عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے علم کو غیر اللہ کے لیے سیکھا یا وہ اس علم کے ذریعہ اللہ کی رضا کے بجائے کچھ اور حاصل کرنا چاہتا ہے تو ایسا شخص اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- ہم اسے ایوب کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ۳- اس باب میں جابر سے بھی روایت ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب العلم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2655]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابن ماجہ/المقدمة 33 (258) (تحفة الأشراف: 6712) (ضعیف) (سند میں خالد اور ابن عمر رضی الله عنہما کے درمیان انقطاع ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (258) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (54) ، ضعيف الجامع (5530 و 5687) //
7. باب مَا جَاءَ فِي الْحَثِّ عَلَى تَبْلِيغِ السَّمَاعِ
7. باب: دوسرے تک دین کی بات پہنچانے پر ابھارنے کا بیان۔
ابان بن عثمان کہتے ہیں کہ زید بن ثابت رضی الله عنہ دوپہر کے وقت مروان کے پاس سے نکلے (لوٹے)، ہم نے کہا: مروان کو ان سے کوئی چیز پوچھنا ہو گی تبھی ان کو اس وقت بلا بھیجا ہو گا، پھر ہم نے ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا: ہاں، انہوں نے ہم سے کئی چیزیں پوچھیں جسے ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”اللہ اس شخص کو تروتازہ رکھے جو مجھ سے کوئی حدیث سنے پھر اسے یاد رکھ کر اسے دوسروں کو پہنچا دے، کیونکہ بہت سے احکام شرعیہ کا علم رکھنے والے اس علم کو اس تک پہنچا دیتے ہیں جو اس سے زیادہ ذی علم اور عقلمند ہوتے ہیں۔ اور بہت سے شریعت کا علم رکھنے والے علم تو رکھتے ہیں، لیکن فقیہہ نہیں ہوتے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- زید بن ثابت کی حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں عبداللہ بن مسعود، معاذ بن جبل، جبیر بن مطعم، ابو الدرداء اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب العلم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2656]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/ العلم 10 (3660)، سنن ابن ماجہ/المقدمة: 18 (230) (تحفة الأشراف: 3694)، و مسند احمد (1/437)، و (5/183)، وسنن الدارمی/المقدمة 24 (235) (صحیح)»
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”اللہ اس شخص کو تروتازہ (اور خوش) رکھے جس نے مجھ سے کوئی بات سنی پھر اس نے اسے جیسا کچھ مجھ سے سنا تھا ہوبہو دوسروں تک پہنچا دیا کیونکہ بہت سے لوگ جنہیں بات (حدیث) پہنچائی جائے پہنچانے والے سے کہیں زیادہ بات کو توجہ سے سننے اور محفوظ رکھنے والے ہوتے ہیں“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس حدیث کو عبدالملک بن عمیر نے عبدالرحمٰن بن عبداللہ کے واسطہ سے بیان کیا۔ [سنن ترمذي/كتاب العلم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2657]
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ اس شخص کو تروتازہ رکھے جو میری بات کو سنے اور توجہ سے سنے، اسے محفوظ رکھے اور دوسروں تک پہنچائے، کیونکہ بہت سے علم کی سمجھ رکھنے والے علم کو اس تک پہنچا دیتے ہیں جو ان سے زیادہ سوجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ تین چیزیں ایسی ہیں جن کی وجہ سے ایک مسلمان کا دل دھوکہ نہیں کھا سکتا، (۱) عمل خالص اللہ کے لیے (۲) مسلمانوں کے ائمہ کے ساتھ خیر خواہی (۳) اور مسلمانوں کی جماعت سے جڑ کر رہنا، کیونکہ دعوت ان کا چاروں طرف سے احاطہٰ کرتی ہے“۔ [سنن ترمذي/كتاب العلم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2658]
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے جان بوجھ کر میری طرف جھوٹ کی نسبت کی تو وہ جہنم میں اپنا ٹھکانا بنا لے“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب العلم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2659]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابن ماجہ/المقدمة 4 (30)، وانظر أیضا ماتقدم برقم 2257 (تحفة الأشراف: 9212)، و مسند احمد (1/389، 401، 402، 405، 436، 453) (صحیح متواتر)»
علی بن ابی طالب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھ پر جھوٹ نہ باندھو کیونکہ مجھ پر جھوٹ باندھنے والا جہنم میں داخل ہو گا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- علی رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوبکر، عمر، عثمان، زبیر، سعید بن زید، عبداللہ بن عمرو، انس، جابر، ابن عباس، ابوسعید، عمرو بن عبسہ، عقبہ بن عامر، معاویہ، بریدہ، ابوموسیٰ، ابوامامہ، عبداللہ بن عمر، مقنع اور اوس ثقفی رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب العلم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2660]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/العلم 38 (106)، صحیح مسلم/المقدمة 2 (1)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 4 (31) (تحفة الأشراف: 10087)، و مسند احمد (1/83، 123، 150) (صحیح)»
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے میرے متعلق جھوٹی بات کہی“، (انس کہتے ہیں) میرا خیال ہے کہ آپ نے «من كذب علي» کے بعد «متعمدا» کا لفظ بھی کہا یعنی جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ باندھا، ”تو ایسے شخص کا ٹھکانا جہنم ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔ یعنی زہری کی اس روایت سے جسے وہ انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں، ۲- یہ حدیث متعدد سندوں سے انس رضی الله عنہ کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے آئی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب العلم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2661]
مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے میری طرف منسوب کر کے جان بوجھ کر کوئی جھوٹی حدیث بیان کی تو وہ دو جھوٹ بولنے والوں میں سے ایک ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- شعبہ نے حکم سے، حکم نے عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ سے، عبدالرحمٰن نے سمرہ سے، اور سمرہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث روایت کی ہے، ۳- اعمش اور ابن ابی لیلیٰ نے حکم سے، حکم نے عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ سے، عبدالرحمٰن نے علی رضی الله عنہ سے اور علی رضی الله عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے، اور عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ کی حدیث جسے وہ سمرہ سے روایت کرتے ہیں، محدثین کے نزدیک زیادہ صحیح ہے، ۴- اس باب میں علی ابن ابی طالب اور سمرہ رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں، ۵- میں نے ابو محمد عبداللہ بن عبدالرحمٰن دارمی سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث «من حدث عني حديثا وهو يرى أنه كذب فهو أحد الكاذبين» کے متعلق پوچھا کہ اس سے مراد کیا ہے، میں نے ان سے کہا کیا یہ کہ جس نے کوئی حدیث بیان کی اور وہ جانتا ہے کہ اس کی اسناد میں کچھ خطا (غلطی اور کمی) ہے تو کیا یہ خوف و خطرہ محسوس کیا جائے کہ ایسا شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کی زد اور وعید میں آ گیا۔ یا اس سے مراد یہ ہے کہ لوگوں نے حدیث مرسل بیان کی تو انہیں میں سے کچھ لوگوں نے اس مرسل کو مرفوع کر دیا یا اس کی اسناد کو ہی الٹ پلٹ دیا تو یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کی زد میں آئیں گے؟ تو انہوں نے کہا: نہیں۔ اس کا معنی (و مطلب) یہ ہے کہ جب کوئی شخص حدیث روایت کرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک اس حدیث کے مرفوع ہونے کی کوئی اصل (وجہ و سبب) نہ جانی جاتی ہو، اور وہ شخص اسے مرفوع کر کے بیان کر دے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا یا ایسا کیا ہے تو مجھے ڈر ہے کہ ایسا ہی شخص اس حدیث کا مصداق ہو گا۔ [سنن ترمذي/كتاب العلم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2662]
ابورافع رضی الله عنہ وغیرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تم میں سے کسی کو ہرگز اس حال میں نہ پاؤں کہ وہ اپنے آراستہ تخت پر ٹیک لگائے ہو اور اس کے پاس میرے امر یا نہی کی قسم کا کوئی حکم پہنچے تو وہ یہ کہے کہ میں کچھ نہیں جانتا، ہم نے تو اللہ کی کتاب میں جو چیز پائی اس کی پیروی کی“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- بعض راویوں نے سفیان سے، سفیان نے ابن منکدر سے اور ابن منکدر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس حدیث کو مرسلاً روایت کیا ہے۔ اور بعض نے یہ حدیث سالم ابوالنضر سے، سالم نے عبیداللہ بن ابورافع سے، عبیداللہ نے اپنے والد ابورافع سے اور ابورافع نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔ ۳- ابن عیینہ جب اس حدیث کو علیحدہ بیان کرتے تھے تو محمد بن منکدر کی حدیث کو سالم بن نضر کی حدیث سے جدا جدا بیان کرتے تھے اور جب دونوں حدیثوں کو جمع کر دیتے تو اسی طرح روایت کرتے (جیسا کہ اس حدیث میں ہے)۔ ۴- ابورافع نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام ہیں اور ان کا نام اسلم ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب العلم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2663]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/ السنة 6 (4605)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 2 (13) (تحفة الأشراف: 12019)، و مسند احمد (6/8) (صحیح)»
مقدام بن معدیکرب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خبردار رہو! قریب ہے کہ کوئی آدمی اپنے آراستہ تخت پر ٹیک لگائے بیٹھا ہو اور وہ کہے: ہمارے اور تمہارے درمیان (فیصلے کی چیز) بس اللہ کی کتاب ہے۔ اس میں جو چیز ہم حلال پائیں گے پس اسی کو حلال سمجھیں گے، اور اس میں جو چیز حرام پائیں گے بس اسی کو ہم حرام جانیں گے، یاد رکھو! بلا شک و شبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو چیز حرام قرار دے دی ہے وہ ویسے ہی حرام ہے جیسے کہ اللہ کی حرام کی ہوئی چیز“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب العلم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2664]