124- مالك عن إسحاق بن عبد الله بن أبى طلحة -عن رافع بن إسحاق مولى لآل الشفاء- وكان يقال له مولى أبى طلحة أنه سمع أبا أيوب صاحب النبى صلى الله عليه وسلم يقول، وهو بمصر: والله ما أدري كيف أصنع بهذه الكرابيس. وقد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”إذا ذهب أحدكم لغائط أو لبول فلا يستقبل القبلة ولا يستدبرها بفرجه“.
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ابوایوب (الانصاری رضی اللہ عنہ) جب مصر میں تھے تو انہوں نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں نہیں جانتا کہ میں ان (قبلہ رخ) لیڑینوں کے ساتھ کیا کروں؟ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”جب تم میں سے کوئی آدمی پاخانہ یا پیشاب کرنے کے لئے جائے تو نہ قبلے کی طرف رخ کرے اور نہ اپنی شرمگاہ کے ساتھ قبلے کی طرف پیٹھ کرے۔“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 39]
تخریج الحدیث: «124- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 193/1 ح 455، ك 14 ب 1 ح 1) التمهيد 303/1، وقال ”حديث متصل صحيح“، الاستذكار: 424 و أخرجه النسائي (21/1، ح 20) من حديث ابن القاسم عن الإمام مالك به وللحديث طرق عند البخاري (144) ومسلم (264) وغيرهما .»
حدیث نمبر: 40
264- مالك عن نافع أن رجلا من الأنصار أخبره عن أبيه أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم ينهى أن تستقبل القبلة لغائط أو بول.
ایک انصاری آدمی کے باپ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قضائے حاجت یا پیشاب کرتے وقت قبلہ رو ہو کر بیٹھنے سے منع کیا ہے۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 40]
تخریج الحدیث: «264- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 193/1 ح 456، ك 14 ب 1 ح 2) التمهيد 125/16، الاستذكار:425 أخرجه الطحاوي في شرح معاني الآثار (232/4) من حديث مالك به والسند ضعيف وللحديث شواهد صحيحة منها الحديث السابق: 124 من رواية يحيي بن يحيي.»
حدیث نمبر: 41
502- مالك عن يحيى بن سعيد عن محمد بن يحيى بن حبان عن عمه واسع ابن حبان عن ابن عمر أنه كان يقول: إن ناسا يقولون: إذا قعدت على حاجتك فلا تستقبل القبلة ولا بيت المقدس. قال عبد الله بن عمر: لقد ارتقيت على ظهر بيت لنا، فرأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم على لبنتين مستقبلا بيت المقدس لحاجته وقال: ”لعلك من الذين يصلون على أوراكهم“ فقلت: لا أدري والله، يعني الذى يسجد ولا يرتفع عن الأرض، يسجد وهو لاصق بالأرض.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے کہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر تم قضائے حاجت کے لئے بیٹھو تو نہ قبلے کی طرف رخ کرو اور نہ بیت المقدس کی طرف۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: میں اپنے گھر کی چھت پر چڑھا تھا تو دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت المقدس کی طرف رخ کئے قضائے حاجت کر رہے تھے۔ پھر انہوں نے (واسع بن حبان رحمہ اللہ سے) فرمایا: ہو سکتا ہے کہ تم ان لوگوں میں سے ہو جو سرینوں پر نماز پڑھتے ہیں؟ (واسع بن حبان رحمہ اللہ نے کہا) میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں نہیں جانتا۔ (امام مالک نے فرمایا:) یعنی وہ شخص جو سجدہ کرتا ہے تو زمین سے بلند نہیں ہوتا بلکہ زمین سے چمٹے ہوئے سجدہ کرتا ہے۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 41]
تخریج الحدیث: «502- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 193/1، 194 ح 457، ك 14 ب 2 ح 3) التمهيد 303/23 مختصراً، الاستذكار: 426 و أخرجه البخاري (145) من حديث مالك به.»
2. استنجا کرنے کے لئے طاق ڈھیلے استعمال کرنے چاہئیں
حدیث نمبر: 42
75- مالك عن ابن شهاب عن أبى إدريس الخولاني عن أبى هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”من توضأ فليستنثر، ومن استجمر فليوتر.“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص وضو کرے تو ناک چھنک کر صاف کرے اور جو ڈھیلے سے استنجا کرے تو طاق عدد یعنی تین پانچ ڈھیلے استعمال کرے۔“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 42]
تخریج الحدیث: «75- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 19/1 ح 33، ك 2 ب 1 ح 3) التمهيد 12/11، الاستذكار: 37، و أخرجه مسلم (237) من حديث مالك به ورواه البخاري (161) من حديث ابن شهاب الزهري به .»