الحمدللہ! صحيح ابن خزيمه پیش کر دی گئی ہے۔    


موطا امام مالك رواية ابن القاسم کل احادیث (657)
حدیث نمبر سے تلاش:

موطا امام مالك رواية ابن القاسم
मुवत्ता इमाम मलिक रवायात इब्न अल-क़ासिम
ولیمے کا بیان
1. ولیمہ ضرور کیا جائے اگرچہ مختصر ہی ہو
حدیث نمبر: 362
150- وبه: أن عبد الرحمن بن عوف جاء إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وبه أثر صفرة، فسأله رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخبره أنه تزوج امرأة من الأنصار، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”كم سقت إليها؟“ فقال: زنة نواة من ذهب، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”أولم ولو بشاة.“
اسی سند کے ساتھ روایت ہے کہ سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور ان پر زردی کا نشان تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: (یہ کیا ہے؟) انہوں (عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ) نے بتایا کہ انہوں نے انصار کی ایک عورت سے شادی کر لی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تم نے اسے (حق مہر میں) کیا دیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: کھجور کی ایک گٹھلی کے برابر سونا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری ہی کیوں نہ ہو۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 362]
تخریج الحدیث: «150- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 545/2 ح 1184، ك 28 ب 21 ح 47) التمهيد 178/2، الاستذكار:1104، و أخرجه البخاري (5153) من حديث مالك به ورواه مسلم (1427/81) من حديث حميد الطويل به وصرح حميد بالسماع عند البخاري (5072)»

2. دعوت ولیمہ قبول کرنا ضروری ہے
حدیث نمبر: 363
83- وبه: عن أبى هريرة أنه كان يقول: شر الطعام طعام الوليمة يدعى لها الأغنياء ويترك المساكين. ومن لم يأت الدعوة فقد عصى الله ورسوله.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ (لوگوں کا) سب سے برا کھانا اس ولیمے کا کھانا ہے جس میں امیروں کو دعوت دی جاتی ہے اور مسکینوں کو چھوڑ دیا جاتا ہے اور جس نے (بغیر شرعی عذر کے) دعوت قبول نہ کی تو اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی ۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 363]
تخریج الحدیث: «83- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 546/2 ح 1187، ك 28 ب 21 ح 50) التمهيد 175/10، الاستذكار: 1107، و أخرجه البخاري (5177) ومسلم (1432/107) من حديث مالك به.»

حدیث نمبر: 364
231- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”إذا دعي أحدكم إلى الوليمة فليأتها.“
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کو ولیمے کی دعوت ملے تو اسے چاہئیے کہ وہ اسے قبول کرے۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 364]
تخریج الحدیث: «231- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 456/2 ح 1186، ك 28 ب 21 ح 49) التمهيد 14/14، الاستذكار:1106، و أخرجه البخاري (5173) ومسلم (1429/96) من حديث مالك به.»

3. دعوت ولیمہ میں صرف امیروں کو بلانے کی مذمت
حدیث نمبر: 365
83- وبه: عن أبى هريرة أنه كان يقول: شر الطعام طعام الوليمة يدعى لها الأغنياء ويترك المساكين. ومن لم يأت الدعوة فقد عصى الله ورسوله.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ (لوگوں کا) سب سے برا کھانا اس ولیمے کا کھانا ہے جس میں امیروں کو دعوت دی جاتی ہے اور مسکینوں کو چھوڑ دیا جاتا ہے اور جس نے (بغیر شرعی عذر کے) دعوت قبول نہ کی تو اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی ۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 365]
تخریج الحدیث: «83- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 546/2 ح 1187، ك 28 ب 21 ح 50) التمهيد 175/10، الاستذكار: 1107، و أخرجه البخاري (5177) ومسلم (1432/107) من حديث مالك به.»

4. عقیقہ کا بیان
حدیث نمبر: 366
185- مالك عن زيد بن أسلم عن رجل من بني ضمرة عن أبيه أنه قال: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن العقيقة، فقال: ”لا أحب العقوق“ وكأنه إنما كره الاسم، وقال: ”من ولد له ولد فأحب أن ينسك عن ولده فليفعل.“ كمل حديث زيد بن أسلم وهو اثنان وعشرون حديثا.
بنوضمرہ کے ایک آدمی سے روایت ہے وہ اپنے باپ سے بیان کرتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیقے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں عقوق (نافرمانی) کو پسند نہیں کرتا، گویا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نام کو ناپسند کیا اور فرمایا: جس کا بیٹا (یا بیٹی) پیدا ہو پھر وہ اپنی اولاد کی طرف سے قربانی کرنا پسند کرے تو قربانی کر لے۔ زید بن اسلم کی بیان کردہ حدیثیں مکمل ہو گئیں، یہ بائیس حدیثیں ہیں۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 366]
تخریج الحدیث: «185- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 500/2 ح 1103، ك 26 ب 1 ح 1، وسنده ضعيف) التمهيد 304/4، الاستذكار:1035، و أخرجه أحمد (369/5) من حديث مالك به، ورواه أبوداود (2842) من حديث عمرو بن شعيب عن أبيه: أراه عن جده به نحوه وهو هديث حسن وله شواهد.»