520- وعن يزيد بن خصيفة عن عروة بن الزبير أنه قال: سمعت عائشة زوج النبى صلى الله عليه وسلم تقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ”لا يصيب المؤمن من مصيبة حتى الشوكة إلا قص بها أو كفر بها من خطاياه“ لا يدري يزيد أيتهما قال عروة.
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن کو جو بھی مصیبت پہنچتی ہے چاہے ایک کانٹا ہی ہو وہ تو اس کی خطاؤں کا قصاص یا کفارہ بن جاتی ہے۔“ یزید (بن خصیفہ) نے کہا کہ معلوم نہیں کہ عروہ (بن الزبیر) نے کیا الفاظ کہے تھے: قصاص یا کفارہ؟ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 427]
تخریج الحدیث: «520- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 941/2 ح 1815، ك 50 ب 3 ح 6) التمهيد 25/23، الاستذكار: 175، و أخرجه مسلم (2572/50) من حديث مالك به.»
2. تیمارداری کرنا سنت نبوی ہے
حدیث نمبر: 428
68- مالك عن ابن شهاب عن عامر بن سعد بن أبى وقاص عن أبيه سعد بن أبى وقاص أنه قال: جاءني رسول الله صلى الله عليه وسلم يعودني عام حجة الوداع من وجع اشتد بي، فقلت: يا رسول الله، قد بلغ بي من الوجع ما ترى وأنا ذو مال ولا يرثني إلا ابنة لي، أفأتصدق بثلثي مالي؟ فقال: ”لا“ فقلت: فالشطر؟ فقال: ”لا“، ثم قال: ”الثلث والثلث كثير أو كبير. إنك أن تذر ورثتك أغنياء خير من أن تذرهم عالة يتكففون الناس، وإنك لن تنفق نفقة تبتغي بها وجه الله. إلا أجرت بها، حتى ما تجعل فى فى امرأتك.“ قال: فقلت: يا رسول الله، أأخلف بعد أصحابي؟ فقال: ”إنك لن تخلف فتعمل عملا صالحا إلا ازددت به درجة ورفعة، ولعلك أن تخلف حتى ينتفع بك أقوام ويضر بك آخرون، اللهم أمض لأصحابي هجرتهم ولا تردهم على أعقابهم. لكن البائس سعد بن خولة“ يرثي له رسول الله صلى الله عليه وسلم أن مات بمكة.
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حجتہ الوداع والے سال رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس میری شدید بیماری کی وجہ سے میری بیمار پرسی کے لیے تشریف لائے تو میں نے کہا: یا رسول اﷲ! آپ دیکھ رہے ہیں کہ مجھے کتنا شدید درد بیماری ہے، میں مالدار آدمی ہوں اور میری وارث صرف ایک بیٹی ہے، کیا میں اپنا دو تہائی مال صدقہ کر دوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”نہیں“، میں نے کہا: کیا آدھا مال صدقہ کر دوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیسرا حصہ صدقہ کر لو اور تیسرا حصہ بھی بہت زیادہ ہے اگر تم اپنے وارثوں کو اس حالت میں چھوڑ جاؤ کہ وہ امیر ہوں تمہارے لئے اس سے بہتر ہے کہ تم انہیں اس حالت میں چھوڑ جاؤ کہ وہ غریب ہوں اور لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں تم اﷲ کی رضا مندی کے لیے جو کچھ خرچ کرتے ہو اس کا تمہیں اجر ملے گا حتی کہ تم اپنی بیوی کو جو نوالہ کھلاتے ہو توا س کا بھی اجر ملے گا۔“ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے کہا: یا رسول اﷲ! میں اپنے ساتھیوں سے پیچھے رہ جاؤں گا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنے ساتھیوں سے پیچھے نہیں رہو گے پھر تم جو بھی نیک عمل کرو گے تو تمہار ا درجہ بلند ہو گا اور عزت ملے گی اور ہو سکتا ہے کہ تم میری وفات کے بعد پیچھے زندہ رہو حتی کہ تمہاری وجہ سے ایک قوم مسلمانوں کا فائدہ پہنچے گا اور دوسروں کفار کو نقصان ہو گا، اے میرے اﷲ! میرے صحابہ کی ہجرت پوری فرما اور انہیں الٹے پاؤں واپس نہ پھیر لیکن مصیبت زدہ تو سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ ہیں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے متعلق غم اور افسوس کرتے تھے کیونکہ وہ مکہ میں فوت ہو گئے تھے۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 428]
تخریج الحدیث: «68- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 763/2 ح 1533، ك 17 ب 3 ح 4) التمهيد 374/8، 375، الاستذكار: 1462، و أخرجه البخاري (1295) من حديث مالك به ورواه مسلم (1628) من حديث الزهري به، من رواية يحييٰ بن يحييٰ»
3. علاج کے لئے سینگی لگوانا جائز ہے
حدیث نمبر: 429
152- وبه أنه قال: حجم رسول الله صلى الله عليه وسلم أبو طيبة، فأمر له رسول الله صلى الله عليه وسلم بصاع من تمر، وأمر أهله أن يخففوا عنه من خراجه.
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ ابوطیبہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پچھنے لگائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اسے (مزدوری میں) کھجوروں کا ایک صاع دیا جائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے مالکوں کو حکم دیا کہ وہ اس پر خراج (مقرر کردہ رقم) میں کمی کر دیں۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 429]
تخریج الحدیث: «152- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 974/2 ح 1887، ك 54 ب 10 ح 26 نحو المعنيٰ) التمهيد 224/2، الاستذكار:1823، و أخرجه البخاري (2102، 2110) من حديث مالك، ومسلم (1577) من حديث حميد الطويل به وصرح حميد بالسماع عند مسلم (1577/64)»
4. سینگی لگانے والا اجرت لے سکتا ہے
حدیث نمبر: 430
152- وبه أنه قال: حجم رسول الله صلى الله عليه وسلم أبو طيبة، فأمر له رسول الله صلى الله عليه وسلم بصاع من تمر، وأمر أهله أن يخففوا عنه من خراجه.
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ ابوطیبہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پچھنے لگائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اسے (مزدوری میں) کھجوروں کا ایک صاع دیا جائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے مالکوں کو حکم دیا کہ وہ اس پر خراج (مقرر کردہ رقم) میں کمی کر دیں۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 430]
تخریج الحدیث: «152- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 974/2 ح 1887، ك 54 ب 10 ح 26 نحو المعنيٰ) التمهيد 224/2، الاستذكار:1823، و أخرجه البخاري (2102، 2110) من حديث مالك، ومسلم (1577) من حديث حميد الطويل به وصرح حميد بالسماع عند مسلم (1577/64)»
5. بخار کو پانی کے ذریعے سے ٹھنڈا کرنا چاہئے
حدیث نمبر: 431
254- وبه: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”إن الحمى من فيح جهنم، فأطفؤها بالماء“، وكان ابن عمر يقول: اللهم أذهب عنا الرجز.
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بخار جہنم کے سانس میں سے ہے، لہٰذا اسے پانی کے ساتھ ٹھندا کرو، اور ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے تھے کہ اے اللہ! ہم سے عذاب دور فرما۔“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 431]
تخریج الحدیث: «254- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 945/2 ح 1825/2، ك 50 ب 6 ح 16/2 المرفوع فقط) الاستذكار:1761، أخرجه البخاري (5723) و مسلم (2207/79) من حديث مالك به المرفوع فقط ورواه الجوهري (704) عن ابن وهب عن مالك نحوه.»
6. نظر سے بچاؤ کے لئے دھاگے منگے لٹکانا منع ہے
حدیث نمبر: 432
307- وبه: عن عباد بن تميم أن أبا بشير الأنصاري أخبره أنه كان مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فى بعض أسفاره، قال: فأرسل رسول الله صلى الله عليه وسلم رسولا، قال عبد الله بن أبى بكر: حسبت أنه قال والناس فى مبيتهم: ”لا تبقين فى رقبة بعير قلادة من وتر أو قلادة إلا قطعت.“ قال مالك: أرى ذلك من العين.
سیدنا ابوبشیر الانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر میں تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پیغامبر (اعلان کرنے والا) بھیجا۔ عبداللہ بن ابی بکر (رحمہ اللہ، راوی حدیث) فرماتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ لوگ اپنی خوابگاہوں میں تھے کہ اس نے اعلان کیا: خبردار! کسی اونٹ کی گردن پر تانت کا پٹا یا کوئی اور پٹا کاٹے بغیر نہ چھوڑنا۔، امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: میرا خیال ہے کہ انہوں نے نظر سے (بچاؤ) کے لیے یہ پٹے (گنڈے) ڈال رکھے تھے۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 432]
تخریج الحدیث: «307- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 937/2 ح 1809، ك 49 ب 13 ح 39) التمهيد 159/17، الاستذكار: 1744، و أخرجه البخاري (3005) و مسلم (894) من حديث مالك به .»
7. طاعون والی جگہ جانا اور وہاں سے فرار جائز نہیں ہے
حدیث نمبر: 433
9- مالك عن ابن شهاب عن عبد الله بن عامر بن ربيعة العدوي أن عمر بن الخطاب خرج إلى الشام. فلما جاء سرغ بلغه أن الوباء قد وقع بالشام، فأخبره عبد الرحمن بن عوف أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”إذا سمعتم به بأرض فلا تقدموا عليه وإذا وقع بأرض وأنتم بها، فلا تخرجوا فرارا منه“، فرجع عمر بن الخطاب رضى الله عنه من سرغ.
عبداللہ بن عامر بن ربیدہ العدوی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ شام کر طرف (جہاد کے لئے) نکلے، جب آپ سَرغ (شام کے قریب، وادی تبوک کے ایک مقام) پر پہنچے تو آپ کو معلوم ہوا کہ شام میں (طاعون کی) وبا پھیلی ہوئی ہے۔ پس سیدنا عبدالرحٰمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے آپ کو بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تمہیں کسی علاقے میں اس (وبا) کے وقوع کا پتا چلے تو وہاں نہ جاؤ اور اگر اس علاقے میں یہ (وبا) پھیل جائے جس میں تم موجود ہو تو اس سے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے نہ بھاگو۔“ پس عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سرغ سے واپس لوٹا آئے۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 433]
تخریج الحدیث: «9- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 896/2، 897 ح 1722، كه 45، ب 7، ح 24) التمهيد 210/6، الاستذكار: 1654، أخرجه البخاري (5730، 6973) و مسلم (2219) من حديث مالك به .»
حدیث نمبر: 434
63- مالك عن ابن شهاب عن عبد الحميد بن عبد الرحمن بن زيد بن الخطاب عن عبد الله بن عبد الله بن الحارث بن نوفل عن عبد الله بن عباس: أن عمر بن الخطاب خرج إلى الشام حتى إذا كان بسرغ لقيه أمراء الأجناد أبو عبيدة ابن الجراح وأصحابه فأخبروه أن الوباء قد وقع بالشام. قال ابن عباس: فقال عمر: ادع لي المهاجرين الأولين، فدعاهم فاستشارهم وأخبرهم أن الوباء قد وقع بالشام فاختلفوا، فقال بعضهم: قد خرجت لأمر ولا نرى أن ترجع عنه، وقال بعضهم: معك بقية الناس وأصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا نرى أن تقدمهم على هذا الوباء. فقال: ارتفعوا عني، ثم قال: ادع لي الأنصار، فدعوهم له فاستشارهم فسلكوا سبيل المهاجرين واختلفوا كاختلافهم، فقال: ارتفعوا عني. ثم قال: ادع لي من كان ههنا من مشيخة قريش من مهاجرة الفتح، فدعوهم فلم يختلف عليه منهم رجلان، فقالوا: نرى أن ترجع بالناس ولا تقدمهم على هذا الوباء. فنادى عمر فى الناس: إني مصبح على ظهر فأصبحوا عليه، فقال أبو عبيدة ابن الجراح: أفرارا من قدر الله؟ فقال عمر: لو غيرك قالها يا أبا عبيدة، نعم نفر من قدر الله إلى قدر الله، أرأيت لو كانت لك إبل فهبطت واديا له عدوتان إحداهما خصبة والأخرى جدبة، أليس إن رعيت الخصبة رعيتها بقدر الله وإن رعيت الجدبة رعيتها بقدر الله. قال: فجاء عبد الرحمن بن عوف وكان متغيبا فى بعض حاجته، فقال: إن عندي من هذا علما. سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ”إذا سمعتم به بأرض فلا تقدموا عليه وإذا وقع بأرض وأنتم بها فلا تخرجوا فرارا منه.“قال: فحمد الله عمر ثم انصرف.
سیدنا عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ شام کی طرف جہاد کے لیے نکلے، جب آپ سَرغ (وادی تبوک کے قریب ایک مقام) پہنچے تو آپ کے فوجی امراء (جو کہ اردن، حمص، دمشق، فلسطین اور قنسرین پر مقر ر تھے) ابوعبیدبن الجراح رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی آپ کے پاس آئے اور بتایا کہ شام میں (طاعون کی) وبا پھیلی ہوئی ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: کہ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میرے پاس مہاجرین اولین کو بلاؤ۔ آپ نے انہیں بلا کر ان سے مشورہ کیا اور بتایا کہ شام میں وبا پھیلی ہوئی ہے تو ان کے درمیان اختلاف ہو گیا۔ بعض نے کہا: آپ ایک کام کے لیے گھر سے نکلے ہیں اور ہمارے خیال میں آپ کو اسے چھوڑ کر واپس نہیں جانا چاہیے۔ بعض نے کہا: آپ کے ساتھ السابقون الاولون باقی رہنے والے صحابہ اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے دیگر صحابہ ہیں اور ہمارا یہ خیال ہے کہ آپ انہیں وبا والے علاقے میں لے کر نہ جائیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آپ میرے پاس سے اٹھ جائیں۔ پھر آپ نے کہا: میرے پاس انصاریوں کو بلاؤ۔ پھر آپ نے ان سے مشورہ کیا تو انہوں نے بھی مہاجرین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان کی طرح آپس میں اختلاف کیا تو عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے بھی کہا: آپ میرے پاس سے اٹھ جائیں۔ پھر انہوں نے فرمایا: میرے پاس مہاجرین فتح مکہ کے بوڑھے قریشیوں کو لاؤ۔ پھر انہیں بلایا گیا تو ان میں سے کسی نے بھی اختلاف نہیں کیا۔ انہوں نے کہا: ہم یہ سمجھتے ہیں کہ آپ لوگوں کے ساتھ واپس لوٹ جائیں اور انھیں وبا والے علاقے میں لے کر نہ جائیں۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں میں اعلان کیا: میں صبح (واپسی کے لیے) سواری کی پیٹھ پر ہوں گا اور تم بھی اپنی سواریوں پر سوار ہو جانا۔ ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا آپ اﷲ کی تقدیر سے بھاگ رہے ہیں؟ تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے ابوعبید! اگر تمہارے علاوہ کوئی اور یہ کہتا تو جی ہاں! ہم اﷲ کی تقدیر سے اﷲ کی تقدیر کی طرف بھاگ رہے ہیں۔ تمہارا کیا خیال ہے؟ اگر تمہارے پاس اونٹ ہوں پھر تم دو وادیوں کے پاس جاؤ، ایک سرسبز و شاداب ہو اور دوسری خشک و خراب ہو تو تم کہاں جاؤ گے؟ اگر تم اونٹوں کو سرسبز و شاداب وادی میں چراتے ہو تو اﷲ کی تقدیر سے چراتے ہو اور اگر خشک و خراب وادی میں چراتے ہو تو اﷲ کی تقدیر سے چراتے ہو۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: پھر سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ جو اپنے کسی کام سے لشکر سے غیرحاضر تھے تشریف لائے تو صحابہ کا اختلاف معلوم ہونے کے بعد انہوں نے فرمایا: میرے پاس اس کے بارے میں علم موجود ہے۔ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جب تم اس وبا کے بارے میں سنو کہ کسی علاقے میں پھیلی ہوئی ہے تو وہاں نہ جاؤ اور اگر کسی ایسے علاقے میں وبا پھیل جائے جہاں تم موجود ہو تو وہاں سے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے نہ نکلو۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: تو عمر رضی اللہ عنہ نے اﷲ کی حمد و ثنا بیان فرمائی اور واپس لوٹ گئے۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 434]
تخریج الحدیث: «63- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 894/2 - 896 ح 1720ك 45 ب 7 ح 22، وعنده: فدعوتهم بدل فدعوهم) التمهيد 361/8-363، الاستذكار: 1652، و أخرجه البخاري (5729) مسلم (2219) من حديث مالك به.»
حدیث نمبر: 435
87- مالك عن محمد بن المنكدر وأبي النضر مولى عمر بن عبيد الله عن عامر بن سعد بن أبى وقاص عن أبيه أنه سمعه يسأل أسامة بن زيد: ماذا سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول فى الطاعون؟ فقال أسامة بن زيد: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”الطاعون رجز أرسل على طائفة من بني إسرائيل أو على من كان قبلكم. فإذا سمعتم به بأرض فلا تدخلوا عليه وإذا وقع بأرض وأنتم بها فلا تخرجوا فرارا منه.“ قال مالك: قال أبو النضر: لا يخرجكم إلا فرارا منه.
عامر بن سعد بن ابی وقاص رحمہ اللہ نے اپنے ابا (سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ) کو سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے پوچھتے ہوئے سنا کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے طاعون کے بارے میں کیا سنا ہے؟ تو اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”طاعون ایک عذاب (بیماری) ہے جو بنی اسرائیل کے ایک گروہ پر یا تم سے پہلے لوگوں پر بھیجا گیا تھا۔ پس اگر تمہیں کسی علاقے میں اس (طاعون) کی خبر ملے تو وہاں نہ جاؤ اور اگر وہ (طاعون) تمہارے علاقے میں آ جائے تو راہ فرار اختیار کرتے ہوئے وہاں سے باہر نہ نکلو۔“ مالک نے کہا: ابوالنضر نے (عامر سے روایت میں) کہا: یہ تمہیں راہ فرار پر مجبور کر کے نکال نہ دے۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 435]
تخریج الحدیث: «87- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 896/2، ح 1721، ك 45 ب 7 ح 23) التمهيد 249/12، الاستذكار: 1653، و أخرجه البخاري (3473) ومسلم (2218) من حديث مالك به.»
8. نحوست و بدشگونی کچھ نہیں ہے
حدیث نمبر: 436
61- مالك عن ابن شهاب عن حمزة وسالم ابني عبد الله بن عمر عن عبد الله بن عمر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”الشؤم فى الدار والمرأة والفرس.“
سیدنا عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نحوست (اگر ہے تو) تین چیزوں میں ہے۔ گھر، عورت اور گھوڑا۔“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 436]
تخریج الحدیث: «61- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 972/2 ح 1883، ك 54 ب 8 ح 22) التمهيد 278/9، الاستذكار: 1819، و أخرجه البخاري (5093) ومسلم (2225) من حديث مالك به.»