ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ (جہاد) کروں یہاں تک کہ وہ «لا إله إلا الله» کا اقرار کر لیں، پھر جب وہ اس کا اقرار کر لیں تو اب انہوں نے اپنے خون اور اپنے اموال کو مجھ سے محفوظ کر لیا، مگر کسی حق کے بدلے ۱؎، اور ان کا (مکمل) حساب تو اللہ تعالیٰ پر ہے“۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں جابر، ابوسعید اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الإيمان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2606]
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اور آپ کے بعد ابوبکر رضی الله عنہ خلیفہ بنا دئیے گئے اور عربوں میں جنہیں کفر کرنا تھا کفر کا اظہار کیا، تو عمر بن خطاب رضی الله عنہ نے ابوبکر رضی الله عنہ سے کہا: آپ لوگوں سے کیسے جنگ (جہاد) کریں گے جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”مجھے حکم ملا ہے کہ میں لوگوں سے لڑوں یہاں تک کہ وہ کہیں: «لا إلہ الا اللہ»، تو جس نے «لا إلہ الا اللہ» کہا، اس نے مجھ سے اپنا مال اور اپنی جان محفوظ کر لی ۱؎، اور اس کا حساب اللہ کے ذمہ ہے“، ابوبکر رضی الله عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! میں تو ہر اس شخص کے خلاف جہاد کروں گا جو صلاۃ و زکاۃ میں فرق کرے گا، کیونکہ زکاۃ مال کا حق ہے، قسم اللہ کی! اگر انہوں نے ایک رسی بھی دینے سے انکار کیا جسے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (زکاۃ میں) دیا کرتے تھے تو میں ان کے اس انکار پر بھی ان سے جنگ (جہاد) کروں گا۔ عمر بن خطاب رضی الله عنہ نے کہا: قسم اللہ کی! اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ میں نے دیکھا: اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رضی الله عنہ کے سینے کو جنگ کے لیے کھول دیا ہے اور میں نے جان لیا کہ یہی حق اور درست ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اسی طرح شعیب بن ابی حمزہ نے زہری سے، زہری نے عبیداللہ بن عبداللہ سے اور عبداللہ نے ابوہریرہ رضی الله عنہم سے روایت کی ہے، ۳- عمران بن قطان نے یہ حدیث معمر سے، معمر نے زہری سے، زہری نے انس بن مالک سے، اور انس بن مالک نے ابوبکر سے روایت کی ہے، لیکن اس حدیث (کی سند) میں غلطی ہے۔ (اور وہ یہ ہے کہ) معمر کے واسطہ سے عمران کی روایت کی مخالفت کی گئی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الإيمان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2607]
انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے لوگوں سے اس وقت تک جنگ کرتے رہنے کا حکم دیا گیا ہے جب تک لوگ اس بات کی شہادت نہ دینے لگیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اس کے بندے اور رسول ہیں۔ اور ہمارے قبلہ کی طرف رخ (کر کے عبادت) نہ کرنے لگیں۔ ہمارا ذبیحہ نہ کھانے لگیں اور ہمارے طریقہ کے مطابق نماز نہ پڑھنے لگیں۔ جب وہ یہ سب کچھ کرنے لگیں گے تو ان کا خون اور ان کا مال ہمارے اوپر حرام ہو جائے گا، مگر کسی حق کے بدلے ۱؎، انہیں وہ سب کچھ حاصل ہو گا ۲؎ جو عام مسلمانوں کو حاصل ہو گا اور ان پر وہی سب کچھ ذمہ داریاں عائد ہوں گی جو عام مسلمانوں پر عائد ہوں گی“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ۲- یحییٰ بن ایوب نے حمید سے اور حمید نے انس سے اس حدیث کی طرح روایت کی ہے، ۳- اس باب میں معاذ بن جبل اور ابوہریرہ رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الإيمان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2608]
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے: (۱) گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، (۲) نماز قائم کرنا، (۳) زکاۃ دینا (۴) رمضان کے روزے رکھنا، (۵) بیت اللہ کا حج کرنا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ابن عمر رضی الله عنہما کے واسطہ سے کئی سندوں سے مروی ہے، اسی طرح یہ حدیث کئی سندوں سے ابن عمر رضی الله عنہما کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے آئی ہے، ۳- اس باب میں جریر بن عبداللہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الإيمان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2609]
یحییٰ بن یعمر کہتے ہیں کہ سب سے پہلے جس شخص نے تقدیر کے انکار کی بات کی وہ معبد جہنی ہے، میں اور حمید بن عبدالرحمٰن حمیری دونوں (سفر پر) نکلے یہاں تک کہ مدینہ پہنچے، ہم نے (آپس میں بات کرتے ہوئے) کہا: کاش ہماری نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کسی شخص سے ملاقات ہو جائے تو ہم ان سے اس نئے فتنے کے متعلق پوچھیں جو ان لوگوں نے پیدا کیا ہے، چنانچہ (خوش قسمتی سے) ہماری ان سے یعنی عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے کہ جب وہ مسجد سے نکل رہے تھے، ملاقات ہو گئی، پھر میں نے اور میرے ساتھی نے انہیں اپنے گھیرے میں لے لیا ۱؎ میں نے یہ اندازہ لگا کر کہ میرا ساتھی بات کرنے کی ذمہ داری اور حق مجھے سونپ دے گا، عرض کیا: ابوعبدالرحمٰن! کچھ لوگ ہیں جو قرآن پڑھتے ہیں اور قرآن میں غور و فکر اور تلاش و جستجو (کا دعویٰ) بھی کرتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ یہ خیال رکھتے ہیں کہ تقدیر کوئی چیز نہیں ہے، اور امر (معاملہ) از سرے نو اور ابتدائی ہے ۲؎ ابن عمر رضی الله عنہما نے کہا: جب تم ان سے ملو (اور تمہارا ان کا آمنا سامنا ہو) تو انہیں بتا دو کہ میں ان سے بری (و بیزار) ہوں اور وہ مجھ سے بری ہیں، قسم ہے اس ذات کی جس کی قسم کھاتا ہے عبداللہ! (یعنی اللہ کی) اگر ان میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کر ڈالے تو جب تک وہ اچھی اور بری تقدیر پر ایمان نہیں لے آتا اس کا یہ خرچ مقبول نہ ہو گا، پھر انہوں نے حدیث بیان کرنی شروع کی اور کہا: عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے اسی دوران ایک شخص آیا جس کے کپڑے بہت زیادہ سفید تھے، اس کے بال بہت زیادہ کالے تھے، وہ مسافر بھی نہیں لگتا تھا اور ہم لوگوں میں سے کوئی اسے پہچانتا بھی نہ تھا۔ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آیا اور اپنے گھٹنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنوں سے ملا کر بیٹھ گیا پھر کہا: اے محمد! ایمان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کے رسولوں پر، آخرت کے دن پر اور اچھی بری تقدیر پر ایمان لاؤ“۔ اس نے (پھر) پوچھا: اور اسلام کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے اور محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکاۃ دینا، بیت اللہ شریف کا حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا“، اس نے (پھر) پوچھا: احسان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو تو ان تم اسے دیکھ رہے ہو، اور اگر تم اللہ کو دیکھنے کا تصور اپنے اندر پیدا نہ کر سکو تو یہ یقین کر کے اس کی عبادت کرو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے“، وہ شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر جواب پر کہتا جاتا تھا کہ آپ نے درست فرمایا۔ اور ہم اس پر حیرت کرتے تھے کہ یہ کیسا عجیب آدمی ہے کہ وہ خود ہی آپ سے پوچھتا ہے اور خود ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب کی تصدیق بھی کرتا جاتا ہے، اس نے (پھر) پوچھا: قیامت کب آئے گی؟ آپ نے فرمایا: ”جس سے پوچھا گیا ہے، وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا“، اس نے کہا: اس کی علامت (نشانی) کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”اس وقت حالت یہ ہو گی کہ لونڈی اپنی مالکن کو جنے گی ۳؎، اس وقت تم دیکھو گے کہ ننگے پیر چلنے والے، ننگے بدن رہنے والے، محتاج بکریوں کے چرانے والے ایک سے بڑھ کر ایک اونچی عمارتیں بنانے میں فخر کرنے والے ہوں گے“، عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اس واقعہ کے تین دن بعد ملے تو آپ نے فرمایا: ”عمر! کیا تمہیں معلوم ہے کہ یہ پوچھنے والا کون تھا؟ وہ جبرائیل علیہ السلام تھے۔ تمہارے پاس تمہیں دین کی بنیادی باتیں سکھانے آئے تھے“۔ [سنن ترمذي/كتاب الإيمان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2610]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الإیمان 1 (8)، سنن ابی داود/ السنة 17 (4695)، سنن النسائی/الإیمان 5 (4993)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 9 (63) (تحفة الأشراف: 10572)، و مسند احمد (1/27، 28، 51، 52) (صحیح)»
اس سند سے بھی عمر رضی الله عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ متعدد سندوں سے ابن عمر سے بھی اسی طرح مروی ہے، ۳- کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ یہ حدیث ابن عمر کے واسطہ سے آئی ہے اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے، لیکن صحیح یہ ہے کہ ابن عمر روایت کرتے ہیں، عمر رضی الله عنہ سے اور عمر رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے، ۲- اس باب میں طلحہ بن عبیداللہ، انس بن مالک اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الإيمان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2610M]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر ماقبلہ (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (63)
5. باب مَا جَاءَ فِي إِضَافَةِ الْفَرَائِضِ إِلَى الإِيمَانِ
5. باب: ایمان میں دوسرے فرائض و واجبات کے داخل ہونے کا بیان۔
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ عبدقیس کا وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، انہوں نے آپ سے عرض کیا: (اے اللہ کے رسول!) ہمارے اور آپ کے درمیان ربیعہ کا یہ قبیلہ حائل ہے، حرمت والے مہینوں کے علاوہ مہینوں میں ہم آپ کے پاس آ نہیں سکتے ۱؎ اس لیے آپ ہمیں کسی ایسی چیز کا حکم دیں جسے ہم آپ سے لے لیں اور جو ہمارے پیچھے ہیں انہیں بھی ہم اس کی طرف بلا سکیں، آپ نے فرمایا: ”میں تمہیں چار چیزوں کا حکم دیتا ہوں (۱) اللہ پر ایمان لانے کا، پھر آپ نے ان سے اس کی تفسیر و تشریح بیان کی «لا إلہ الا اللہ» اور «محمد رسول الله»“ کی شہادت دینا (۲) نماز قائم کرنا (۳) زکاۃ دینا (۴) مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ (خمس) نکالنا۔ [سنن ترمذي/كتاب الإيمان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2611]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر حدیث رقم 1599 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح إيمان أبي عبيد ص (58 - 59)
اس سند سے بھی ابن عباس رضی الله عنہما سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث صحیح حسن ہے، ۲- شعبہ نے بھی اسے ابوجمرہ نصر بن عمران ضبعی سے روایت کیا ہے اور اس میں یہ اضافہ کیا ہے «أتدرون ما الإيمان شهادة أن لا إله إلا الله وأني رسول الله»”کیا تم جانتے ہو ایمان کیا ہے؟ ایمان یہ ہے: گواہی دی جائے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے اور گواہی دی جائے کہ میں اللہ کا رسول ہوں“ اور پھر پوری حدیث بیان کی۔ [سنن ترمذي/كتاب الإيمان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2611M]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر حدیث رقم 1599 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح إيمان أبي عبيد ص (58 - 59)