زید بن خالد جہنی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تمہیں سب سے اچھے گواہ کے بارے میں نہ بتا دوں؟ سب سے اچھا گواہ وہ آدمی ہے جو گواہی طلب کیے جانے سے پہلے گواہی دے“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الشهادات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2295]
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اکثر لوگوں نے اپنی روایت میں عبدالرحمٰن بن ابی عمرہ کہا ہے۔ ۳- اس حدیث کی روایت کرنے میں مالک کے شاگردوں کا اختلاف ہے، بعض راویوں نے اسے ابی عمرہ سے روایت کیا ہے، اور بعض نے ابن ابی عمرہ سے، ان کا نام عبدالرحمٰن بن ابی عمرہ انصاری ہے، ابن ابی عمرہ زیادہ صحیح ہے، کیونکہ مالک کے سوا دوسرے راویوں نے «عن عبدالرحمٰن بن أبي عمرة عن زيد بن خالد» کہا ہے «عن ابن أبي عمرة عن زيد بن خالد» کی سند سے اس کے علاوہ دوسری حدیث بھی مروی ہے، اور وہ صحیح حدیث ہے، ابو عمرہ زید بن خالد جہنی کے آزاد کردہ غلام تھے، اور ابو عمرہ کے واسطہ سے خالد سے حدیث غلول مروی ہے، اکثر لوگ عبدالرحمٰن بن ابی عمرہ ہی کہتے ہیں ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الشهادات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2296]
زید بن خالد جہنی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”سب سے بہتر گواہ وہ ہے جو گواہی طلب کیے جانے سے پہلے اپنی گواہی کا فریضہ ادا کر دے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الشهادات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2297]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر ماقبلہ (صحیح) (سابقہ حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح لغیرہ)»
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خیانت کرنے والے مرد اور عورت کی گواہی درست اور مقبول نہیں ہے، اور نہ ان مردوں اور عورتوں کی گواہی مقبول ہے جن پر حد نافذ ہو چکی ہے، نہ اپنے بھائی سے دشمنی رکھنے والے کی گواہی مقبول ہے، نہ اس آدمی کی جس کی ایک بار جھوٹی گواہی آزمائی جا چکی ہو، نہ اس شخص کی گواہی جو کسی کے زیر کفالت ہو اس کفیل خاندان کے حق میں (جیسے مزدور وغیرہ) اور نہ اس شخص کی جو ولاء یا رشتہ داری کی نسبت میں متہم ہو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- ہم اسے صرف یزید بن زیاد دمشقی کی روایت سے جانتے ہیں، اور یزید ضعیف الحدیث ہیں، نیز یہ حدیث زہری کی روایت سے صرف اسی طریق سے جانی جاتی ہے، ۳- اس باب میں عبداللہ بن عمرو سے بھی حدیث مروی ہے، ۴- فزازی کہتے ہیں: «قانع» سے مراد «تابع» ہے، ۵- اس حدیث کا مطلب ہم نہیں سمجھتے اور نہ ہی سند کے اعتبار سے یہ میرے نزدیک صحیح ہے، ۶- اس بارے میں اہل علم کا عمل ہے کہ رشتہ دار کے لیے رشتہ کی گواہی درست ہے، البتہ بیٹے کے حق میں باپ کی گواہی یا باپ کے حق میں بیٹے کی گواہی کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے، اکثر اہل علم بیٹے کے حق میں باپ کی گواہی یا باپ کے حق میں بیٹے کی گواہی کو درست نہیں سمجھتے، ۷- بعض اہل علم کہتے ہیں: جب گواہی دینے والا عادل ہو تو باپ کی گواہی بیٹے کے حق میں اسی طرح باپ کے حق میں بیٹے کی گواہی درست ہے، ۸- بھائی کی گواہی کے جواز کے بارے میں اختلاف نہیں ہے، ۹- اسی طرح رشتہ دار کے لیے رشتہ دار کی گواہی میں بھی اختلاف نہیں ہے، ۱۰- امام شافعی کہتے ہیں: جب دو آدمیوں میں دشمنی ہو تو ایک کے خلاف دوسرے کی گواہی درست نہ ہو گی، گرچہ گواہی دینے والا عادل ہو، انہوں نے عبدالرحمٰن اعرج کی حدیث سے استدلال کیا ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسلاً مروی ہے کہ دشمنی رکھنے والے کی گواہی درست نہیں ہے، اسی طرح اس (مذکورہ) حدیث کا بھی مفہوم یہی ہے، (جس میں) آپ نے فرمایا: ”اپنے بھائی کے لیے دشمنی رکھنے والے کی گواہی درست نہیں ہے“۔ [سنن ترمذي/كتاب الشهادات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2298]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 16690) (ضعیف) (سند میں یزید بن زیاد دمشقی متروک الحدیث راوی ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، الإرواء (2675) ، المشكاة (3781 / التحقيق الثاني) // ضعيف الجامع الصغير (6199) //
ایمن بن خریم سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا: ”لوگو! جھوٹی گواہی اللہ کے ساتھ شرک کرنے کے برابر ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی «فاجتنبوا الرجس من الأوثان واجتنبوا قول الزور»”تو بتوں کی گندگی سے بچے رہو (ان کی پرستش نہ کرو) اور جھوٹ بولنے سے بچے رہو“(الحج: ۳۰)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- ہم اسے صرف سفیان بن زیاد کی روایت سے جانتے ہیں۔ اور لوگوں نے سفیان بن زیاد سے اس حدیث کی روایت کرنے میں اختلاف کیا ہے، ۳- نیز ہم ایمن بن خریم کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سماع بھی نہیں جانتے ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الشهادات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2299]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 1748) (ضعیف) (یہ مرسل ہے أیمن بن خریم تابعی ہیں، نیز اس کے راوی فاتک بن فضالہ مستور (مجہول الحال) ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (2372) // ضعيف سنن ابن ماجة (518) ، تخريج الإيمان لابن سلام (49 / 118) ، طبع المكتب الإسلامي، المشكاة (3779 و 3780) //
خریم بن فاتک اسدی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر پڑھائی، جب پلٹے تو خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا: ”جھوٹی گواہی اللہ کے ساتھ شرک کرنے کے برابر ہے“، آپ نے یہ بات تین مرتبہ دہرائی پھر آپ نے یہ مکمل آیت تلاوت فرمائی «واجتنبوا قول الزور»”اور جھوٹی بات سے اجتناب کرو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث میرے نزدیک زیادہ صحیح ہے، ۲- خریم بن فاتک کو شرف صحابیت حاصل ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے انہوں نے کئی حدیثیں روایت کی ہیں، اور مشہور صحابی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الشهادات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2300]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابن ماجہ/الأحکام 32 (2372) (ضعیف) (سند میں زیاد عصفری اور حبیب بن نعمان دونوں لین الحدیث یعنی ضعیف راوی ہیں)»
ابوبکرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہیں بڑے بڑے (کبیرہ) گناہوں کے بارے میں نہ بتا دوں؟“ صحابہ نے عرض کیا: کیوں نہیں؟ اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ”اللہ کے ساتھ شرک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا اور جھوٹی گواہی دینا یا جھوٹی بات بولنا“، ابوبکرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آخری بات کو برابر دہراتے رہے یہاں تک کہ ہم لوگوں نے دل میں کہا: کاش! آپ خاموش ہو جاتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے بھی حدیث آئی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الشهادات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2301]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر حدیث رقم 1901) (صحیح)»
عمران بن حصین رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”سب سے اچھے لوگ میرے زمانہ کے ہیں (یعنی صحابہ)، پھر وہ لوگ جو ان کے بعد آئیں گے (یعنی تابعین)، پھر وہ لوگ جو ان کے بعد آئیں گے (یعنی اتباع تابعین)۱؎، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات تین مرتبہ دہرائی، پھر ان کے بعد ایسے لوگ آئیں گے جو موٹا ہونا چاہیں گے، موٹاپا پسند کریں گے اور گواہی طلب کیے جانے سے پہلے گواہی دیں گے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اعمش کے واسطہ سے علی بن مدرک کی روایت سے غریب ہے، ۲- اعمش کے دیگر شاگردوں نے «عن الأعمش عن هلال بن يساف عن عمران بن حصين» کی سند سے روایت کی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الشهادات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2302]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر حدیث رقم 2221) (صحیح)»
عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب سے اچھے اور بہتر لوگ ہمارے زمانے والے ہیں، پھر وہ لوگ جو ان کے بعد ہوں گے، پھر وہ لوگ جو ان کے بعد ہوں گے، پھر جھوٹ عام ہو جائے گا یہاں تک کہ آدمی گواہی طلب کیے بغیر گواہی دے گا، اور قسم کھلائے بغیر قسم کھائے گا“۔ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث کہ سب سے بہتر گواہ وہ ہے، جو گواہی طلب کیے بغیر گواہی دے تو اس کا مفہوم ہمارے نزدیک یہ ہے کہ جب کسی سے کسی چیز کی گواہی (حق بات کی خاطر) دلوائی جائے تو وہ گواہی دے، گواہی دینے سے باز نہ رہے، بعض اہل علم کے نزدیک دونوں حدیثوں میں تطبیق کی یہی صورت ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الشهادات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2303]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر حدیث رقم 2165 (صحیح)»