515- مالك عن يزيد بن عبد الله ابن الهاد عن محمد بن إبراهيم بن الحارث التيمي عن أبى سلمة بن عبد الرحمن عن أبى هريرة أنه قال: خرجت إلى الطور فلقيت كعب الأحبار فجلست معه فحدثني عن التوراة وحدثته عن النبى صلى الله عليه وسلم فكان فيما حدثته أني قلت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ( (خير يوم طلعت عليه الشمس يوم الجمعة، فيه خلق آدم وفيه أهبط، وفيه تيب عليه، وفيه مات، وفيه تقوم الساعة، وما من دابة إلا وهى مصيخة يوم الجمعة من حين تصبح حتى تطلع الشمس شفقا من الساعة إلا الجن والإنس، وفيه ساعة لا يصادفها عبد مسلم وهو يصلي يسأل الله شيئا إلا أعطاه إياه) ) فقال كعب: ذلك فى كل سنة يوم، فقلت: بل فى كل جمعة، قال: فقرأ كعب التوراة، فقال: صدق رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: أبو هريرة: فلقيت بصرة بن أبى بصرة الغفاري فقال: من أين أقبلت؟ فقلت: من الطور، فقال: لو أدركتك قبل أن تخرج إليه ما خرجت إليه، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ( (لا تعمل المطي إلا إلى ثلاثة مساجد، إلى المسجد الحرام وإلى مسجدي هذا وإلى مسجد إيلياء أو بيت المقدس) ) ؛ يشك أيهما. قال قال أبو هريرة: ثم لقيت عبد الله بن سلام فحدثته بمجلسي مع كعب وما حدثته فى يوم الجمعة، فقلت له: قال كعب: ذلك فى كل سنة يوم، فقال عبد الله بن سلام: كذب كعب، قال: فقلت: ثم قرأ كعب التوراة فقال: بل هي فى كل جمعة، فقال عبد الله: صدق كعب، ثم قال عبد الله بن سلام: قد علمت أية ساعة هي، قال أبو هريرة: فأخبرني بها ولا تضن على، فقال عبد الله بن سلام: هي آخر ساعة من يوم الجمعة، فقال أبو هريرة كيف تكون آخر ساعة من يوم الجمعة، وقد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ( (لا يصادفها عبد مسلم وهو يصلي وتلك ساعة لا يصلي فيها) ) ؟ فقال عبد الله بن سلام: ألم يقل رسول الله صلى الله عليه وسلم: ( (من جلس مجلسا ينتظر الصلاة فهو فى صلاة حتى يصلي؟) ) قال: فقلت: بلى، فقال: هو ذلك.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں طور (پہاڑ) کی طرف گیا تو (واپسی پر) میری ملاقات کعب الاحبار سے ہوئی تو میں اس کے پاس بیٹھ گیا۔ اس نے مجھے تورات سے باتیں بتائیں اور میں نے اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں سنائیں۔ میں نے اسے یہ بھی بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بہترین دن جس میں سورج طلوع ہوتا ہے جمعہ کا دن ہے۔ اسی میں آدم علیہ السلام پیدا کئے گئے اور اسی میں (جنت سے) اتارے گئے اور اسی میں ان کی توبہ قبول کی گئی اور اسی دن فوت ہوئے اور اسی دن قیامت بپا ہو گی۔ ہر جانور جمعہ کے دن صبح کے وقت سورج کے طلوع ہونے تک قیامت سے ڈرتے ہوئے کان لگا کر سننے کی کوشش کرتا ہے سوائے جنوں اور انسانوں کے اور اس دن میں ایک ایسا وقت ہے جب مسلمان بندہ نماز پڑھ رہا ہوتا ہے تو اللہ سے جو کچھ مانگتا ہے وہ اسے عطا کر دیتا ہے۔“ کعب نے کہا: یہ ہر سال میں ایک دن ہوتا ہے، تو میں نے کہا: (نہیں) بلکہ ہر جمعہ کہ یہ ہوتا ہے۔ پھر کعب نے تورات پڑھی تو کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: پھر میری ملاقات سیدنا بصرہ بن ابی بصرہ الغفاری رضی اللہ عنہ سے ہوئی تو انہوں نے کہا: آپ کہاں سے آئے ہیں؟ میں نے کہا: طور سے۔ تو انہوں نے کہا کہ اگر میری ملاقات آپ کے جانے سے پہلے ہوتی تو آپ وہاں نہ جاتے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تین مسجدوں کے علاوہ (نماز یا ثواب کے لئے) سفر نہیں کیا جاتا: مسجد حرام، یہ میری مسجد (مسجد نبوی) اور مسجد ایلیا یا بیت المقدس کی طرف۔ راوی کو مسجد ایلیا یا بیت المقدس کے لفظ میں شک ہے (اور دونوں سے مراد ایک ہی مسجد ہے یعنی مسجد اقصیٰ) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ پھر میری ملاقات سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے ہوئی تو میں نے انہیں کعب کے ساتھ اپنی مجلس کے بارے میں بتایا اور جمعے کے بارے میں جو حدیث بیان کی تھی وہ بتائی اور کہا کہ کعب نے کہا: یہ وقت ہر سال میں ایک دن ہوتا ہے تو انہوں نے کہا: کعب نے غلط کہا ہے۔ میں نے کہا: پھر کعب نے تورات پڑھی تو کہا کہ بلکہ یہ (وقت) ہر جمعے کو ہوتا ہے تو عبداللہ (بن سلام رضی اللہ عنہ) نے کہا: کعب نے سچ کہا: ہے۔ پھر سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھے علم ہے کہ یہ گھڑی کس وقت ہوتی ہے؟ میں نے کہا: آپ مجھے بتا دیں اور بتانے میں بخل نہ کریں تو سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ جمعے کے آخری وقت ہوتی ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ آخری وقت کس طرح ہوتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب مسلمان بندہ نماز پڑھ رہا ہوتا ہے، اور اس وقت تو نماز نہیں پڑھی جاتی؟“ تو سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا کہ جو شخص نماز کے انتظار میں بیٹھا ہو تو وہ نماز پڑھنے تک نماز میں ہی (شمار) ہوتا ہے؟ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:) میں نے کہا: ہاں! فرمایا تھا، تو انہوں نے کہا: تو یہی (مطلب) ہے۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 208]
تخریج الحدیث: «515- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 108/1-110 ح 239، ك 5 ب 7 ح 16) التمهيد 36/23، 37، الاستذكار: 210، و أخرجه أبوداود (1046) و الترمذي (491) من حديث مالك به وقال الترمذي: ”حسن صحيح“ وصححه ابن خزيمة (1738) وابن حبان (الموارد: 1024) والحاكم (278/1، 279) عليٰ شرط الشيخين ووافقه الذهبي.»
حدیث نمبر: 209
373- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”نحن الآخرون الأولون السابقون يوم القيامة، بيد أنهم أوتوا الكتاب من قبلنا وأوتيناه من بعدهم، فهذا يومهم الذى فرض عليهم فاختلفوا فيه فهدانا الله له، فالناس لنا فيه تبع، اليهود غدا والنصارى بعد غد.“
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم آخر میں آنے والے قیامت کے دن سبقت لے جانے والے ہوں گے باوجود اس کے کہ انہیں (یہود و نصاریٰ کو) ہم سے پہلے کتاب ملی اور ہمیں ان کے بعد ملی۔ پس یہ دن ان پر فرض کے آ گیا تو انہوں نے اس میں اختلاف کیا، پھر اللہ نے ہمیں اس کی ہدایت دی، لہٰذا سب لوگ ہمارے بعد ہیں۔ یہودیوں کا دن کل (ہفتہ) اور نصاریٰ کا پرسوں (اتوار) ہے۔“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 209]
تخریج الحدیث: «373- الموطأ (رواية الجوهري باسانيده عن مالك: 576)، و أخرجه ا ابن خزيمة (109/3، 110 ح 1720) من حديث مالك به ورواه البخاري (876) ومسلم (855) من حديث ابي الزناد به.»
2. جمعہ کے دن ایک گھڑی قبولیت کی ہے
حدیث نمبر: 210
515- مالك عن يزيد بن عبد الله ابن الهاد عن محمد بن إبراهيم بن الحارث التيمي عن أبى سلمة بن عبد الرحمن عن أبى هريرة أنه قال: خرجت إلى الطور فلقيت كعب الأحبار فجلست معه فحدثني عن التوراة وحدثته عن النبى صلى الله عليه وسلم فكان فيما حدثته أني قلت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ( (خير يوم طلعت عليه الشمس يوم الجمعة، فيه خلق آدم وفيه أهبط، وفيه تيب عليه، وفيه مات، وفيه تقوم الساعة، وما من دابة إلا وهى مصيخة يوم الجمعة من حين تصبح حتى تطلع الشمس شفقا من الساعة إلا الجن والإنس، وفيه ساعة لا يصادفها عبد مسلم وهو يصلي يسأل الله شيئا إلا أعطاه إياه) ) فقال كعب: ذلك فى كل سنة يوم، فقلت: بل فى كل جمعة، قال: فقرأ كعب التوراة، فقال: صدق رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: أبو هريرة: فلقيت بصرة بن أبى بصرة الغفاري فقال: من أين أقبلت؟ فقلت: من الطور، فقال: لو أدركتك قبل أن تخرج إليه ما خرجت إليه، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ( (لا تعمل المطي إلا إلى ثلاثة مساجد، إلى المسجد الحرام وإلى مسجدي هذا وإلى مسجد إيلياء أو بيت المقدس) ) ؛ يشك أيهما. قال قال أبو هريرة: ثم لقيت عبد الله بن سلام فحدثته بمجلسي مع كعب وما حدثته فى يوم الجمعة، فقلت له: قال كعب: ذلك فى كل سنة يوم، فقال عبد الله بن سلام: كذب كعب، قال: فقلت: ثم قرأ كعب التوراة فقال: بل هي فى كل جمعة، فقال عبد الله: صدق كعب، ثم قال عبد الله بن سلام: قد علمت أية ساعة هي، قال أبو هريرة: فأخبرني بها ولا تضن على، فقال عبد الله بن سلام: هي آخر ساعة من يوم الجمعة، فقال أبو هريرة كيف تكون آخر ساعة من يوم الجمعة، وقد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ( (لا يصادفها عبد مسلم وهو يصلي وتلك ساعة لا يصلي فيها) ) ؟ فقال عبد الله بن سلام: ألم يقل رسول الله صلى الله عليه وسلم: ( (من جلس مجلسا ينتظر الصلاة فهو فى صلاة حتى يصلي؟) ) قال: فقلت: بلى، فقال: هو ذلك.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں طور (پہاڑ) کی طرف گیا تو (واپسی پر) میری ملاقات کعب الاحبار سے ہوئی تو میں اس کے پاس بیٹھ گیا۔ اس نے مجھے تورات سے باتیں بتائیں اور میں نے اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں سنائیں۔ میں نے اسے یہ بھی بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بہترین دن جس میں سورج طلوع ہوتا ہے جمعہ کا دن ہے۔ اسی میں آدم علیہ السلام پیدا کئے گئے اور اسی میں (جنت سے) اتارے گئے اور اسی میں ان کی توبہ قبول کی گئی اور اسی دن فوت ہوئے اور اسی دن قیامت بپا ہو گی۔ ہر جانور جمعہ کے دن صبح کے وقت سورج کے طلوع ہونے تک قیامت سے ڈرتے ہوئے کان لگا کر سننے کی کوشش کرتا ہے سوائے جنوں اور انسانوں کے اور اس دن میں ایک ایسا وقت ہے جب مسلمان بندہ نماز پڑھ رہا ہوتا ہے تو اللہ سے جو کچھ مانگتا ہے وہ اسے عطا کر دیتا ہے۔“ کعب نے کہا: یہ ہر سال میں ایک دن ہوتا ہے، تو میں نے کہا: (نہیں) بلکہ ہر جمعہ کہ یہ ہوتا ہے۔ پھر کعب نے تورات پڑھی تو کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: پھر میری ملاقات سیدنا بصرہ بن ابی بصرہ الغفاری رضی اللہ عنہ سے ہوئی تو انہوں نے کہا: آپ کہاں سے آئے ہیں؟ میں نے کہا: طور سے۔ تو انہوں نے کہا کہ اگر میری ملاقات آپ کے جانے سے پہلے ہوتی تو آپ وہاں نہ جاتے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تین مسجدوں کے علاوہ (نماز یا ثواب کے لئے) سفر نہیں کیا جاتا: مسجد حرام، یہ میری مسجد (مسجد نبوی) اور مسجد ایلیا یا بیت المقدس کی طرف۔ راوی کو مسجد ایلیا یا بیت المقدس کے لفظ میں شک ہے (اور دونوں سے مراد ایک ہی مسجد ہے یعنی مسجد اقصیٰ) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ پھر میری ملاقات سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے ہوئی تو میں نے انہیں کعب کے ساتھ اپنی مجلس کے بارے میں بتایا اور جمعے کے بارے میں جو حدیث بیان کی تھی وہ بتائی اور کہا کہ کعب نے کہا: یہ وقت ہر سال میں ایک دن ہوتا ہے تو انہوں نے کہا: کعب نے غلط کہا ہے۔ میں نے کہا: پھر کعب نے تورات پڑھی تو کہا کہ بلکہ یہ (وقت) ہر جمعے کو ہوتا ہے تو عبداللہ (بن سلام رضی اللہ عنہ) نے کہا: کعب نے سچ کہا: ہے۔ پھر سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھے علم ہے کہ یہ گھڑی کس وقت ہوتی ہے؟ میں نے کہا: آپ مجھے بتا دیں اور بتانے میں بخل نہ کریں تو سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ جمعے کے آخری وقت ہوتی ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ آخری وقت کس طرح ہوتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب مسلمان بندہ نماز پڑھ رہا ہوتا ہے، اور اس وقت تو نماز نہیں پڑھی جاتی؟“ تو سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا کہ جو شخص نماز کے انتظار میں بیٹھا ہو تو وہ نماز پڑھنے تک نماز میں ہی (شمار) ہوتا ہے؟ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:) میں نے کہا: ہاں! فرمایا تھا، تو انہوں نے کہا: تو یہی (مطلب) ہے۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 210]
تخریج الحدیث: «515- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 108/1-110 ح 239، ك 5 ب 7 ح 16) التمهيد 36/23، 37، الاستذكار: 210، و أخرجه أبوداود (1046) و الترمذي (491) من حديث مالك به وقال الترمذي: ”حسن صحيح“ وصححه ابن خزيمة (1738) وابن حبان (الموارد: 1024) والحاكم (278/1، 279) عليٰ شرط الشيخين ووافقه الذهبي.»
حدیث نمبر: 211
332- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ذكر يوم الجمعة فقال: ”فيه ساعة لا يوافقها عبد مسلم وهو قائم يصلي يسأل الله شيئا إلا أعطاه إياه وأشار رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده يقللها.“
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے دن کا ذکر کیا تو فرمایا: ”اس میں ایک ایسا وقت ہے جس میں مسلمان بندہ کھڑا ہو کر نماز پڑھ رہا ہوتا ہے، پھر اللہ سے جو بھی سوال کرتا ہے تو اللہ اسے قبول فرماتا ہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ کے ساتھ اشارہ کیا کہ یہ بہت تھوڑا وقت ہوتا ہے۔“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 211]
تخریج الحدیث: «332- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 238/1 ح 381، ك 5 ب 7 ح 15) التمهيد 17/19، الاستذكار: 209، و أخرجه البخاري (935) ومسلم (852) من حديث مالك به.»
3. جمعہ کی نماز کے لئے غسل کرنا مستحب ہے
حدیث نمبر: 212
204- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”إذا جاء أحدكم الجمعة فليغتسل.“
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص جمعہ (کی نماز) کے لئے آئے تو وہ غسل کر ے۔“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 212]
تخریج الحدیث: «204- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 102/1 ح 227، ك 5 ب 1 ح 5) التمهيد 144/1، و أخرجه البخاري (877) من حديث مالك ومسلم (844) من حديث نافع به.»
حدیث نمبر: 213
271- مالك عن صفوان بن سليم عن عطاء بن يسار عن أبى سعيد الخدري أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”غسل يوم الجمعة واجب على كل محتلم.“
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روايت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر بالغ پر غسل جمعہ واجب ہے۔“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 213]
تخریج الحدیث: «271- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 102/1 ح 226، ك 5 ب 5 ح 4) التمهيد 211/16، الاستذكار: 196، و أخرجه البخاري (879) مسلم (846) من حديث مالك به.»
4. جمعہ کے دن غسل جنابت کی فضیلت
حدیث نمبر: 214
428- مالك عن سمي مولى أبى بكر عن أبى صالح السمان عن أبى هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”من اغتسل يوم الجمعة غسل الجنابة ثم راح فى الساعة الأولى فكأنما قرب بدنة، ومن راح فى الساعة الثانية فكأنما قرب بقرة، ومن راح فى الساعة الثالثة فكأنما قرب كبشا أقرن، ومن راح فى الساعة الرابعة فكأنما قرب دجاجة، ومن راح فى الساعة الخامسة فكأنما قرب بيضة، فإذا خرج الإمام حضرت الملائكة يستمعون الذكر.“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو آدمی جمعہ کے دن غسل جنابت کرے پھر پہلے وقت میں (نماز جمعہ کے لئے) جائے تو گویا اس نے اونٹ کی قربانی پیش کی اور جو دوسرے وقت میں جائے تو گویا اس نے گائے کی قربانی پیش کی اور جو تیسرے وقت میں جائے تو گویا اس نے سینگوں والے مینڈھے کی قربانی پیش کی اور جو چوتھے وقت میں جائے تو گویا اس نے ایک مرغی قربان کی اور جو پانچویں وقت میں جائے تو گویا اس نے ایک انڈا بطور قربانی پیش کیا، پھر جب امام (خطبے کے لئے) نکلتا ہے تو فرشتے (رجسٹر بند کر کے خطبہ) ذکر سننے کے لئے حاضر ہو جاتے ہیں۔“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 214]
تخریج الحدیث: «428- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 101/1 ح 223، ك 5 ب 1 ح 1) التمهيد 21/22، 22، الاستذكار: 195، و أخرجه البخاري (881) ومسلم (850) من حديث مالك به.»
5. جمعہ کے لئے اول وقت آنے کی فضیلت
حدیث نمبر: 215
428- مالك عن سمي مولى أبى بكر عن أبى صالح السمان عن أبى هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”من اغتسل يوم الجمعة غسل الجنابة ثم راح فى الساعة الأولى فكأنما قرب بدنة، ومن راح فى الساعة الثانية فكأنما قرب بقرة، ومن راح فى الساعة الثالثة فكأنما قرب كبشا أقرن، ومن راح فى الساعة الرابعة فكأنما قرب دجاجة، ومن راح فى الساعة الخامسة فكأنما قرب بيضة، فإذا خرج الإمام حضرت الملائكة يستمعون الذكر.“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو آدمی جمعہ کے دن غسل جنابت کرے پھر پہلے وقت میں (نماز جمعہ کے لئے) جائے تو گویا اس نے اونٹ کی قربانی پیش کی اور جو دوسرے وقت میں جائے تو گویا اس نے گائے کی قربانی پیش کی اور جو تیسرے وقت میں جائے تو گویا اس نے سینگوں والے مینڈھے کی قربانی پیش کی اور جو چوتھے وقت میں جائے تو گویا اس نے ایک مرغی قربان کی اور جو پانچویں وقت میں جائے تو گویا اس نے ایک انڈا بطور قربانی پیش کیا، پھر جب امام (خطبے کے لئے) نکلتا ہے تو فرشتے (رجسٹر بند کر کے خطبہ) ذکر سننے کے لئے حاضر ہو جاتے ہیں۔“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 215]
تخریج الحدیث: «428- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 101/1 ح 223، ك 5 ب 1 ح 1) التمهيد 21/22، 22، الاستذكار: 195، و أخرجه البخاري (881) ومسلم (850) من حديث مالك به.»
6. نماز جمعہ کی قرأت
حدیث نمبر: 216
276- مالك عن ضمرة بن سعيد المازني عن عبيد الله بن عتبة أن الضحاك بن قيس سأل النعمان بن بشير: ماذا كان يقرأ به رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم الجمعة على إثر سورة الجمعة؟ فقال: كان يقرأ بـ {هل أتاك حديث الغاشية}.
ضحاک بن قیس رحمہ اللہ نے سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کہ جمعہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سورہ جمعہ کے بعد (دوسری رکعت میں) کیا پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے فرمایا: آپ سورہ غاشیہ پڑھتے تھے۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 216]
تخریج الحدیث: «276- الموطأ (رواية يحيٰي بن يحيٰي 111/1 ح 243، ك 5 ب 9 ح 19، وقال هذا حديث متصل صحيح) التمهيد 321/16، الاستذكار: 214، و أخرجه أبوداود (1123) و النسائي (112/3 ح 1424) من مالك به ورواه مسلم (878) من حديث ضمرة بن سعيد به من رواية يحيي بن يحيي وجاء فى الأصل: ”عُتَيْبَةَ“!»
7. دوران خطبہ انصاف کا حکم
حدیث نمبر: 217
13- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”إذا قلت لصاحبك: أنصت، والإمام يخطب، فقد لغوت.“
اور اسی سند کے ساتھ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تو اپنے ساتھی کو کہے چپ ہو جا، اور امام (جمعے کا) خطبہ دے رہا ہو تو تُو نے لغو (باطل) کام کیا۔“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 217]
تخریج الحدیث: «13- وله لون آخر فى الموطأ (رواية أبى مصعب: 437)، و أخرجه النسائي فى المجتبيٰ (188/3، ح 1578) من حديث عبدالرحمٰن بن القاسم عن مالك، و أبوداود (1112) من حديث مالك به، ورواه البخاري (934) و مسلم (851) من حديث شهاب به.»