الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    


موطا امام مالك رواية ابن القاسم کل احادیث (657)
حدیث نمبر سے تلاش:

موطا امام مالك رواية ابن القاسم
मुवत्ता इमाम मलिक रवायात इब्न अल-क़ासिम
باجماعت نماز کا بیان
1. باجماعت نماز کی فضیلت
حدیث نمبر: 97
11- مالك عن ابن شهاب عن سعيد بن المسيب عن أبى هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”صلاة الجماعة أفضل من صلاة أحدكم وحده بخمسة وعشرين جزءا.“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جماعت والی نماز تمہارے اکیلے کی نماز سے پچیس (25) درجے افضل ہے۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 97]
تخریج الحدیث: «11- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 129/1 ح 287، ك 8 ب 1 ح 2) التمهيد 316/6، الاستذكار: 256 و أخرجه مسلم (649) من حديث مالك به ورواه البخاري (648) من حديث الزهري عن سعيد بن المسيب و أبى سلمة عن أبى هريره به نحو المعني مطولا صحيح قال: ابن شهاب الزهري: أخبرني سعيد بن المسيب ايبو سلمة بن عبدالرحمن أن أبا هريرة قال: إلخ»

حدیث نمبر: 98
331- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”يتعاقبون فيكم ملائكة بالليل وملائكة بالنهار ويجتمعون فى صلاة الفجر وصلاة العصر ثم يعرج الذين باتوا فيكم فيسألهم وهو أعلم بهم كيف تركتم عبادي فيقولون تركناهم وهم يصلون وآتيناهم وهم يصلون“.
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے درمیان رات اور دن کو فرشتے آتے جاتے رہتے ہیں اور فجر کی نماز اور عصر کی نماز میں اکٹھے ہوتے ہیں، پھر جنہوں نے تمہارے درمیان رات گزاری (ہوتی ہے صبح کو) اوپر چڑھ جاتے ہیں تو ان سے (اللہ تعالیٰ) پوچھتا ہے اور وہ ان سے زیادہ جانتا ہے! میرے بندوں کو تم کس حال پر چھوڑ کر آئے ہو؟ تو وہ کہتے ہیں: ہم انہیں اس حالت میں چھوڑ آئے ہیں کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے اور جب ہم ان کے پاس گئے تھے تب بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 98]
تخریج الحدیث: «331- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 170/1 ح 412، ك 9 ب 24 ح 82) التمهيد 50/19، الاستذكار: 382، و أخرجه البخاري (555) ومسلم (632) من حديث مالك به.»

حدیث نمبر: 99
476- مالك عن هشام بن عروة عن أبيه عن حمران مولى عثمان بن عفان أن عثمان ابن عفان جلس على المقاعد، فجاء المؤذن فآذنه لصلاة العصر فدعا بماء فتوضأ، ثم قال: والله، لأحدثنكم حديثا لولا آية فى كتاب الله ما حدثتكموه، ثم قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ”ما من امرئ يتوضأ فيحسن وضوءه ثم يصلي الصلاة إلا غفر له ما بينه وبين الصلاة ألأخرى حتى يصليها“. قال مالك: أراه يريد هذه الآية {وأقم الصلاة طرفي النهار وزلفا من الليل إن الحسنات يذهبن السيئات ذلك ذكرى للذاكرين}.
سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام حمران رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ مقاعد (بیٹھنے کی اونچی جگہ) پر بیٹھے تو مؤذن نے آ کر نماز عصر کی اطلاع دی، پھر آپ نے پانی منگوایا اور وضو کیا پھر فرمایا: اللہ کی قسم! میں تمہیں ایک حدیث سناتا ہوں، اگر کتاب اللہ کی ایک آیت نہ ہوتی تو میں تمہیں وہ کبھی نہ سناتا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو آدمی اچھی طرح وضو کرتا ہے پھر نماز پڑھتا ہے تو اس نماز اور دوسری نماز کے درمیان (سرزد ہونے والے گناہ) معاف کر دیئے جاتے ہیں۔
امام مالک نے فرمایا: میرا خیال ہے کہ یہ آیت مراد ہے «وَأَقِمِ الصَّلَاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِّنَ اللَّيْلِ ۚ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ۚ ذَٰلِكَ ذِكْرَىٰ لِلذَّاكِرِينَ» [ھود: ١١٤] اور نماز قائم کرو دن کو دونوں کناروں میں اور رات کے ایک حصے میں، بے شک نیکیاں گناہوں کو ختم کر دیتی ہیں، یہ نصیحت ہے ان لوگوں کے لئے جو نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 99]
تخریج الحدیث: «476- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 30/1، 31 ح 58، ك 2 ب 6 ح 29) التمهيد 210/22، 211، الاستذكار: 51، و أخرجه النسائي (90/1 ح 146) من حديث مالك به مختصرا»

حدیث نمبر: 100
197- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”صلاة الجماعة تفضل صلاة الفذ بسبع وعشرين درجة.“
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جماعت کے ساتھ نماز اکیلے کی نماز سے ستائیس گنا افضل ہے۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 100]
تخریج الحدیث: «197- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 129/1 ح 286، ك 8 ب 1 ح 1)، التمهيد 137/14، الاستذكار:255، و أخرجه البخاري (645) ومسلم (650) من حديث مالك به .»

2. باجماعت نماز کی اہمیت
حدیث نمبر: 101
184- مالك عن زيد بن أسلم عن رجل من بني الديل يقال له بسر بن محجن، عن أبيه: أنه كان فى مجلس مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فأذن بالصلاة، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى ثم رجع ومحجن فى مجلسه. فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”ما منعك أن تصلي مع الناس؟ ألست برجل مسلم؟“ قال: بلى يا رسول الله ولكني، كنت قد صليت فى أهلي. فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”إذا جئت فصل مع الناس، وإن كنت قد صليت.“
سیدنا محجن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک مجلس میں (بیٹھے ہوئے) تھے، پھر نماز کے لئے اذان دی گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کھڑے ہوئے اور نماز پڑھائی، پھر واپس آئے تو سیدنا محجن رضی اللہ عنہ اپنی مجلس میں (ہی) موجود تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: تم نے لوگوں کے ساتھ نماز کیوں نہیں پڑھی؟ کیا تم مسلمان آدمی نہیں ہو؟ محجن نے کہا: جی ہاں، یا رسول اللہ! میں مسلمان ہوں، لیکن میں نے (یہ) نماز گھر میں پڑھ لی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا: اگر تم نماز پڑھ چکے ہو اور (مسجد) آؤ تو لوگوں کے ساتھ (دوبارہ بھی) نماز پڑھو۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 101]
تخریج الحدیث: «184- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 1328/1 ح 294، ك 8 ب 3 ح 8) التمهيد 222/4، الاستذكار:264، و أخرجه النسائي (112/2 ح 858) من حديث مالك به وصححه ابن حبان (الاحسان: 2405/2398) والحاكم (244/1) وحسنه البغوي فى شرح السنة (130/3 ح 856).»

3. جماعت سے پیچھے رہنے والوں کے لئے وعید
حدیث نمبر: 102
325- وبه: أن النبى صلى الله عليه وسلم قال: ”والذي نفسي بيده، لقد هممت أن آمر بحطب فيحطب، ثم آمر بالصلاة فيؤذن لها، ثم آمر رجلا فيؤم الناس، ثم أخالف إلى رجال فأحرق عليهم بيوتهم، والذي نفسي بيده، لو يعلم أحدهم أنه يجد عظما سمينا أو مرماتين حسنتين لشهد العشاء.“
اور اسی سند کے ساتھ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں نے یہ ارادہ کیا تھا کہ میں لکڑیاں اکٹھی کرنے کا حکم دوں تو لکڑیاں اکٹھی کی جائیں، پھر میں نماز کے لیے اذان کا حکم دوں، پھر ایک آدمی کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے، پھر (نماز نہ پڑھنے والے) لوگوں کو ان کی لاعلمی میں جا پکڑوں اور ان کے گھروں کو جلا دوں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر ان (باجماعت نماز نہ پڑھنے والے) لوگوں میں سے کسی کو معلوم ہو جائے کہ اسے موٹی ہڈی یا بکری کے دو اچھے کھر ملیں تو وہ ضرور عشاء کی نماز میں حاضر ہوں۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 102]
تخریج الحدیث: «325- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 129/1، 130 ح 288، ك 8 ب 1 ح 3) التمهيد 331/18، الاستذكار: 357، و أخرجه البخاري (644) من حديث مالك به.»

4. نماز کے انتظار میں رہنا بہت عظیم عمل ہے
حدیث نمبر: 103
329- مالك وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم: قال: ”لا يزال أحدكم فى صلاة ما دامت الصلاة تحبسه لا يمنعه أن ينقلب إلى أهله إلا الصلاة.“
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے ہر آدمی اس وقت تک نماز میں رہتا ہے جب تک نماز اسے (اپنے انتظار میں) روکے رکھتی ہے۔ وہ نماز کی وجہ سے اپنے گھر واپس نہیں جاتا۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 103]
تخریج الحدیث: «329- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 160/1 ح 382، ك 9 ب 18 ح 52) التمهيد 26/19، الاستذكار: 352، و أخرجه البخاري (659) ومسلم (649/275 بعد ح 661) من حديث مالك به.»

حدیث نمبر: 104
515- مالك عن يزيد بن عبد الله ابن الهاد عن محمد بن إبراهيم بن الحارث التيمي عن أبى سلمة بن عبد الرحمن عن أبى هريرة أنه قال: خرجت إلى الطور فلقيت كعب الأحبار فجلست معه فحدثني عن التوراة وحدثته عن النبى صلى الله عليه وسلم فكان فيما حدثته أني قلت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:  ”خير يوم طلعت عليه الشمس يوم الجمعة، فيه خلق آدم وفيه أهبط، وفيه تيب عليه، وفيه مات، وفيه تقوم الساعة، وما من دابة إلا وهى مصيخة يوم الجمعة من حين تصبح حتى تطلع الشمس شفقا من الساعة إلا الجن والإنس، وفيه ساعة لا يصادفها عبد مسلم وهو يصلي يسأل الله شيئا إلا أعطاه إياه“  فقال كعب: ذلك فى كل سنة يوم، فقلت: بل فى كل جمعة، قال: فقرأ كعب التوراة، فقال: صدق رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: أبو هريرة: فلقيت بصرة بن أبى بصرة الغفاري فقال: من أين أقبلت؟ فقلت: من الطور، فقال: لو أدركتك قبل أن تخرج إليه ما خرجت إليه، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:  ”لا تعمل المطي إلا إلى ثلاثة مساجد، إلى المسجد الحرام وإلى مسجدي هذا وإلى مسجد إيلياء أو بيت المقدس“  ؛ يشك أيهما. قال قال أبو هريرة: ثم لقيت عبد الله بن سلام فحدثته بمجلسي مع كعب وما حدثته فى يوم الجمعة، فقلت له: قال كعب: ذلك فى كل سنة يوم، فقال عبد الله بن سلام: كذب كعب، قال: فقلت: ثم قرأ كعب التوراة فقال: بل هي فى كل جمعة، فقال عبد الله: صدق كعب، ثم قال عبد الله بن سلام: قد علمت أية ساعة هي، قال أبو هريرة: فأخبرني بها ولا تضن على، فقال عبد الله بن سلام: هي آخر ساعة من يوم الجمعة، فقال أبو هريرة كيف تكون آخر ساعة من يوم الجمعة، وقد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:  ”لا يصادفها عبد مسلم وهو يصلي وتلك ساعة لا يصلي فيها“  ؟ فقال عبد الله بن سلام: ألم يقل رسول الله صلى الله عليه وسلم:  ”من جلس مجلسا ينتظر الصلاة فهو فى صلاة حتى يصلي؟“  قال: فقلت: بلى، فقال: هو ذلك.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں طور (پہاڑ) کی طرف گیا تو (واپسی پر) میری ملاقات کعب الاحبار سے ہوئی تو میں اس کے پاس بیٹھ گیا۔ اس نے مجھے تورات سے باتیں بتائیں اور میں نے اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں سنائیں۔ میں نے اسے یہ بھی بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بہترین دن جس میں سورج طلوع ہوتا ہے جمعہ کا دن ہے۔ اسی میں آدم علیہ السلام پیدا کئے گئے اور اسی میں (جنت سے) اتارے گئے اور اسی میں ان کی توبہ قبول کی گئی اور اسی دن فوت ہوئے اور اسی دن قیامت بپا ہو گی۔ ہر جانور جمعہ کے دن صبح کے وقت سورج کے طلوع ہونے تک قیامت سے ڈرتے ہوئے کان لگا کر سننے کی کوشش کرتا ہے سوائے جنوں اور انسانوں کے اور اس دن میں ایک ایسا وقت ہے جب مسلمان بندہ نماز پڑھ رہا ہوتا ہے تو اللہ سے جو کچھ مانگتا ہے وہ اسے عطا کر دیتا ہے۔ کعب نے کہا: یہ ہر سال میں ایک دن ہوتا ہے، تو میں نے کہا: (نہیں) بلکہ ہر جمعہ کہ یہ ہوتا ہے۔ پھر کعب نے تورات پڑھی تو کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: پھر میری ملاقات سیدنا بصرہ بن ابی بصرہ الغفاری رضی اللہ عنہ سے ہوئی تو انہوں نے کہا: آپ کہاں سے آئے ہیں؟ میں نے کہا: طور سے۔ تو انہوں نے کہا کہ اگر میری ملاقات آپ کے جانے سے پہلے ہوتی تو آپ وہاں نہ جاتے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تین مسجدوں کے علاوہ (نماز یا ثواب کے لئے) سفر نہیں کیا جاتا: مسجد حرام، یہ میری مسجد (مسجد نبوی) اور مسجد ایلیا یا بیت المقدس کی طرف۔ راوی کو مسجد ایلیا یا بیت المقدس کے لفظ میں شک ہے (اور دونوں سے مراد ایک ہی مسجد ہے یعنی مسجد اقصیٰ) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ پھر میری ملاقات سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے ہوئی تو میں نے انہیں کعب کے ساتھ اپنی مجلس کے بارے میں بتایا اور جمعے کے بارے میں جو حدیث بیان کی تھی وہ بتائی اور کہا کہ کعب نے کہا: یہ وقت ہر سال میں ایک دن ہوتا ہے تو انہوں نے کہا: کعب نے غلط کہا ہے۔ میں نے کہا: پھر کعب نے تورات پڑھی تو کہا کہ بلکہ یہ (وقت) ہر جمعے کو ہوتا ہے تو عبداللہ (بن سلام رضی اللہ عنہ) نے کہا: کعب نے سچ کہا: ہے۔ پھر سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھے علم ہے کہ یہ گھڑی کس وقت ہوتی ہے؟ میں نے کہا: آپ مجھے بتا دیں اور بتانے میں بخل نہ کریں تو سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ جمعے کے آخری وقت ہوتی ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ آخری وقت کس طرح ہوتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب مسلمان بندہ نماز پڑھ رہا ہوتا ہے، اور اس وقت تو نماز نہیں پڑھی جاتی؟ تو سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا کہ جو شخص نماز کے انتظار میں بیٹھا ہو تو وہ نماز پڑھنے تک نماز میں ہی (شمار) ہوتا ہے؟ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:) میں نے کہا: ہاں! فرمایا تھا، تو انہوں نے کہا: تو یہی (مطلب) ہے۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 104]
تخریج الحدیث: «515- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 108/1-110 ح 239، ك 5 ب 7 ح 16) التمهيد 36/23، 37، الاستذكار: 210 و أخرجه أبوداود (1046) و الترمذي (491) من حديث مالك به وقال الترمذي: ”حسن صحيح“ وصححه ابن خزيمة (1738) وابن حبان (الموارد: 1024) والحاكم (278/1، 279) عليٰ شرط الشيخين ووافقه الذهبي.»

5. نماز فجر کی فضیلت
حدیث نمبر: 105
334- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”يعقد الشيطان على قافية رأس أحدكم إذا هو نام ثلاث عقد، يضرب مكان كل عقدة: عليك ليل طويل فارقد، فإن استيقظ فذكر الله انحلت عقدة، فإن توضأ انحلت عقدة، فإن صلى انحلت عقدة، فأصبح نشيطا طيب النفس، وإلا أصبح خبيثا كسلان.“
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم سوتے ہو تو شیطان تمہاری گدی پر تین گرہیں لگاتا ہے، ہر گرہ پر کہتا ہے کہ رات بہت لمبی ہے سو جا۔ پھر جب وہ نیند سے بیدار ہو کر اللہ کا ذکر کرتا ہے تو ایک گرہ کھل جاتی ہے، پھر جب وہ وضو کرتا ہے تو دوسری گرہ کھل جاتی ہے، پھر جب وہ نماز پڑھتا ہے تو تیسری گرہ کھل جاتی ہے اور یہ آدمی اس حال میں صبح کرتا ہے کہ وہ چاق و چوبند اور خوش مزاج ہوتا ہے اور اگر ایسا نہ کرے تو وہ اس حال میں صبح کرتا ہے کہ وہ ڈھیلا سست تھکا ہوا اور بدمزاج ہوتا ہے۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 105]
تخریج الحدیث: «334- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 176/1 ح 426، ك 9 ب 25 ح 95) التمهيد 45/19، الاستذكار: 396، و أخرجه البخاري (1142) من حديث مالك به.»

6. فجر، ظہر اور نماز عشاء کی فضیلت
حدیث نمبر: 106
433- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”بينما رجل يمشي بطريق إذ وجد غصن شوك على الطريق فأخره، فشكر الله له فغفر له. وقال: الشهداء خمسة: المطعون والمبطون والغرق وصاحب الهدم والشهيد فى سبيل الله. وقال: لو يعلم الناس ما فى النداء والصف الأول ثم لم يجدوا إلا أن يستهموا، عليه لاستهموا ولو يعلمون ما فى التهجير لاستبقوا إليه ولو يعلمون ما فى العتمة والصبح لآتوهما ولو حبوا.“
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک آدمی ایک راستے پر چل رہا تھا کہ اس نے راستے پر کانٹوں والی ٹہنی دیکھی تو اسے راستے سے ہٹا دیا۔ اللہ نے اس کی قدر دانی کی اور اسے بخش دیا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پانچ قسم کے لوگ شہید ہیں: طاعون سے مرنے والا، پیٹ کی بیماری سے مرنے والا، ڈوب کر مرنے والا، مکان گرنے سے مرنے والا اور اللہ کے راستے میں شہید ہونے والا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر لوگوں کو علم ہوتا کہ اذان اور پہلی صف میں کیا (ثواب) ہے، پھر وہ قرعہ اندازی کے سوا کوئی چارہ نہ پاتے تو قرعہ اندازی کرتے۔ اور اگر وہ جانتے کہ ظہر کی نماز کے لئے جلدی آنے میں کتنا (ثواب) ہے تو ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے اور اگر وہ جانتے کہ عشاء اور صبح کی نماز میں کیا (ثواب) ہے تو ضرور آتے اگرچہ انہیں گھٹنوں کے بل گھسٹ کر آنا پڑتا۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 106]
تخریج الحدیث: «433- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 131/1 ح 291، ك 8 ب 2 ح 6) التمهيد 11/22، الاستذكار: 260، 261، و أخرجه البخاري (652-654) ومسلم (1914، 437) من حديث مالك به ببعض الاختلاف.»


1    2    Next