الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    


موطا امام مالك رواية ابن القاسم کل احادیث (657)
حدیث نمبر سے تلاش:

موطا امام مالك رواية ابن القاسم
मुवत्ता इमाम मलिक रवायात इब्न अल-क़ासिम
اوقات نماز کا بیان
1. وقت سے مؤخر کر کے نماز پڑھنے والے کے لئے وعید
حدیث نمبر: 78
132- مالك عن العلاء بن عبد الرحمن أنه قال: دخلنا على أنس بن مالك بعد الظهر فقام يصلي العصر، فلما فرغ من صلاته ذكرنا تعجيل الصلاة -أو ذكرها- فقال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ”تلك صلاة المنافقين، تلك صلاة المنافقين، تلك صلاة المنافقين، يجلس أحدهم حتى إذا اصفرت الشمس وكانت بين قرني الشيطان أو على قرني الشيطان قام فنقر أربعا لا يذكر الله فيها إلا قليلا.“
العلاء بن عبدالرحمٰن (بن یعقوب) سے روایت ہے کہ ہم ظہر (کی نماز) کے بعد سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تو وہ کھڑے ہو کر عصر کی نماز پڑھنے لگے۔ پھر جب وہ اپنی نماز سے فارغ ہوئے تو ہم نے یا انہوں نے خود ہی نماز کی جلدی کا ذکر کیا پھر انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ وہ منافقوں کی نماز ہے، وہ منافقوں کی نماز ہے، وہ منافقوں کی نماز ہے، ان میں سے ہر آدمی بیٹھا رہتا ہے حتی کہ جب سورج پیلا زرد ہو جاتا ہے اور شیطان کے دو سینگوں کے پاس پہنچ جاتا ہے تو یہ کھڑا ہو کر چار ٹھونگے لگاتا ہے جن میں اللہ کو بہت تھوڑا یاد کرتا ہے۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 78]
تخریج الحدیث: «132- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 220/1 ح 515، ك 15 ب 10 ح 46) التمهيد 184/20، 185، الاستذكار: 28، و أخرجه أبوداود (413) من حديث مالك به ورواه مسلم (622) من حديث العلاء بن عبدالرحمٰن به .»

2. اوقات نماز
حدیث نمبر: 79
45- مالك عن ابن شهاب أن عمر بن عبد العزيز أخر الصلاة يوما، فدخل عليه عروة بن الزبير فأخبره أن المغيرة بن شعبة أخر الصلاة يوما وهو بالكوفة. فدخل عليه أبو مسعود الأنصاري فقال: ما هذا يا مغيرة؟ أليس قد علمت أن جبرائيل نزل فصلى فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم صلى فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم صلى فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم صلى فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم صلى فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم. ثم قال: بهذا أمرت. فقال عمر لعروة اعلم ما تحدث به يا عروة أو أن جبرائيل هو الذى أقام لرسول الله صلى الله عليه وسلم وقت الصلاة. قال عروة: كذلك كان بشير بن أبى مسعود يحدث عن أبيه. قال عروة: ولقد حدثتني عائشة زوج النبى صلى الله عليه وسلم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يصلي العصر والشمس فى حجرتها قبل أن تظهر.
ابن شہاب (زہری) سے روایت ہے کہ ایک دن (خلیفہ) عمر بن عبدالعزیز  رحمہ اللہ نے نماز (پڑھنے) میں تاخیر کی تو ان کے پاس تابعی عروہ بن الزبیر رحمہ اللہ تشریف لائے پھر انہیں بتایا کہ ایک دن سیدنا  مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کوفہ میں نماز (پڑھنے) میں تاخیر کی تو سیدنا ابومسعود (عقبہ بن عمرو الانصاری رضی اللہ عنہ) ان کے پاس تشریف لائے، پھر فرمایا: اے مغیرہ! یہ کیا ہے؟ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ  جبریل علیہ السلام نے نازل ہو کر نماز پڑھائی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی، پھر نماز پڑھائی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی، پھر نماز پڑھائی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی، پھر نماز پڑھائی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی، پھر نماز پڑھائی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی، پھر انہوں (جبریل علیہ السلام) نے فرمایا: اس کا آپ کو (یا مجھے) حکم دیا گیا ہے۔  (یہ سن کر) عمر (بن عبدالعزیز رحمہ اللہ) نے عروہ رحمہ اللہ سے کہا: اے عروہ! جان لو کہ تم کیا حدیث بیان کر رہے ہو؟ کیا جبریل علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کے اوقات قائم کر کے بتائے تھے؟ عروہ نے کہا: اسی طرح بشیر بن ابی مسعود اپنے ابا (ابومسعود رضی اللہ عنہ) سے حدیث بیان کرتے تھے۔ عروہ رحمہ اللہ نے کہا: کہ مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی (اور میری خالہ) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز پڑھتے تھے اور دیواروں پر دھوپ چڑھنے سے پہلے ان کے حجرے میں ہوتی تھی۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 79]
تخریج الحدیث: «45- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 3/1، 4 ح 1، ك 1 ب 1 ح 1) التمهيد 10/8، الاستذكار: 1، و أخرجه البخاري (521، 522) ومسلم (610/167) من حديث مالك به.»

3. نماز فجر کا وقت
حدیث نمبر: 80
494- مالك عن يحيى بن سعيد عن عمرة بنت عبد الرحمن عن عائشة زوج النبى صلى الله عليه وسلم أنها قالت: إن كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ليصلي الصبح، فينصرف النساء متلفعات بمروطهن ما يعرفن من الغلس.
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز (اس قدر اندھیرے میں) پڑھتے کہ پھر عورتیں چادروں میں لپٹی ہوئی واپس ہوتیں تو اندھیرے کی وجہ سے وہ پہچانی نہیں جاتی تھیں۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 80]
تخریج الحدیث: «494- متفق عليه،الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 5/1 ح 3، ك 1 ب 1 ح 4) التمهيد 385/23، الاستذكار: 4، و أخرجه البخاري (867) ومسلم (645) من حديث مالك به.»

حدیث نمبر: 81
498- وعن عمرة ابنة عبد الرحمن بن سعد بن زرارة الأنصاري أنها أخبرته عن حبيبة بنت سهل الأنصارية أنها كانت تحت ثابت بن قيس بن شماس، وأن رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج إلى الصبح فوجد حبيبة بنت سهل عند بابه فى الغلس، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”من هذه؟“ فقالت: أنا حبيبة بنت سهل، فقال: ”ما شأنك؟“ فقالت: لا أنا ولا ثابت ابن قيس لزوجها. فلما جاء ثابت بن قيس قال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”هذه حبيبة بنت سهل، قد ذكرت ما شاء الله أن تذكر“ ؛ فقالت حبيبة: يا رسول الله، كل ما أعطاني فهو عندي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لثابت ”خذ منها“ فأخذ منها، وجلست فى أهلها.
سیدہ حبیبہ بنت سہل الانصاریہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ سیدنا ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ کے نکا ح میں تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح (کی نماز) کے لئے نکلے تو اندھیرے میں اپنے دروازے کے پاس حبیبہ بنت سہل رضی اللہ عنہا کو پایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کون ہے؟ اس نے کہا: میں حبیبہ بنت سہل ہوں تو آپ نے پوچھا: کیا بات ہے؟ انہوں نے کہا: میں اور ثابت بن قیس (اکٹھے) نہیں رہ سکتے۔ ثابت بن قیس ان کے خاوند تھے۔ پھر جب ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ آئے تو ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حبیبہ بنت سہل نے جو اللہ کو منظور تھا تذکرہ کیا ہے۔ پھر حبیبہ نے کہا: یا رسول اللہ! انہوں نے جو کچھ مجھے دیا ہے وہ سب میرے پاس موجود ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اس سے لے لو۔ تو انہوں نے اس سے لے لیا (اور اسے ایک طلاق دے دی) اور حبیبہ اپنے گھر میں (عدت گزارنے کے لئے) بیٹھ گئیں۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 81]
تخریج الحدیث: «498- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 564/2 ح 1228، ك 29 ب 11 ح 31) التمهيد 367/23 وقال: ”وهو حديث ثابت مسند متصل“، الاستذكار: 1148 و أخرجه أبوداود (2227) من حديث مالك، و النسائي (169/6 ح 3492) من حديث ابن القاسم عن مالك به وصححه ابن حبان (الموارد: 1326) .»

4. نماز عصر کا وقت
حدیث نمبر: 82
5- وبه أنه قال: ”كنا نصلي العصر ثم يذهب الذاهب إلى قباء فيأتيهم والشمس مرتفعة.“
اور اسی سند کے ساتھ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم عصر کی نماز پڑھتے، پھر جانے والا قُباء (کے علاقے میں) جاتا پھر وہ وہاں پہنچتا اور (اس اثنا میں) سورج بلند ہوتا تھا۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 82]
تخریج الحدیث: «5- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 9/1، ح 10، ك 1، ب 1، ح 11) التمهيد 177/6، الاستذكار: 9، أخرجه البخاري (551) ومسلم (621) من حديث مالك به.»

حدیث نمبر: 83
122- وبه: عن أنس أنه قال: كنا نصلي العصر ثم يخرج الإنسان إلى بني عمرو بن عوف فيجدهم يصلون العصر.
اور اسی سند کے ساتھ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم عصر کی نماز پڑھتے پھر آدمی بنو عمرو بن عوف کی طرف جاتا تو انہیں عصر کی نماز پڑھتے ہوئے پاتا تھا ۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 83]
تخریج الحدیث: «122- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 8/1 ح 9، ك 1 ب 1 ح 10) التمهيد 295/1، الاستذكار: 8، و أخرجه البخاري (548) ومسلم (621/194) من حديث مالك به.»

5. گرمی کے ایام میں ظہر و عصر کو ٹھنڈا کر کے پڑھنا
حدیث نمبر: 84
323- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”إذا اشتد الحر فأبردوا عن الصلاة، فإن شدة الحر من فيح جهنم.“
اور اسی سند کے ساتھ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب گرمی شدید ہو جائے تو (ظہر کی) نماز ٹھنڈی کر کے پڑھو کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کے سانس (باہر نکالنے) میں سے ہے۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 84]
تخریج الحدیث: «323- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 16/1 ح 28، ك 1 ب 7 ح 29) التمهيد 294/18، و أخرجه ابن ماجه (677) من حديث مالك به، ورواه البخاري (533) من طريق صالح بن كيسان عن الاعرج عن ابي هريره رضي الله عنه .»

حدیث نمبر: 85
376- مالك عن عبد الله بن يزيد مولى الأسود بن سفيان عن أبى سلمة بن عبد الرحمن وعن محمد بن عبد الرحمن بن ثوبان عن أبى هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”إذا كان الحر فأبردوا عن الصلاة فإن شدة الحر من فيح جهنم“ وذكر ”أن النار اشتكت إلى ربها فأذن لها فى كل عام بنفسين، نفس فى الشتاء ونفس فى الصيف“.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب گرمی (زیادہ) ہو تو نماز ٹھنڈی کر کے پڑھو کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کے سانس لینے میں سے ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا کہ (جہنم کی) آگ نے اپنے رب سے شکایت کی تو اسے ہر سال میں دو سانسوں کی اجازت دی، ایک سردیوں میں اور دوسرا گرمیوں میں۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 85]
تخریج الحدیث: «376- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 16/1، ح 27، ك 1 ب 7 ح 28) التمهيد 112/19، الاستذكار: دیکھئے 97/1 ح 25، و أخرجه مسلم (617/186) من حديث مالك به .»