396- وعن عبد ربه بن سعيد عن أبى سلمة بن عبد الرحمن أنه سأل عبد الله ابن عباس وأبا هريرة عن المتوفى عنها زوجها وهى حامل، فقال ابن عباس: آخر الأجلين. وقال أبو هريرة: إذا ولدت فقد حلت. فدخل أبو سلمة بن عبد الرحمن على أم سلمة زوج النبى صلى الله عليه وسلم فسألها عن ذلك، فقالت: ولدت سبيعة الأسلمية بعد وفاة زوجها بنصف شهر، فخطبها رجلان أحدهما شاب والآخر كهل، فحطت إلى الشاب. فقال الكهل: لم تحلل، وكان أهلها غيبا، فرجا إذا جاء أهلها أن يؤثروه بها، فجاءت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: ”قد حللت فانكحي من شئت.“
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عبداللہ بن عباس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے اس حاملہ عورت کے بارے میں پوچھا: جس کا خاوند فوت ہو جائے تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: دونوں عدتوں (وضع حمل اور چار مہینے دس دن) میں سے جو بعد میں ختم ہو اسے اختیار کرے اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: جب بچے کو جنم دے گی تو حلال ہو جائے گی۔ پھر ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن رحمہ اللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے تو ان سے اس بارے میں پوچھا: تو انہوں نے فرمایا: سبیعہ الاسلمیہ رضی اللہ عنہا کے ہاں اپنے شوہر کی وفات کے پندرہ دن بعد بچہ پیدا ہوا تو دو آدمیوں نے انہیں شادی کا بیغام بھیجا، ایک نوجوان تھا اور دوسرا بوڑھا تھا تو وہ نوجوان کی طرف مائل ہوئیں۔ پھر بوڑھے نے کہا: اس کی عدت ختم نہیں ہوئی۔ سبیعہ کے گھر والے (اس وقت) غیر حاضر تھے اور بوڑھے کو یہ امید تھی کہ جب اس کے گھر والے آئیں گے تو وہ اسے اس نوجوان پر ترجیح دیں گے۔ پھر وہ (سبیعہ رضی اللہ عنہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”تیری عدت ختم ہو گئی ہے لہٰذا تو جس سے چاہے نکاح کر لے۔“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 379]
تخریج الحدیث: «396- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 589/2 ح 1686، ك 29 ب 30 ح 83) التمهيد 33/20، الاستذكار: 1286، و أخرجه النسائي (191/6، 192 ح 3540) من حديث ابن القاسم عن مالك به.»
حدیث نمبر: 380
474- مالك حدثني هشام بن عروة عن أبيه عن المسور بن مخرمة أن سبيعة الأسلمية نفست بعد وفاة زوجها بليال، فجاءت رسول الله صلى الله عليه وسلم فاستأذنته أن تنكح، فأذن لها، فنكحت.
سیدنا مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدہ سبیعہ الاسلمیہ رضی اللہ عنہا کے ہاں ان کے خاوند کی وفات کے کچھ دنوں بعد بچہ پیدا ہوا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دوسری شادی کی اجازت لینے آئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی، چنانچہ انہوں نے نکا ح کر لیا۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 380]
تخریج الحدیث: «474- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 590/2 ح 1288، ك 29 ب 30 ح 85 بلفظ مختلف) التمهيد 208/22، الاستذكار: 1206، و أخرجه البخاري (5320) من حديث مالك به .»
حدیث نمبر: 381
493- مالك عن يحيى بن سعيد عن سليمان بن يسار: أن عبد الله بن عباس وأبا سلمة بن عبد الرحمن اختلفا فى المرأة تنفس بعد وفاة زوجها بليال، فقال ابن عباس: آخر الأجلين، وقال أبو سلمة: إذا نفست فقد حلت. فجاء أبو هريرة فقال: أنا مع ابن أخي، يعني أبا سلمة. فبعثوا كريبا مولى ابن عباس إلى أم سلمة زوج النبى صلى الله عليه وسلم يسألها عن ذلك، فجاءهم فأخبرهم أنها قالت: ولدت سبيعة الأسلمية بعد وفاة زوجها بليال، فذكرت ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: ”قد حللت فانكحي من شئت.“
سلیمان بن یسار رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن رحمہ اللہ کا ایسی عورت کے بارے میں اختلاف ہوا جس کے ہاں اس کے شوہر کی وفات کے چند دن بعد بچے کی پیدائش ہوئی۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: دونوں عدتوں میں سے جو بعد میں ختم ہو یعنی چار مہینے اور دس دن عدت گزارے گی اور ابوسلمہ نے کہا: اس کے بچے کی پیدائش ہو گئی لہٰذا اس کی عدت ختم ہو گئی۔ پھر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو فرمایا: میں اپنے بھتیجے یعنی ابوسلمہ کے ساتھ ہوں، پھر انہوں نے یہ مسئلہ پوچھنے کے لئے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے آزاد کردہ غلام کریب رحمہ اللہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی طرف بھیجا۔ پھر اس (کریب) نے آ کر انہیں بتایا کہ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: سیدہ سبیعہ الاسلمیہ رضی اللہ عنہا کے ہاں ان کے خاوند کی وفات کے چند دن بعد بچے کی پیدائش ہوئی تو انہوں نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہاری عدت ختم ہوگئی ہے لہٰذا جس سے چاہو نکا ح کرلو۔“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 381]
تخریج الحدیث: «493- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 590/2 ح 1289، ك 29 ب 30 ح 86) التمهيد 150/23، الاستذكار: 1207، و أخرجه النسائي (193/6 ح 3544) من حديث ابن القاسم عن مالك به۔ ورواه مسلم (1485/57، دارالسلام: 3723) من حديث يحييٰ بن سعيد الانصاري به۔ ورواه البخاري (4909)»
2. جس عورت کا شوہر فوت ہو جائے اس کی عدت
حدیث نمبر: 382
263- مالك حدثني نافع عن صفية بنت أبى عبيد عن عائشة وعن حفصة أم المؤمنين أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”لا يحل لامرأة أن تؤمن بالله واليوم الآخر تحد على ميت فوق ثلاث ليال إلا على زوج.“
ام المؤمنین سیدہ حفضہ رضی اللہ عنہا اور ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسی عورت کے لئے جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتی ہے، حلال نہیں کہ اپنے خاوند کے علاوہ کسی دوسرے شخص کی موت پر تین راتوں سے زیادہ سوگ کرے۔“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 382]
تخریج الحدیث: «263- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 598/2 ح 1307، ك 29 ب 35 ح 104) التمهيد 41/16، الاستذكار:1227، أخرجه الامام الشافعي (الام 231/5، المسند ص 301)) عن مالك به وقال: ”عن عائشة وحفصة أو عائشة أو حفصة“ ورواه مسلم (1490) من حديث نافع به.»
حدیث نمبر: 383
407- مالك عن سعد بن إسحاق بن كعب بن عجرة عن عمته زينب بنت كعب بن عجرة أن الفريعة بنت مالك بن سنان وهى أخت أبى سعيد الخدري أخبرتها أنها جاءت رسول الله صلى الله عليه وسلم تسأله أن ترجع إلى أهلها فى بني خدرة، فإن زوجها خرج فى طلب أعبد له أبقوا، حتى إذا كانوا بطرف القدوم لحقهم فقتلوه. قالت: فسألت رسول الله صلى الله عليه وسلم أن أرجع إلى أهلي بني خدرة، فإن زوجي لم يتركني فى مسكن يملكه ولا نفقة. قالت: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”نعم“ قالت: فخرجت حتى إذا كنت فى الحجرة أو فى المسجد دعاني أو أمر بي فدعيت له، فقال: ”كيف قلت؟“ قالت: فرددت عليه القصة التى ذكرت له من شأن زوجي، فقال: ”امكثي فى بيتك حتى يبلغ الكتاب أجله“ قالت: فاعتددت فيه أربعة أشهر وعشرا. قالت: فلما كان عثمان بن عفان أرسل إلى فسألني عن ذلك فأخبرته، فاتبعه وقضى به.
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی بہن فریعہ بنت مالک بن سنان رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہ پوچھنے کے لئے آئیں کہ کیا وہ بنو خدرہ میں اپنے گھر والوں کے پاس جا سکتی ہیں کیونکہ ان کے خاوند اپنے بھاگے ہوئے غلاموں کی تلاش میں نکلے اور جب قدوم کے مقام پر ان کے پاس پہنچ گئے تو ان غلاموں نے انہیں قتل کر دیا۔ فریعہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کیا میں بنو خدرہ میں اپنے گھر والوں کے پاس جا سکتی ہوں کیونکہ میرے خاوند نے میرے لئے اپنی ملکیت میں نہ کوئی گھر چھوڑا ہے اور نہ نان نفقہ؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں“، پھر میں وہاں سے نکل کر حجرے یا مسجد تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلوایا یا بلوانے کا حکم دیا پھر فرمایا: تو نے کیسے کہا تھا؟ میں نے اپنے خاوند کے بارے میں سارا قصہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیان کر دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے گھر میں ہی ٹھہری رہو حتیٰ کہ عدت پوری ہو جائے۔“ تو میں نے وہاں چار مہینے دس دن عدت گزاری پھر جب سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے مجھے بلایا اور اس بارے میں پوچھا: تو میں نے آپ کو بتا دیا اور انہوں نے اسی کے مطابق فیصلہ کیا۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 383]
تخریج الحدیث: «407- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 591/2 ح 1290، ك 29 ب 31 ح 87 وقال سعيد بن اسحاق/والصواب: سعد بن اسحاق) التمهيد 27/21، الاستذكار: 1209، و أخرجه أبوداود (2300) و الترمذي (1204، وقال: ”حسن صحيح“) من حديث مالك به و صححه ابن حبان (الاحسان: 4278/4292)، وفي رواية يحيي بن يحيي:”يملكه“ .»
حدیث نمبر: 384
396- وعن عبد ربه بن سعيد عن أبى سلمة بن عبد الرحمن أنه سأل عبد الله ابن عباس وأبا هريرة عن المتوفى عنها زوجها وهى حامل، فقال ابن عباس: آخر الأجلين. وقال أبو هريرة: إذا ولدت فقد حلت. فدخل أبو سلمة بن عبد الرحمن على أم سلمة زوج النبى صلى الله عليه وسلم فسألها عن ذلك، فقالت: ولدت سبيعة الأسلمية بعد وفاة زوجها بنصف شهر، فخطبها رجلان أحدهما شاب والآخر كهل، فحطت إلى الشاب. فقال الكهل: لم تحلل، وكان أهلها غيبا، فرجا إذا جاء أهلها أن يؤثروه بها، فجاءت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: ”قد حللت فانكحي من شئت.“
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عبداللہ بن عباس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے اس حاملہ عورت کے بارے میں پوچھا: جس کا خاوند فوت ہو جائے تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: دونوں عدتوں (وضع حمل اور چار مہینے دس دن) میں سے جو بعد میں ختم ہو اسے اختیار کرے اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: جب بچے کو جنم دے گی تو حلال ہو جائے گی۔ پھر ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن رحمہ اللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے تو ان سے اس بارے میں پوچھا: تو انہوں نے فرمایا: سبیعہ الاسلمیہ رضی اللہ عنہا کے ہاں اپنے شوہر کی وفات کے پندرہ دن بعد بچہ پیدا ہوا تو دو آدمیوں نے انہیں شادی کا بیغام بھیجا، ایک نوجوان تھا اور دوسرا بوڑھا تھا تو وہ نوجوان کی طرف مائل ہوئیں۔ پھر بوڑھے نے کہا: اس کی عدت ختم نہیں ہوئی۔ سبیعہ کے گھر والے (اس وقت) غیر حاضر تھے اور بوڑھے کو یہ امید تھی کہ جب اس کے گھر والے آئیں گے تو وہ اسے اس نوجوان پر ترجیح دیں گے۔ پھر وہ (سبیعہ رضی اللہ عنہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”تیری عدت ختم ہو گئی ہے لہٰذا تو جس سے چاہے نکاح کر لے۔“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 384]
تخریج الحدیث: «396- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 589/2 ح 1686، ك 29 ب 30 ح 83) التمهيد 33/20، الاستذكار: 1286، و أخرجه النسائي (191/6، 192 ح 3540) من حديث ابن القاسم عن مالك به.»
حدیث نمبر: 385
318- مالك عن عبد الله بن أبى بكر بن محمد بن عمرو بن حزم عن حميد بن نافع عن زينب بنت أبى سلمة أنها أخبرته بهذه الأحاديث الثلاثة، قال: فقالت زينب: دخلت على أم حبيبة زوج النبى صلى الله عليه وسلم حين توفي أبوها أبو سفيان بن حرب، فدعت أم حبيبة بطيب فيه صفرة خلوق أو غير ذلك، فدهنت منه جارية، ثم مست بعارضيها، ثم قالت: والله مالي بالطيب من حاجة غير أني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ”لا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر تحد على ميت فوق ثلاث ليال، إلا على زوج أربعة أشهر وعشرا.“ فقالت زينب: ثم دخلت على زينب بنت جحش حين توفي أخوها، فدعت بطيب فمست منه، ثم قالت: والله مالي بالطيب من حاجة، غير أني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول على المنبر: لا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر تحد على ميت فوق ثلاث ليال إلا على زوج أربعة أشهر وعشرا. قالت زينب: وسمعت أمي أم سلمة زوج النبى صلى الله عليه وسلم تقول: جاءت امرأة إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت: يا رسول الله إن ابنتي توفي عنها زوجها، وقد اشتكت عينها، أفتكحلها؟، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”لا“ مرتين أو ثلاثا كل ذلك يقول: ”لا“ ثم قال: ”إنما هي أربعة أشهر وعشر، وقد كانت إحداكن فى الجاهلية ترمي بالبعرة عند رأس الحول.“ قال حميد: فقلت لزينب: وما ترمي بالبعرة عند رأس الحول؟، فقالت زينب: كانت المرأة إذا توفي عنها زوجها، دخلت حفشا ولبست شر ثيابها، ولم تمس طيبا ولا شيئا حتى تمر بها سنة، ثم تؤتى بدابة حمار أو شاة أو طير، فتفتض به، فقلما تفتض بشيء إلا مات، ثم تخرج فتعطى بعرة فترمي بها، ثم تراجع بعد ما شاءت من طيب أو غيره. قال مالك: تفتض، تمسح به، والحفش: الخص. كمل حديث عبد الله بن أبى بكر.
حمید بن نافع رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدہ زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہا نے انہیں تین حدیثیں بتائیں: زینب نے کہا: جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہ زوجہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے والد ابوسفیان بن حرب رضی اللہ عنہ فوت ہوئے تو میں ان کے پاس گئی، پھر ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے زرد رنگ کی خوشبو منگوائی جس میں زعفران یا کوئی دوسری چیز ملی ہوئی تھی اور وہ خوشبو (تیل کے ساتھ) اپنی لونڈی کو لگائی پھر (باقی ماندہ حصے سے) اپنے رخساروں پر مل لی اور فرمایا: اللہ کی قسم! مجھے خوشبو کی کوئی ضرورت نہیں ہے سوائے اس کے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو عورت اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہے اس کے لئے حلال نہیں کہ وہ کسی مرنے والے پر تین راتوں سے زیادہ سوگ کرے سوائے (اپنے) خاوند کے، اس پر وہ چار مہینے اور دس دن سوگ کرے گی، زینب (بنت ابی سلمہ) نے فرمایا: پھر میں زینب بنت حجش رضی اللہ عنہا کے پاس گئی جن کا بھائی فوت ہوا تھا، پھر انہوں نے خوشبو منگوائی اور اس میں سے لگا کر فرمایا: اللہ کی قسم! مجھے خوشبو کی کوئی ضرورت نہیں ہے سوائے اس کے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو عورت اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہے اس کے لئے حلال نہیں ہے کہ وہ کسی مرنے والے پر تین راتوں سے زیادہ سوگ کرے سوائے (اپنے) خاوند کے، اس پر وہ چار مہینے اور دس دن سوگ کرے گی زینت (بنت ابی سلمہ) نے کہا: میں نے اپنی امی اُم سلمہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک عورت آئی اور کہا: یا رسول اللہ! میری بیٹی کا شوہر فوت ہو گیا ہے اور اس کی آنکھوں میں درد ہے تو کیا وہ سرمہ ڈال سکتی ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو یا تین دفعہ فرمایا: ”نہیں“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تو چار مہینے اور دس دن ہیں زمانہ جاہلیت میں تم عورتوں میں سے شوہر کے مرنے والی عورت ایک سال گزرنے پر مینگنی پھینک دیتی تھی۔“ حمید بن نافع نے کہا: میں نے زینب (بنت ام سلمہ) سے پوچھا: سال گزرنے پر مینگنی پھینک دینے کا کیا مطلب ہے؟، تو زینب نے کہا: جب کسی عورت کا خاوند فوت ہو جاتا تو وہ ایک گندی کوٹھڑی میں داخل ہو جاتی اور گندے کپڑے پہن لیتی تھی، وہ نہ خوشبو لگاتی اور نہ کوئی دوسری چیز (صفائی کے لیے) استعمال کرتی، پھر جب ایک سال گزر جاتا تو کوئی جانور: گدھا، بکری یا پرندہ لایا جاتا تو اسے اپنے جسم سے لگاتی، وہ جس جانور کو اپنے جسم سے لگاتی تو (عام طور پر) مر جاتا تھا، پھر وہ (کوٹھڑی سے) باہر نکلتی تو اسے (اونٹ کی) مینگنی (یا لید) دی جاتی تو وہ اسے پھینکتی تھی پھر اس کے بعد وہ خوشبو وغیرہ لگاتی تھی۔، امام مالک نے کہا: «تفتض» کا مطلب ہے «تمسح»(چھوتی تھی) اور «حفش»(چھوٹی سی بند کوٹھڑی والے) قلعہ کو کہتے ہیں، عبداللہ بن ابی بکر کی بیان کردہ حدیثیں مکمل ہو گئیں۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 385]
تخریج الحدیث: «318- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 596/2-298 ح 1306، ك 29 ب 35 ح 101-103) التمهيد 310/17، 311، الاستذكار: 1224-1226، و أخرجه البخاري (5334-5337) و مسلم (1486-1489) من حديث مالك به، من رواية يحيي بن يحيي وجاء الأصل: ”عشرا“!، وفي رواية يحيي بن يحيي: ولحفش البيت الردي.»