51- وبه: أن سعد بن عبادة استفتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إن أمي ماتت وعليها نذر ولم تقضه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”اقضه عنها“.
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھا: میری والدہ فوت ہو گئی ہیں اور ان پر نذر (واجب) تھی جسے انہوں نے پورا نہیں کیا؟ تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اس کی طرف سے (نذر کو) پورا کرو۔“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 11]
تخریج الحدیث: «51- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 472/2 ح 1040، ك 22 ب 1 ح 1) التمهيد 24/9، الاستذكار: 972 و أخرجه البخاري (2761) ومسلم (1638) من حديث مالك به.»
حدیث نمبر: 12
188- مالك عن طلحة بن عبد الملك الأيلي عن القاسم بن محمد عن عائشة زوج النبى صلى الله عليه وسلم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”من نذر أن يطيع الله فليطعه، ومن نذر أن يعصي الله فلا يعصه“.
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے اللہ کی اطاعت کرنے کی نذر مانی ہو تو وہ اللہ کی اطاعت کرے اور جس نے اللہ کی نافرمانی کی نذر مانی ہو تو وہ اللہ کی نافرمانی نہ کرے۔“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 12]
تخریج الحدیث: «188- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 476/2 ح 1049، ك 22 ب 4 ح 8) التمهيد 90/6، الاستذكار:983، و أخرجه البخاري (6696) من حديث مالك به .»
9. زمانے کو برا نہیں کہنا چاہئیے
حدیث نمبر: 13
364- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”لا يقولن أحدكم: يا خيبة الدهر، فإن الله هو الدهر“.
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص یہ نہ کہے کہ ہائے زمانے کی رسوائی! کیونکہ اللہ ہی زمانہ (بدلنے والا) ہے۔“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 13]
تخریج الحدیث: «364- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 984/2 ح 1912، ك 56 ب 1 ح 3 بلفظ: لا يقل احدكم۔۔۔ إلخ) التمهيد 151/18، الاستذكار: 1848، وأخرجه البخاري في الادب المفرد (769) من حديث مالك به بلفظ: ”لا يقولن أحدكم“ إلخ، ورواه مسلم (2246) من حديثابي الزناد به .»
10. اہل بدعت کو حوض کوثر سے دور کر دیا جائے گا
حدیث نمبر: 14
133- مالك عن العلاء بن عبد الرحمن عن أبيه عن أبى هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج إلى المقبرة فقال: ”السلام عليكم دار قوم مؤمنين. وإنا إن شاء الله بكم لاحقون، وددت أني رأيت إخواننا“. فقالوا: يا رسول الله ألسنا إخوانك؟ فقال: ”بل أنتم أصحابي، وإخواننا الذين لم يأتوا بعد، وأنا فرطهم على الحوض.“ قالوا: يا رسول الله، كيف تعرف من يأتي بعدك من أمتك؟ قال: ”أرأيت لو كانت لرجل خيل غر محجلة فى خيل دهم بهم، ألا يعرف خيله؟“ قالوا: بلى. قال: فإنهم يأتون يوم القيامة غرا محجلين من الوضوء وأنا فرطهم على الحوض فليذادن رجال عن حوضي كما يذاد البعير الضال، أناديهم ألا هلم، ألا هلم، ألا هلم ثلاثا. فيقال: إنهم قد بدلوا بعدك. فأقول: فسحقا، فسحقا، فسحقا.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دفعہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبرستان کی طرف تشریف لے گئے اور فرمایا: ”السلام علیکم (تم پر سلام ہو) اے ایمان والوں کا گھر! اور ہم ان شاءاللہ تم سے ملنے والے ہیں، میں چاہتا تھا کہ میں اپنے بھائیوں کو دیکھ لیتا!“ صحابہ نے کہا: یا رسول اللہ! کیا ہم آپ کے بھائی نہیں ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلکہ تم میرے صحابہ ہو اور میرے بھائی وہ ہیں جو ابھی تک (دنیا میں) نہیں آئے اور میں حوض (کوثر) پر ان سے پہلے موجود ہوں گا۔“ صحابہ نے پوچھا: یا رسول اللہ! آپ اپنے ان امتیوں کو کس طرح پہچانیں گے جو آپ کے بعد (دنیا میں) آئیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارا کیا خیال ہے اگر کسی آدمی کے گھوڑے ہوں جن میں سے بعض سفید چہروں اور سفید پاؤں والے ہوں اور وہ کالے سیاہ گھوڑوں کے درمیان ہوں تو وہ اپنے گھوڑوں کو پہچان نہیں لے گا؟“ لوگوں نے جواب دیا: ضرور پہچان لے گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ لوگ (میرے امتی) قیامت کے دن اس حالت میں آئیں گے کہ ان کے چہرے اور ہاتھ پاؤں سفید چمک رہے ہوں گے اور میں حوض پر ان سے پہلے موجود ہوں گا، پھر کچھ لوگوں کو میرے حوض سے ہٹایا جائے گا جیسا کہ گمشدہ اونٹ کو ہٹایا جاتا ہے، پھر انہیں (تین دفعہ) آواز دوں گا: ادھر آ جاؤ، ادھر آ جاؤ، ادھر آ جاؤ پھر (مجھے) کہا: جائے گا: انہوں نے آپ کے بعد (آپ کی سنت اور دین اسلام کو) تبدیل کر دیا تھا پس میں کہوں گا: دور ہو جاؤ، دور ہو جاؤ، دور ہو جاؤ۔“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 14]
تخریج الحدیث: «133- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 28/1-30 ح 57، ك 2 ب 6 ح 28) التمهيد 238/20، 239، الاستذكار: 51 و أخرجه مسلم (249) من حديث مالك به .»
11. اتباع رسول کا بیان
حدیث نمبر: 15
505- مالك عن يحيى بن سعيد عن عبادة بن الوليد بن عبادة بن الصامت قال: أخبرني أبى عن عبادة بن الصامت قال: بايعنا رسول الله صلى الله عليه وسلم على السمع والطاعة، فى اليسر والعسر، والمكره والمنشط، ولا ننازع الأمر أهله، وأن نقول أو نقوم بالحق حيثما كنا، لا نخاف فى الله لومة لائم.
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس چیز پر بیعت کی کہ ہم سنیں گے اور اطاعت کریں گے چاہے آسانی ہو یا تنگی، چاہے خوش ہوں یا ناخوش، اور حکمرانوں سے جنگ نہیں کریں گے۔ ہم جہاں بھی ہوں گے حق کہیں گے اور حق پر ثابت قدم رہیں گے۔ ہم اللہ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی پروا نہیں کریں گے۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 15]
تخریج الحدیث: «505- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 445/2 ح 990، ك 21 ب 1 ح 5) التمهيد 271/23، الاستذكار: 929 و أخرجه البخاري (7199، 7200) من حديث مالك به.»
حدیث نمبر: 16
294- وبه: قال: كنا إذا بايعنا رسول الله صلى الله عليه وسلم على السمع والطاعة، يقول لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”فيما استطعتم.“
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ جب ہم سننے اور اطاعت کرنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کرتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں فرماتے: ”جتنی تمہاری استطاعت ہو۔“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 16]
تخریج الحدیث: «294- الموطأ (رواية يحيٰي بن يحيٰي 982/2 ح 1907، ك 55 ب 1 ح 1)، التمهيد 347/16، الاستذكار: 1843، و أخرجه البخاري (7202) من حديث مالك ومسلم (1867) من حديث عبداللہ بن دينار به .»
12. تین مساجد کے علاوہ ثواب کی نیت سے سفر کرنا
حدیث نمبر: 17
515- مالك عن يزيد بن عبد الله ابن الهاد عن محمد بن إبراهيم بن الحارث التيمي عن أبى سلمة بن عبد الرحمن عن أبى هريرة أنه قال: خرجت إلى الطور فلقيت كعب الأحبار فجلست معه فحدثني عن التوراة وحدثته عن النبى صلى الله عليه وسلم فكان فيما حدثته أني قلت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”خير يوم طلعت عليه الشمس يوم الجمعة، فيه خلق آدم وفيه أهبط، وفيه تيب عليه، وفيه مات، وفيه تقوم الساعة، وما من دابة إلا وهى مصيخة يوم الجمعة من حين تصبح حتى تطلع الشمس شفقا من الساعة إلا الجن والإنس، وفيه ساعة لا يصادفها عبد مسلم وهو يصلي يسأل الله شيئا إلا أعطاه إياه“ فقال كعب: ذلك فى كل سنة يوم، فقلت: بل فى كل جمعة، قال: فقرأ كعب التوراة، فقال: صدق رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: أبو هريرة: فلقيت بصرة بن أبى بصرة الغفاري فقال: من أين أقبلت؟ فقلت: من الطور، فقال: لو أدركتك قبل أن تخرج إليه ما خرجت إليه، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ”لا تعمل المطي إلا إلى ثلاثة مساجد، إلى المسجد الحرام وإلى مسجدي هذا وإلى مسجد إيلياء أو بيت المقدس“ ؛ يشك أيهما. قال قال أبو هريرة: ثم لقيت عبد الله بن سلام فحدثته بمجلسي مع كعب وما حدثته فى يوم الجمعة، فقلت له: قال كعب: ذلك فى كل سنة يوم، فقال عبد الله بن سلام: كذب كعب، قال: فقلت: ثم قرأ كعب التوراة فقال: بل هي فى كل جمعة، فقال عبد الله: صدق كعب، ثم قال عبد الله بن سلام: قد علمت أية ساعة هي، قال أبو هريرة: فأخبرني بها ولا تضن على، فقال عبد الله بن سلام: هي آخر ساعة من يوم الجمعة، فقال أبو هريرة كيف تكون آخر ساعة من يوم الجمعة، وقد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”لا يصادفها عبد مسلم وهو يصلي وتلك ساعة لا يصلي فيها“ ؟ فقال عبد الله بن سلام: ألم يقل رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”من جلس مجلسا ينتظر الصلاة فهو فى صلاة حتى يصلي؟“ قال: فقلت: بلى، فقال: هو ذلك.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں طور (پہاڑ) کی طرف گیا تو (واپسی پر) میری ملاقات کعب الاحبار سے ہوئی تو میں اس کے پاس بیٹھ گیا۔ اس نے مجھے تورات سے باتیں بتائیں اور میں نے اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں سنائیں۔ میں نے اسے یہ بھی بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بہترین دن جس میں سورج طلوع ہوتا ہے جمعہ کا دن ہے۔ اسی میں آدم علیہ السلام پیدا کئے گئے اور اسی میں (جنت سے) اتارے گئے اور اسی میں ان کی توبہ قبول کی گئی اور اسی دن فوت ہوئے اور اسی دن قیامت بپا ہو گی۔ ہر جانور جمعہ کے دن صبح کے وقت سورج کے طلوع ہونے تک قیامت سے ڈرتے ہوئے کان لگا کر سننے کی کوشش کرتا ہے سوائے جنوں اور انسانوں کے اور اس دن میں ایک ایسا وقت ہے جب مسلمان بندہ نماز پڑھ رہا ہوتا ہے تو اللہ سے جو کچھ مانگتا ہے وہ اسے عطا کر دیتا ہے۔“ کعب نے کہا: یہ ہر سال میں ایک دن ہوتا ہے، تو میں نے کہا: (نہیں) بلکہ ہر جمعہ کہ یہ ہوتا ہے۔ پھر کعب نے تورات پڑھی تو کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: پھر میری ملاقات سیدنا بصرہ بن ابی بصرہ الغفاری رضی اللہ عنہ سے ہوئی تو انہوں نے کہا: آپ کہاں سے آئے ہیں؟ میں نے کہا: طور سے۔ تو انہوں نے کہا کہ اگر میری ملاقات آپ کے جانے سے پہلے ہوتی تو آپ وہاں نہ جاتے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تین مسجدوں کے علاوہ (نماز یا ثواب کے لئے) سفر نہیں کیا جاتا: مسجد حرام، یہ میری مسجد (مسجد نبوی) اور مسجد ایلیا یا بیت المقدس کی طرف۔ راوی کو مسجد ایلیا یا بیت المقدس کے لفظ میں شک ہے (اور دونوں سے مراد ایک ہی مسجد ہے یعنی مسجد اقصیٰ) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ پھر میری ملاقات سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے ہوئی تو میں نے انہیں کعب کے ساتھ اپنی مجلس کے بارے میں بتایا اور جمعے کے بارے میں جو حدیث بیان کی تھی وہ بتائی اور کہا کہ کعب نے کہا: یہ وقت ہر سال میں ایک دن ہوتا ہے تو انہوں نے کہا: کعب نے غلط کہا ہے۔ میں نے کہا: پھر کعب نے تورات پڑھی تو کہا کہ بلکہ یہ (وقت) ہر جمعے کو ہوتا ہے تو عبداللہ (بن سلام رضی اللہ عنہ) نے کہا: کعب نے سچ کہا: ہے۔ پھر سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھے علم ہے کہ یہ گھڑی کس وقت ہوتی ہے؟ میں نے کہا: آپ مجھے بتا دیں اور بتانے میں بخل نہ کریں تو سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ جمعے کے آخری وقت ہوتی ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ آخری وقت کس طرح ہوتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب مسلمان بندہ نماز پڑھ رہا ہوتا ہے، اور اس وقت تو نماز نہیں پڑھی جاتی؟“ تو سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا کہ جو شخص نماز کے انتظار میں بیٹھا ہو تو وہ نماز پڑھنے تک نماز میں ہی (شمار) ہوتا ہے؟ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:) میں نے کہا: ہاں! فرمایا تھا، تو انہوں نے کہا: تو یہی (مطلب) ہے۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 17]
تخریج الحدیث: «515- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 108/1-110 ح 239، ك 5 ب 7 ح 16) التمهيد 36/23، 37، الاستذكار: 210 و أخرجه أبوداود (1046) و الترمذي (491) من حديث مالك به وقال الترمذي: ”حسن صحيح“ وصححه ابن خزيمة (1738) وابن حبان (الموارد: 1024) والحاكم (278/1، 279) عليٰ شرط الشيخين ووافقه الذهبي.»
13. خارجیوں کا بیان
حدیث نمبر: 18
491- وعن محمد بن إبراهيم بن الحارث التيمي عن أبى سلمة بن عبد الرحمن عن أبى سعيد الخدري أنه قال: ”سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: يخرج فيكم قوم تحقرون صلاتكم مع صلاتهم، وصيامكم مع صيامهم، وعملكم مع عملهم، يقرؤون القرآن لا يجاوز حناجرهم، يمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية، تنظر فى النصل فلا ترى شيئا، ثم تنظر فى القدح فلا ترى شيئا ثم تنظر فى الريش فلا ترى شيئا، وتتمارى فى الفوق“.
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”تم میں ایسی قوم نکلے گی کہ تم اپنی نمازوں کو ان کی نمازوں کی نسبت، اپنے روزوں کو ان کے روزوں کے مقابلے میں اور اپنے عمل کو ان کے عمل کے مقابلے میں حقیر سمجھو گے، وہ قرآن پڑھیں گے (لیکن) وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، وہ دین سے اس طرح نکل جائیں جیسے تیر اپنے شکار سے پار نکل جاتا ہے۔ تم تیر کی اَنّی (پھل) دیکھو تو اس میں کچھ (خون وغیرہ) نہ پاؤ، اگر تیر کی لکڑی دیکھو تو اس میں بھی کچھ نہ پاؤ، اگر اس کا پر دیکھو تو اس میں کچھ نشان نہ پاؤ اور تیر کے سوفار (جہاں کمان کی تان ٹکتی ہے) کے بارے میں شک کرو (کہ اس میں کوئی اثر ہے یا نہیں)۔“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 18]
تخریج الحدیث: «491- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 204/1، 205 ح 479، ك 15 ب 4 ح 10) التمهيد 320/23، وقال: ”هذا حديث صحيح الإسناد ثابت“، الاستذكار: 448 و أخرجه البخاري (5058) من حديث مالك به .»
14. جنات کا وجود برحق ہے
حدیث نمبر: 19
275- مالك عن صيفي مولى ابن أفلح عن أبى السائب مولى هشام بن زهرة عن أبى سعيد الخدري أن رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج إلى الخندق، فبينما هو به إذ جاءه فتى من الأنصار حديث عهد بعرس، فقال: يا رسول الله، ائذن لي أحدث بأهلي عهدا، فأذن له رسول الله صلى الله عليه وسلم، فأقبل الفتى فإذا هو بامرأته بين البابين فأهوى إليها بالرمح ليطعنها، فقالت: لا تعجل حتى تدخل وتنظر، قال: فدخل فإذا هو بحية منطوية على فراشه، فلما رآها ركز فيها رحمه ثم نصبه، قال أبو سعيد: فاضطربت الحية فى رأس الرمح حتى ماتت وخر الفتى ميتا، فبلغ ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: ”إن بالمدينة جنا قد أسلموا، فإذا رأيتم منهم شيئا فآذنوه ثلاثة أيام، فإن بدا لكم بعد ذلك فاقتلوه، فإنما هو شيطان“. قال مالك: يحرج عليه ثلاث مرات، تقول: أحرج عليك بالله واليوم الآخر أن لا تتبدا لنا ولا تخرج.
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (غزوہ) خندق کی طرف گئے تو ایک انصاری نوجوان کو دیکھا جس کی نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ اس نے کہا: یا رسول اللہ! مجھے اجازت دیں ایک بار پھر گھر سے ہو آؤں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اجازت دے دی پھر وہ نوجوان اپنے گھر کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ اس کی بیوی دونوں دروازوں کے پاس کھڑی ہے۔ وہ نیزہ لے کر اپنی بیوی کو مارنے کے لئے بڑھا تو اس نے کہا: جلدی نہ کرو، اندر داخل ہو کر دیکھو کیا ہے؟ پھر وہ گھر میں داخل ہوا تو دیکھا کہ ایک سانپ کنڈلی مارے اس کے بستر پر موجود ہے۔ جب اس نے سانپ کو دیکھا تو اسے نیزہ چبھوہ کر اٹھا لیا۔ ابوسعید (خدری رضی اللہ عنہ) نے فرمایا: سانپ نیزے پر تڑپ تڑپ کر مر گیا اور نوجوان بھی گر پڑا (اور فوت ہو گیا)۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات معلوم ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مدینے میں ایسے جن ہیں جو مسلمان ہو گئے ہیں۔ اگر تم ان میں سے کسی کو دیکھو تو انہیں تین دن تک تنبیہ کرو (کہ ہمارے گھر سے چلے جاؤ) پھر اگر وہ اس کے بعد نظر آئے تو اسے قتل کر دو کیونکہ یہ شیطان (کافر جن) ہے۔“ امام مالک رحمہ اللہ نے کہا: اس کے سامنے آ کر تین دفعہ کہے: تجھے اللہ اور قیامت کے دن کی قسم: نکل جا، نہ ہمارے سامنے ظاہر ہونا اور نہ یہاں دوبارہ آنا۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 19]
تخریج الحدیث: «275- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 976/2، 977 ح 1894، ك 54 ب 12 ح 33 مطولاً) التمهيد 257/16 -259، الاستذكار: 1830 و أخرجه مسلم (2236) من حديث مالك به.»
15. حدیث بھی کتاب اللہ ہے
حدیث نمبر: 20
54- وبه: عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة بن مسعود عن أبى هريرة وزيد بن خا لد الجهني أنهما أخبراه: أن رجلين اختصما إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال أحدهما: يا رسول الله، اقض بيننا بكتاب الله. وقال الآخر وهو أفقههما: أجل يا رسول الله، فاقض بيننا بكتاب والله وأذن لي فى أن أتكلم. فقال: ”تكلم“ فقال: إن ابني كان عسيفا على هذا فزنا بامرأته فأخبرني أن على ابني الرجم، فافتديت منه بمئة شاة وبجارية لي، ثم إني سألت أهل العلم فأخبروني أنما على ابني جلد مئة وتغريب عام وإنما الرجم على امرأته. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”أما والذي نفسي بيده لأقضين بينكما بكتاب الله. أما غنمك وجاريتك فرد إليك“. وجلد ابنه مئة وغربه عاما وأمر أنيسا الأسلمي أن يأتي امرأة الآخر، فإنه اعترفت رجمها، فاعترفت فرجمها. قال مالك: والعسيف الأجير.
اور اسی سند کے ساتھ عبید اﷲ بن عبداﷲ بن عتبہ بن مسعود رحمہ اللہ سے روایت ہے، انہیں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا زید بن خالد الجہنی رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ دو آدمیوں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں اپنا جھگڑا پیش کیا تو ایک نے کہا: یا رسول اﷲ! آپ ہمارے درمیان کتاب اﷲ کے مطابق فیصلہ کریں۔ دوسرا جو ان دونوں میں زیادہ سمجھدار تھا، بولا: جی ہاں، یا رسول اﷲ! آپ ہمارے درمیان کتاب اﷲ کے مطابق فیصلہ کریں اور مجھے بات کرنے کی اجازت دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بات کرو“، تو اس نے کہا: میرا بیٹا اس کا «عسيف» مزدور تھا تو اس نے اس آدمی کی بیوی کے ساتھ زنا کر لیا پھر اس نے بتایا کہ میرے بیٹے کو سنگسار کیا جائے گا۔ میں نے اس فدیے میں سو بکریا ں اور ایک لونڈی دی، پھر اس کے بعد میں نے اہل علم سے پوچھا: تو نہوں نے مجھے بتایا کہ میرے بیٹے کو سو کوڑے لگیں گے اور ایک سال کے لیے جلا وطن کیا جائے گا اور سنگسار تو صرف اس کی بیوی کو کیا جائے گا۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس اﷲ کی قسم جس کی ہاتھ میں میری جان ہے، میں تم دونوں کے درمیان کتاب اﷲ کے مطابق فیصلہ کروں گا، تیری بکریاں اور تیری لونڈی تو تجھے واپس ملے گی۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بیٹے کو سو کوڑے لگوائے اور ایک سال کے لیے جلا وطن کر دیا اور سیدنا انیس الاسلمی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ دوسرے شخص کی بیوی کے پاس جائیں پھر اگر وہ زنا کا اعتراف کر لے تو اسے رجم (سنگسار) کر دیں۔ اس عورت نے اعتراف کر لیا تو پھر اسے رجم (سنگسار) کر دیا گیا۔ (اما م) مالک نے کہا: «عسيف» مزدور کو کہتے ہیں۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 20]
تخریج الحدیث: «54- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 822/2 ح 1597، ك 41 ب 1 ح 6) التمهيد 71/9، 72، الاستذكار: 1526 و أخرجه البخاري (6233-6234) من حديث مالك به ورواه مسلم (1697/25، 1698) من حديث الزهري به .»