ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم جنت میں داخل نہیں ہو سکتے جب تک کہ تم (صحیح معنوں میں) مومن نہ بن جاؤ اور تم مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ تم آپس میں ایک دوسرے سے (سچی) محبت نہ کرنے لگو۔ کیا میں تمہیں ایک ایسی چیز نہ بتاؤں کہ اگر تم اسے کرنے لگو تو تم میں باہمی محبت پیدا ہو جائے (وہ یہ کہ) آپس میں سلام کو عام کرو (پھیلاؤ)“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عبداللہ بن سلام، شریح بن ہانی عن ابیہ، عبداللہ بن عمرو، براء، انس اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الاستئذان والآداب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2688]
عمران بن حصین رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: «السلام عليكم»، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(اس کے لیے) دس نیکیاں ہیں“، پھر ایک دوسرا شخص آیا اور اس نے کہا: «السلام عليكم ورحمة الله»، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(اس کے لیے) بیس نیکیاں ہیں“، پھر ایک اور آدمی آیا اور اس نے کہا: «السلام عليكم ورحمة الله وبركاته»، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(اس کے لیے) تیس نیکیاں ہیں“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ۲- اس باب میں علی، ابوسعید اور سہل بن حنیف سے بھی روایت ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الاستئذان والآداب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2689]
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ نے عمر رضی الله عنہ سے ان کے پاس حاضر ہونے کی اجازت طلب کی تو انہوں نے کہا: «السلام عليكم» کیا میں اندر آ سکتا ہوں؟ عمر رضی الله عنہ نے (دل میں) کہا: ابھی تو ایک بار اجازت طلب کی ہے، تھوڑی دیر خاموش رہ کر پھر انہوں نے کہا: «السلام عليكم» کیا میں اندر آ سکتا ہوں؟ عمر رضی الله عنہ نے (دل میں) کہا: ابھی تو دو ہی بار اجازت طلب کی ہے۔ تھوڑی دیر (مزید) خاموش رہ کر انہوں نے پھر کہا: «السلام عليكم» کیا مجھے اندر داخل ہونے کی اجازت ہے؟ عمر رضی الله عنہ نے (دل میں کہا) تین بار اجازت طلب کر چکے، پھر ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ واپس ہو لیے، عمر رضی الله عنہ نے دربان سے کہا: ابوموسیٰ نے کیا کیا؟ اس نے کہا: لوٹ گئے۔ عمر رضی الله عنہ نے کہا انہیں بلا کر میرے پاس لاؤ، پھر جب وہ ان کے پاس آئے تو عمر رضی الله عنہ نے کہا: یہ آپ نے کیا کیا ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے سنت پر عمل کیا ہے، عمر رضی الله عنہ نے کہا سنت پر؟ قسم اللہ کی! تمہیں اس کے سنت ہونے پر دلیل و ثبوت پیش کرنا ہو گا ورنہ میں تمہارے ساتھ سخت برتاؤ کروں گا۔ ابو سعید خدری کہتے ہیں: پھر وہ ہمارے پاس آئے، اس وقت ہم انصار کی ایک جماعت کے ساتھ تھے۔ ابوموسیٰ اشعری نے کہا: اے انصار کی جماعت! کیا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو دوسرے لوگوں سے زیادہ جاننے والے نہیں ہو، کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا: «الاستئذان ثلاث»(اجازت طلبی) تین بار ہے۔ اگر تمہیں اجازت دے دی جائے تو گھر میں جاؤ اور اگر اجازت نہ دی جائے تو لوٹ جاؤ؟ (یہ سن کر) لوگ ان سے ہنسی مذاق کرنے لگے، ابو سعید خدری کہتے ہیں: میں نے اپنا سر ابوموسیٰ اشعری کی طرف اونچا کر کے کہا: اس سلسلے میں جو بھی سزا آپ کو ملے گی میں اس میں حصہ دار ہوں گا، راوی کہتے ہیں: پھر وہ (ابوسعید) عمر رضی الله عنہ کے پاس آئے، اور ان کو اس حدیث کی خبر دی، عمر نے کہا: مجھے اس حدیث کا علم نہیں تھا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، اور جریری کا نام سعید بن ایاس ہے اور ان کی کنیت ابومسعود ہے۔ یہ حدیث ان کے سوا اور لوگوں نے بھی ابونضرہ سے روایت کی ہے، اور ابونضرہ عبدی کا نام منذر بن مالک بن قطعہ ہے، ۲- اس باب میں علی اور سعد کی آزاد کردہ لونڈی رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الاستئذان والآداب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2690]
عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کے پاس آنے کی تین بار اجازت مانگی، تو آپ نے مجھے اجازت دے دی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- ابوزمیل کا نام سماک الحنفی ہے، ۳- میرے نزدیک عمر کو ابوموسیٰ کی اس بات پر اعتراض اور انکار اس وجہ سے تھا کہ ابوموسیٰ نے بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اجازت تین بار طلب کی جائے، اگر اجازت مل جائے تو ٹھیک ور نہ لوٹ جاؤ“۔ (رہ گیا عمر رضی الله عنہ کا اپنا معاملہ) تو انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تین بار اجازت طلب کی تھی تو انہیں اجازت مل گئی تھی، اس حدیث کی خبر انہیں نہیں تھی جسے ابوموسیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے، آپ نے فرمایا: ”پھر اگر اندر جانے کی اجازت مل جائے تو ٹھیک ورنہ واپس لوٹ جاؤ“۔ [سنن ترمذي/كتاب الاستئذان والآداب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2691]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10499) (ضعیف الإسناد منکر المتن) (اس کے راوی ”عکرمہ بن عمار“ روایت میں غلطی کر جاتے تھے، اور فی الحقیقت یہ روایت پچھلی صحیح روایت کے برخلاف ہے)»
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص مسجد میں آیا (اس وقت) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کے ایک کونے میں تشریف فرما تھے۔ اس نے نماز پڑھی پھر آ کر آپ کو سلام عرض کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا «وعليك»”تم پر بھی سلام ہو، جاؤ دوبارہ نماز پڑھو کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی“، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- یحییٰ بن سعید قطان نے یہ حدیث عبیداللہ بن عمر سے اور عبیداللہ بن عمر نے سعید مقبری سے روایت کی ہے، اس میں انہوں نے «عن أبيه عن أبي هريرة» کہا ہے، اس میں «فسلم عليه وقال وعليك»”اس نے آپ کو سلام کیا اور آپ نے کہا تم پر بھی سلام ہو“ کا ذکر نہیں کیا، ۳- یحییٰ بن سعید کی حدیث زیادہ صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الاستئذان والآداب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2692]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر حدیث رقم 303 (صحیح)»
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”جبرائیل تمہیں سلام کہتے ہیں، تو انہوں نے جواب میں کہا: وعلیہ السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ ان پر بھی سلام اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں بنی نمیر کے ایک شخص سے بھی روایت ہے وہ اپنے باپ سے اور وہ ان کے دادا کے واسطہ سے روایت کرتے ہیں، ۳- زہری نے بھی یہ حدیث ابوسلمہ کے واسطہ سے عائشہ سے روایت کی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الاستئذان والآداب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2693]
ابوامامہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ پوچھا گیا: اللہ کے رسول! جب دو آدمی آپس میں ملیں تو سلام کرنے میں پہل کون کرے؟ آپ نے فرمایا: ”ان دونوں میں سے جو اللہ کے زیادہ قریب ہے“۱؎۔ (وہ پہل کرے گا)
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: ابوفروہ رہاوی مقارب الحدیث ہیں، مگر ان کے بیٹے محمد بن یزید ان سے منکر حدیثیں روایت کرتے ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الاستئذان والآداب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2694]
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو ہمارے غیروں سے مشابہت اختیار کرے، نہ یہود کی مشابہت کرو اور نہ نصاریٰ کی، یہودیوں کا سلام انگلیوں کا اشارہ ہے اور نصاریٰ کا سلام ہتھیلیوں کا اشارہ ہے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس حدیث کی سند ضعیف ہے، ۲- ابن مبارک نے یہ حدیث ابن لھیعہ سے روایت کی ہے، اور اسے انہوں نے مرفوع نہیں کیا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الاستئذان والآداب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2695]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 8734) (حسن) (متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے، ورنہ اس کے راوی ”ابن لہیعہ“ ضعیف ہیں، اور عبد اللہ بن مبارک کی ان سے جو روایت ہے وہ موقوف ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے الصحیحة رقم: 2194)»
قال الشيخ الألباني: حسن، الصحيحة (2194)
8. باب مَا جَاءَ فِي التَّسْلِيمِ عَلَى الصِّبْيَانِ
سیار کہتے ہیں کہ میں ثابت بنانی کے ساتھ جا رہا تھا، وہ بچوں کے پاس سے گزرے تو انہیں سلام کیا، ثابت نے (اپنا واقعہ بیان کرتے ہوئے) کہا: میں انس رضی الله عنہ کے ساتھ (جا رہا) تھا وہ بچوں کے پاس سے گزرے تو انہوں نے سلام کیا، پھر انس نے (اپنا واقعہ بیان کرتے ہوئے) کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، آپ بچوں کے پاس سے گزرے تو انہیں سلام کیا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث صحیح ہے، ۲- اسے کئی لوگوں نے ثابت سے روایت کیا ہے، ۳- یہ حدیث متعدد سندوں سے انس رضی الله عنہ سے بھی روایت کی گئی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الاستئذان والآداب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2696]