انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ مسجد قباء میں ایک انصاری شخص ان کی امامت کرتا تھا، اور اس کی عادت یہ تھی کہ جب بھی وہ ارادہ کرتا کہ کوئی سورت نماز میں پڑھے تو اسے پڑھتا لیکن اس سورت سے پہلے «قل هو الله أحد» پوری پڑھتا، پھر اس کے ساتھ دوسری سورت پڑھتا، اور وہ یہ عمل ہر رکعت میں کرتا تھا۔ تو اس کے ساتھیوں (نمازیوں) نے اس سے (اس موضوع پر) بات کی، انہوں نے کہا: آپ یہ سورت پڑھتے ہیں پھر آپ خیال کرتے ہیں کہ یہ تو آپ کے لیے کافی نہیں ہے یہاں تک کہ دوسری سورت (بھی) پڑھتے ہیں، تو آپ یا تو صرف اسے پڑھیں، یا اسے چھوڑ دیں اور کوئی دوسری سورت پڑھیں، تو انہوں نے کہا: میں اسے چھوڑنے والا نہیں، اگر آپ لوگ پسند کریں کہ میں اسے پڑھنے کے ساتھ ساتھ امامت کروں تو امامت کروں گا اور اگر آپ لوگ اس کے ساتھ امامت کرنا پسند نہیں کرتے تو میں آپ لوگوں (کی امامت) کو چھوڑ دوں گا۔ اور لوگوں کا حال یہ تھا کہ انہیں اپنوں میں سب سے افضل سمجھتے تھے اور ناپسند کرتے تھے کہ ان کے سوا کوئی دوسرا ان کی امامت کرے، چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب ان لوگوں کے پاس آئے تو انہوں نے آپ کو ساری بات بتائی۔ آپ نے فرمایا: ”اے فلاں! تمہارے ساتھی جو بات کہہ رہے ہیں، اس پر عمل کرنے سے تمہیں کیا چیز روک رہی ہے اور تمہیں کیا چیز مجبور کر رہی ہے کہ ہر رکعت میں تم اس سورت کو پڑھو؟“، انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میں اسے پسند کرتا ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی محبت تمہیں جنت میں لے جائے گی“۔
امام ترمذی کہتے ہیں ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب صحیح ہے اور یہ عبیداللہ بن عمر کی روایت سے ہے جسے وہ ثابت سے روایت کرتے ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب فضائل القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2901]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الأذان 106 (774/م) (تعلیقاً بقولہ: قال عبید اللہ بن عمر، عن ثابت، عن أنس) (تحفة الأشراف: 457) (حسن صحیح)»
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، التعليق الرغيب (2 / 224) ، صفة الصلاة (85)
انس رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! میں اس سورت کو پسند کرتا ہوں یعنی «قل هو الله أحد» کو آپ نے فرمایا: ”تمہاری اس کی یہی محبت و چاہت ہی تو تمہیں جنت میں پہنچائے گی“۔ [سنن ترمذي/كتاب فضائل القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2901M]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 464/الف) (صحیح) (سند میں مبارک بن فضالہ تدلیس تسویہ کیا کرتے تھے، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے)»
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، التعليق الرغيب (2 / 224) ، صفة الصلاة (85)
12. باب مَا جَاءَ فِي الْمُعَوِّذَتَيْنِ
12. باب: معوذتین (سورۃ الفلق اور سورۃ الناس) کی فضیلت کا بیان۔
عقبہ بن عامر جہنی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے مجھ پر ایسی آیات نازل کی ہیں جیسی (کبھی) نہیں دیکھی گئی ہیں، وہ یہ ہیں: «قل أعوذ برب الناس» آخر سورۃ تک اور «قل أعوذ برب الفلق» آخر سورۃ تک“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب فضائل القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2902]
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص قرآن پڑھتا ہے اور قرآن پڑھنے میں مہارت رکھتا ہے وہ بزرگ پاکباز فرشتوں کے ساتھ ہو گا، اور جو شخص قرآن پڑھتا ہے اور بڑی مشکل سے پڑھ پاتا ہے، پڑھنا اسے بہت شاق گزرتا ہے تو اسے دہرا اجر ملے گا“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب فضائل القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2904]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/تفسیر 79 (4937)، صحیح مسلم/المسافرین 38 (798)، سنن ابی داود/ الصلاة 349 (1454)، سنن ابن ماجہ/الأدب 52 (3779) (تحفة الأشراف: 16102)، و مسند احمد (6/48، 94، 110، 192)، وسنن الدارمی/فضائل القرآن 11 (3411) (صحیح)»
علی بن ابی طالب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے قرآن پڑھا اور اسے پوری طرح حفظ کر لیا، جس چیز کو قرآن نے حلال ٹھہرایا اسے حلال جانا اور جس چیز کو قرآن نے حرام ٹھہرایا اسے حرام سمجھا تو اللہ اسے اس قرآن کے ذریعہ جنت میں داخل فرمائے گا۔ اور اس کے خاندان کے دس ایسے لوگوں کے بارے میں اس (قرآن) کی سفارش قبول کرے گا جن پر جہنم واجب ہو چکی ہو گی“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ۲- اس کی سند صحیح نہیں ہے، ۳- حفص بن سلیمان حدیث میں ضعیف قرار دیئے گئے ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب فضائل القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2905]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابن ماجہ/المقدمة 16 (216) (تحفة الأشراف: 10146) (ضعیف جداً) (سند میں حفص بن سلیمان ابو عمر قاری کوفی صاحب عاصم ابن ابی النجود قراءت میں امام ہیں، اور حدیث میں متروک)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا، ابن ماجة (216) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (38) ، المشكاة (2141) ، ضعيف الجامع الصغير (5761) //
حارث اعور کہتے ہیں کہ مسجد میں گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ لوگ گپ شپ اور قصہ کہانیوں میں مشغول ہیں، میں علی رضی الله عنہ کے پاس پہنچا۔ میں نے کہا: امیر المؤمنین! کیا آپ دیکھ نہیں رہے ہیں کہ لوگ لایعنی باتوں میں پڑے ہوئے ہیں؟۔ انہوں نے کہا: کیا واقعی وہ ایسا کر رہے ہیں؟ میں نے کہا: ہاں، انہوں نے کہا: مگر میں نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”عنقریب کوئی فتنہ برپا ہو گا“، میں نے کہا: اس فتنہ سے بچنے کی صورت کیا ہو گی؟ اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ”کتاب اللہ، اس میں تم سے پہلے کے لوگوں اور قوموں کی خبریں ہیں اور بعد کے لوگوں کی بھی خبریں ہیں، اور تمہارے درمیان کے امور و معاملات کا حکم و فیصلہ بھی اس میں موجود ہے، اور وہ دو ٹوک فیصلہ کرنے والا ہے، ہنسی مذاق کی چیز نہیں ہے۔ جس نے اسے سرکشی سے چھوڑ دیا اللہ اسے توڑ دے گا اور جو اسے چھوڑ کر کہیں اور ہدایت تلاش کرے گا اللہ اسے گمراہ کر دے گا۔ وہ (قرآن) اللہ کی مضبوط رسی ہے یہ وہ حکمت بھرا ذکر ہے، وہ سیدھا راستہ ہے، وہ ہے جس کی وجہ سے خواہشیں ادھر ادھر نہیں بھٹک پاتی ہیں، جس کی وجہ سے زبانیں نہیں لڑکھڑاتیں، اور علماء کو (خواہ کتنا ہی اسے پڑھیں) آسودگی نہیں ہوتی، اس کے باربار پڑھنے اور تکرار سے بھی وہ پرانا (اور بے مزہ) نہیں ہوتا۔ اور اس کی انوکھی (و قیمتی) باتیں ختم نہیں ہوتیں، اور وہ قرآن وہ ہے جسے سن کر جن خاموش نہ رہ سکے بلکہ پکار اٹھے: ہم نے ایک عجیب (انوکھا) قرآن سنا ہے جو بھلائی کا راستہ دکھاتا ہے، تو ہم اس پر ایمان لے آئے، جو اس کے مطابق بولے گا اس کے مطابق عمل کرے گا اسے اجر و ثواب دیا جائے گا۔ اور جس نے اس کے مطابق فیصلہ کیا اس نے انصاف کیا اور جس نے اس کی طرف بلایا اس نے اس نے سیدھے راستے کی ہدایت دی۔ اعور! ان اچھی باتوں کا خیال رکھو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، اس حدیث کو ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ۲- اس کی سند مجہول ہے، ۳- حارث کے بارے میں کلام کیا گیا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب فضائل القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2906]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10057) (ضعیف) (سند میں حارث الأعور ضعیف راوی ہے، اور ابن أخی الحارث مجہول)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (2138 / التحقيق الثاني)
عثمان بن عفان رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن سیکھے اور سکھلائے“، ابوعبدالرحمٰن سلمی (راوی حدیث) کہتے ہیں: یہی وہ چیز ہے جس نے مجھے اپنی اس نشست گاہ (مسند) پر بٹھا رکھا ہے، عثمان کے زمانہ میں قرآن کی تعلیم دینی شروع کی (اور دیتے رہے) یہاں تک حجاج بن یوسف کے زمانہ میں یہ سلسلہ چلتا رہا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب فضائل القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2907]
عثمان بن عفان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سب سے بہتر یا تم میں سب سے افضل وہ شخص ہے جو قرآن سیکھے اور سکھلائے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- عبدالرحمٰن بن مہدی اور کئی دوسروں نے اسی طرح بسند «سفيان الثوري عن علقمة بن مرثد عن أبي عبدالرحمٰن عن عثمان عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کی ہے، ۳- سفیان اس کی سند میں سعد بن عبیدہ کا ذکر نہیں کرتے ہیں، ۴- یحییٰ بن سعید قطان نے یہ حدیث بسند «سفيان وشعبة عن علقمة بن مرثد عن سعد بن عبيدة عن أبي عبدالرحمٰن عن عثمان عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کی۔ ہم سے بیان کیا اسے محمد بن بشار نے، وہ کہتے ہیں: ہم سے بیان کیا یحییٰ بن سعید نے سفیان اور شعبہ کے واسطہ سے۔ [سنن ترمذي/كتاب فضائل القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2908]
محمد بن بشار کہتے ہیں: ایسا ہی یحییٰ بن سعید نے اس روایت کو سفیان اور شعبہ کے واسطہ سے، ایک نہیں کئی بار ذکر کیا، اور ان دونوں نے بسند «عن علقمة بن مرثد عن سعد بن عبيدة عن أبي عبدالرحمٰن عن عثمان عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کی، ۶- محمد بن بشار کہتے ہیں: اصحاب سفیان اس روایت میں «عن سفيان عن سعد بن عبيدة» کا ذکر نہیں کرتے ہیں۔ محمد بن بشار کہتے ہیں۔ اور یہ زیادہ صحیح ہے، ۷- شعبہ نے اس حدیث کی سند میں سعد بن عبیدہ کا اضافہ کیا ہے تو ان سفیان کی حدیث (جو شعبہ کے ہم سبق ہیں) زیادہ صحیح ہے۔ علی بن عبداللہ (ابن المدینی) کہتے ہیں: یحییٰ بن سعید نے کہا کہ میرے نزدیک شعبہ کے برابر کوئی (ثقہ) نہیں ہے۔ اور جب سفیان ان کی مخالفت کرتے ہیں تو میں سفیان کی بات لے لیتا ہوں، ۸- میں نے ابوعمار کو وکیع کے واسطہ سے ذکر کرتے ہوئے سنا ہے: شعبہ نے کہا: سفیان مجھ سے زیادہ قوی حافظہ والے ہیں۔ (اور اس کی دلیل یہ ہے کہ) مجھ سے سفیان نے کسی شخص سے کوئی چیز روایت کی تو میں نے اس شخص سے وہ چیز (براہ راست) پوچھی تو میں نے ویسا ہی پایا جیسا سفیان مجھ سے بیان کیا تھا، ۹- اس باب میں علی اور سعد سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب فضائل القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2908M]