137- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”قال الله: من عمل عملا أشرك فيه غيري فهو له كله، وأنا أغنى الشركاء عن الشرك“.
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جس نے ایسا عمل کیا جس میں میرے ساتھ غیر کو شریک کیا تو یہ سارا عمل اسی کے لئے ہے اور میں شریکوں کے شرک سے بےنیاز ہوں۔“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 1]
تخریج الحدیث: «137- و أخرجه الجوهري (623) وابن حبان في كتاب الصلاة (اتحاف المهرة 271/15 ح 19292) من حديث ابن وهب عن مالك عن العلاء عن أبيه عن أبي هريرة به ورواه مسلم (2985 ف، 7475 د) من حديث العلاء عن ابيه عن أبي هريرة به .»
2. مشرک کے لئے معافی نہیں ہے
حدیث نمبر: 2
443- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ((تفتح أبواب ا لجنة يوم الاثنين ويوم الخميس، فيغفر لكل عبد لا يشرك بالله شيئا إلا رجلا كانت بينه وبين أخيه شحناء، فيقال: أنظروا هذين حتى يصطلحا)).
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنت کے دروازے پیر اور جمعرات کو کھولے جاتے ہیں پھر ہر اس (مسلمان) بندے کی مغفرت کر دی جاتی ہے جو اللہ کے ساتھ کسی چیز میں شرک نہیں کرتا تھا سوائے اس آدمی کے جو اپنے اور اپنے بھائی کے درمیان دشمنی رکھتا ہے۔ پھر کہا جاتا ہے: ان دونوں کو پیچھے ہٹاؤ (مہلت دو) حتیٰ کہ یہ صلح کر لیں۔“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 2]
تخریج الحدیث: «443- الموطأ (رواية يحيٰي بن يحيٰي 908/2 ح 1751، ك 47 ب 4 ح 17) التمهيد 262/21، الاستذكار: 1683 و أخرجه مسلم (2565) من حديث مالك به»
3. بارش کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے
حدیث نمبر: 3
274- وعن صالح بن كيسان عن عبيد الله بن عبد الله عن زيد بن خالد الجهني أنه قال: صلى لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة الصبح بالحديبية فى إثر سماء كانت من الليل، فلما انصرف أقبل على الناس فقال: ”هل تدرون ماذا قال ربكم؟“ قالوا: الله ورسوله أعلم، قال: ”أصبح من عبادي مؤمن بي وكافر، فأما من قال: مطرنا بفضل الله ورحمته، فذلك مؤمن بي كافر بالكوكب، وأما من قال: مطرنا بنوء كذا وكذا، فذلك كافر بي مؤمن بالكوكب“.
سیدنا زید بن خالد الجہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حدیبیہ کے مقام پر رات کی بارش کے بعد صبح کی نماز پڑھائی، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز سے سلام پھیرا تو لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: ”کیا تمہیں پتا ہے کہ تمہارے رب نے کیا کہا ہے؟“ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کا رسول سب سے زیادہ جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(اللہ فرماتا ہے:) میرے بندوں میں سے کچھ بندوں نے صبح اس حال میں کی ہے کہ ان میں سے کچھ مومن ہیں اور کچھ کافر۔ جو شخص کہتا ہے کہ اللہ کے فضل اور رحمت کی وجہ سے بارش ہوئی ہے تو یہ شخص مجھ پر ایمان لانے والا (مومن) ہے اور ستاروں کا انکار کرنے والا ہے۔ اور جو کہتا ہے کہ فلاں ستارے کی وجہ سے بارش ہوئی ہے تو یہ شخص میرا انکار کرنے والا اور ستاروں پر ایمان لانے والا ہے۔“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 3]
تخریج الحدیث: «274- متفق عليه، الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 192/1 ح 452، ك 13 ب 3 ح 4) التمهيد 283/16، الاستذكار: 421 و أخرجه البخاري (846) مسلم (71) من حديث مالك به . من رواية يحيي بن يحيي .»
4. تقدیر کا بیان
حدیث نمبر: 4
361- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”تحاج آدم وموسى فحج آدم موسى، فقال له موسى: أنت آدم الذى أغويت الناس وأخرجتهم من الجنة؟ فقال له آدم: أنت موسى الذى أعطاك الله علم كل شيء واصطفاك على الناس برسالاته؟ قال: نعم، قال: أفتلومني على أمر قد قدر على قبل أن أخلق“.
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سیدنا آدم علیہ السلام اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے درمیان مباحثہ ہوا تو موسیٰ علیہ السلام نے انہیں کہا: آپ وہ آدم ہیں جنہوں نے لوگوں کو جنت سے نکال دیا اور پھسلا دیا؟ تو آدم علیہ السلام نے انہیں جواب دیا: آپ وہ موسیٰ ہیں جنہیں اللہ نے ہر چیز کا علم دیا اور اپنی رسالت کے ساتھ لوگوں میں سے چنا؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، آدم علیہ السلام نے کہا: آپ مجھے اس بات پر ملامت کرتے ہیں جو اللہ نے میری پیدائش سے پہلے میری تقدیر میں لکھ دی تھی۔“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 4]
تخریج الحدیث: «361- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 898/2 ح 1725، ك 46 ب 1 ح 1) التمهيد 11/18، الاستذكار: 1657 وأخرجه مسلم (2652) من حديث مالك به، و البخاري (6614) من حديث ابي الزناد به وفي رواية يحيي بن يحيي: ”بِرِسَالَتِهِ“.»
حدیث نمبر: 5
187- مالك عن زياد بن سعد عن عمر بن مسلم عن طاووس أنه قال: أدركت ناسا من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم يقولون: كل شيء بقدر. قال: وسمعت عبد الله بن عمر يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: كل شيء بقدر حتى العجز والكيس.
طاؤس (تابعی) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے ایک جماعت کو یہ کہتے ہوئے پایا ہے کہ ہر چیز تقدیر سے ہے۔ طاؤس نے کہا: میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر شے تقدیر سے ہے حتیٰ کہ عاجزی اور عقل مندی بھی تقدیر سے ہے۔“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 5]
تخریج الحدیث: «187- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 899/2 ح 1728، ك 46 ب 1 ح 4) التمهيد 62/2، الاستذكار:1660 و أخرجه مسلم (2655) من حديث مالك به من رواية يحيي بن يحيي وجاء في الأصل: عمر بن مسلم.»
حدیث نمبر: 6
362- وبه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”لا تسأل المرأة طلاق أختها لتستفرغ صحفتها ولتنكح، فإنما لها ما قدر لها.“
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی عورت اپنی بہن کی طلاق کا مطالبہ نہ کرے تاکہ اس کا پیالہ (اپنے لئے) خالی کرائے اور خود نکا ح کر لے، پس اسے وہی ملے گا جو اس کے لئے مقدر ہے۔“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 6]
تخریج الحدیث: «362- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 900/2 ح 1731، ك 46 ب 2 ح 7) التمهيد 165/18، الاستذكار: 1663 وأخرجه البخاري (6601)، من حديث مالك به.»
5. صفات الہٰی کا بیان
حدیث نمبر: 7
348- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”يضحك الله إلى رجلين يقتل أحدهما الآخر كلاهما يدخل الجنة، يقاتل هذا فى سبيل الله فيقتل، ثم يتوب الله على القاتل فيقاتل فيستشهد“.
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ دو آدمیوں پر ہنستا ہے (جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے) جن میں سے ایک دوسرے کو قتل کرتا ہے (اور) دونوں جنت میں داخل ہو جاتے ہیں۔ یہ شخص فی سبیل اللہ قتال کرتا ہے تو قتل ہو جاتا ہے پھر اللہ تعالیٰ قاتل کو توبہ (اسلام قبول کرنے) کی توفیق دیتا ہے پھر وہ قتال کرتا ہے تو شہید ہو جاتا ہے۔“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 7]
تخریج الحدیث: «348- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 460/2 ح 1015، ك 21 ب 14 ح 28) التمهيد 344/18، الاستذكار: 952 وأخرجه البخاري (2826) من حديث مالك، ومسلم (1890) من حديث ابي الزناد به ورواه النسائي (38/6، 39 ح 3168) من حديث عبدالرحمٰن بن القاسم به.»
6. اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے
حدیث نمبر: 8
26- مالك عن ابن شهاب عن أبى عبد الله الأغر وعن أبى سلمة بن عبد الرحمن عن أبى هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”ينزل ربنا تبارك وتعالى كل ليلة إلى السماء الدنيا حين يبقى ثلث الليل الآخر، فيقول: من يدعوني فأستجيب له، ومن يسألني فأعطيه، ومن يستغفرني فأغفر له“.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہمارا رب تبارک و تعالیٰ ہر رات کے آخری پہر میں آسمان دینا پر نازل ہوتا ہے اور فرماتا ہے: کون ہے جو مجھ سے دعا مانگے تاکہ میں اس کی دعا قبول کروں؟ کون ہے جو مجھ سے دعا مانگے تاکہ میں اسے دے دوں؟ کون ہے جو مجھ سے گناہ معاف کروائے تاکہ میں اس کے گناہ معاف کر دوں؟“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 8]
تخریج الحدیث: «26- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 214/1 ح 499، ك 15، ب 8 ح 30) التمهيد 128/7، الاستذكار: 468، و أخرجه البخاري (1145)، ومسلم (758) من حديث مالك به من رواية يحيي وجاء في الأصل: يَدْعُنِيْ.»
حدیث نمبر: 9
485- مالك عن هلال بن أسامة عن عطاء بن يسار عن عمر بن الحكم أنه قال: أتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت: يا رسول الله إن جارية لي كانت ترعى غنما لي فجئتها وقد فقدت شاة من الغنم، فسألتها عنها فقالت: أكلها الذئب فأسفت عليها، وكنت من بني آدم فلطمت وجهها، وعلي رقبة أفأعتقها؟ فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”أين الله؟“ فقالت: فى السماء، قال لها: ”من أنا؟“ قالت: أنت رسول الله، قال: ”أعتقها“.
سیدنا عمر بن الحکم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا: یا رسول اللہ! میری ایک لونڈی میری بکریاں چراتی تھی۔ جب میں اس کے پاس آیا تو ایک بکری گم تھی۔ میں نے اس کے بارے میں اس سے پوچھا: تو وہ بولی: اسے بھیڑیا کھا گیا ہے۔ مجھے اس پر غصہ آیا اور میں آدم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہوں۔ پس میں نے اس کے چہرے پر تھپڑ مارے۔ مجھ پر ایک غلام آزاد کرنا ضروری ہے، کیا میں اسے آزاد کر دوں؟ پھر (جب وہ اپنی لونڈی لائے تو) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لونڈی سے پوچھا: ”اللہ کہاں ہے؟“ اس نے کہا: آسمان پر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”میں کون ہوں؟“ اس نے کہا: ”آپ اللہ کے رسول ہیں۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے آزاد کر دو۔“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 9]
تخریج الحدیث: «485- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 776/2، 777 ح 1550، ك 38 ب 6 ح 8) التمهيد 75/22، الاستذكار: 1479 و أخرجه النسائي فى الكبريٰ (418/4 ح 7756) من حديث مالك به ورواه مسلم (537) من حديث هلال به وقال: ”معاوية بن الحكم“ وهو الصواب.»
7. نزول وحی کی کیفیت
حدیث نمبر: 10
458- وبه: عن عائشة أم المؤمنين أن الحارث بن هشام سأل رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله، كيف يأتيك الوحي؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أحيانا يأتيني مثل صلصلة الجرس وهو أشده علي، فيفصم عني وقد وعيت ما قال، وأحيانا يتمثل لي الملك رجلا فيكلمني فأعي ما يقول. قالت عائشة: ولقد رأيته ينزل عليه فى اليوم الشديد البرد فيفصم عنه وإن جبينه ليتفصد عرقا.
اور اسی سند کے ساتھ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ سیدنا حارث بن ہشام رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: یا رسول اللہ! آپ پر وحی کیسے آتی ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بعض اوقات گھنٹی کی آواز کی طرح آتی ہے اور یہ مجھ پر سخت ہوتی ہے، پھر یہ ختم ہوتی ہے تو میں اسے یاد کر چکا ہوتا ہوں اور بعض اوقات فرشتہ ایک آدمی کی شکل میں آ کر مجھ سے کلام کرتا ہے تو میں وہ یاد کر لیتا ہوں جو وہ بیان کرتا ہے۔“ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: میں نے سخت ٹھنڈے دن میں آپ پر وحی کا نزول دیکھا ہے پھر جب یہ وحی ختم ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی پر پسینہ پھوٹ رہا ہوتا تھا۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 10]
تخریج الحدیث: «458- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 202/1 , 203 ح 476، ك 15 ب 4 ح 7) التمهيد 112/22، 113 الاستذكار: 445 و أخرجه البخاري (2) من حديث مالك به.»