتایا کہ عبداللہ بن سہل اور محیصہ دونوں بھوک کی وجہ سے خیبر گئے تو محیصہ نے آ کر بتایا کہ عبداللہ بن سہل قتل ہو گئے اور انہیں کنویں یا چشمے کے پاس پھینک دیا گیا ہے۔ پھر وہ یہودیوں کے پاس آئے تو کہا: اللہ کی قسم! تم نے انہیں (عبداللہ بن سہل کو) قتل کیا ہے۔ یہودیوں نے کہا: اللہ کی قسم! ہم نے انہیں قتل نہیں کیا۔ پھر وہ اپنی قوم کے پاس آئے اور انہیں یہ بات بتائی پھر وہ اور ان کے بڑے بھائی حویصہ رضی اللہ عنہ اور عبدالرحمٰن بن سہل رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو محیصہ جو خیبر گئے تھے باتیں کرنے کی کوشش کرنے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محیصہ سے فرمایا: ”بڑے کو بات کرنے دو، بڑی عمر والے کو بات کرنے دو“، تو حویصہ نے بات کی پھر محیصہ نے بات کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یا تو وہ تمہارے ساتھی کی دیت دیں یا جنگ کے لئے تیار ہو جائیں۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کی طرف لکھ بھیجا تو انہوں نے جوابی تحریر میں کہا: اللہ کی قسم! ہم نے اسے قتل نہیں کیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حویصہ، محیصہ اور عبدالرحمٰن کو کہا: ”کیا تم قسم کھاتے ہو اور اپنے ساتھی کے خون کے حق دار بنتے ہو؟“ انہوں نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہارے لئے یہودی قسم کھائیں؟“ انہوں نے کہا: وہ مسلمان نہیں ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے دیت عطا فرمائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف ایک سو اونٹنیاں بھیجیں حتی کہ وہ ان کے گھر میں داخل کی گئیں۔ سہل رضی اللہ عنہ نے کہا: ان میں سے سرخ اونٹنی نے مجھے لات ماری تھی۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 537]
تخریج الحدیث: «525- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 877/2، 878 ح 1696، ك 44 ب 1 ح 1) التمهيد 150/24، 151، الاستذكار: 1725، و أخرجه البخاري (7192) ومسلم (1669/6) من حديث مالك به، وفي رواية يحيي بن يحيي: ”ورجال“ .»