جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کا ارادہ کیا تو آپ نے لوگوں میں اعلان کرایا۔ (مدینہ میں) لوگ اکٹھا ہو گئے، چنانچہ جب آپ (وہاں سے چل کر) بیداء پہنچے تو احرام باندھا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- جابر رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عمر، انس، مسور بن مخرمہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 817]
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں: بیداء جس کے بارے میں لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھتے ہیں (کہ وہاں سے احرام باندھا)۱؎ اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد (ذی الحلیفہ) کے پاس درخت کے قریب تلبیہ پکارا ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 818]
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے بعد احرام باندھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- ہم عبدالسلام بن حرب کے علاوہ کسی کو نہیں جانتے جس نے یہ حدیث روایت کی ہو، ۳- جس چیز کو اہل علم نے مستحب قرار دیا ہے وہ یہی ہے کہ آدمی نماز کے بعد احرام باندھے۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 819]
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج افراد ۱؎ کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں جابر اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ۴- ابن عمر رضی الله عنہما سے بھی مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج افراد کیا، ابوبکر، عمر اور عثمان رضی الله عنہم نے بھی افراد کیا، ۵- ثوری کہتے ہیں کہ حج افراد کرو تو بھی بہتر ہے، حج قران کرو تو بھی بہتر ہے اور حج تمتع کرو تو بھی بہتر ہے۔ شافعی نے بھی اسی جیسی بات کہی، ۶- کہا: ہمیں سب سے زیادہ افراد پسند ہے پھر تمتع اور پھر قران۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 820]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الحج 17 (1211)، سنن ابی داود/ المناسک 23 (1777)، سنن النسائی/الحج 48 (2716)، سنن ابن ماجہ/المناسک 37 (2964)، (تحفة الأشراف: 17517)، موطا امام مالک/الحج 11 (37)، سنن الدارمی/المناسک 16 (1853) (صحیح الإسناد شاذ) وأخرجہ مسند احمد (6/243) من غیر ہذا الطریق۔(نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا حج، حج قران تھا، اس لیے صحت سند کے باوجود متن شاذ ہے)۔»
قال الشيخ الألباني: (الحديث الأول) شاذ، (الحديث الثاني) حسن الإسناد، ولكنه شاذ، انظر ما بعده، وبخاصة الحديث (823) (الحديث الأول) ، ابن ماجة (2964)
11. باب مَا جَاءَ فِي الْجَمْعِ بَيْنَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو «لبيك بعمرة وحجة» فرماتے سنا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- انس کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عمر اور عمران بن حصین سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں، اہل کوفہ وغیرہ نے اسی کو اختیار کیا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 821]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 611) (صحیح) وقد أخرجہ کل من: صحیح البخاری/المغازی 61 (4354)، وصحیح مسلم/الحج 27 (1232)، من غیر ھذا الطریق۔»
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج تمتع کیا ۱؎ اور ابوبکر، عمر اور عثمان رضی الله عنہم نے بھی ۲؎ اور سب سے پہلے جس نے اس سے روکا وہ معاویہ رضی الله عنہ ہیں ۳؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 822]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ المؤلف و34 (1251)، و سنن ابی داود/ المناسک 24 (1795)، وسنن ابن ماجہ/الحج 14 (2917)، و38 (2968)، (تحفة الأشراف: 5745)، و مسند احمد (3/99)، وسنن الدارمی/المناسک 78 (1964)، من غیر ہذا الطریق وبتصرف فی السیاق (ضعیف الإسناد) (سند میں لیث بن ابی سُلیم اختلاط کی وجہ سے متروک الحدیث راوی ہے، لیکن اس حدیث کا اصل مسئلہ دیگر احادیث سے ثابت ہے)»
محمد بن عبداللہ بن حارث بن نوفل کہتے ہیں کہ انہوں نے سعد بن ابی وقاص اور ضحاک بن قیس رضی الله عنہما سے سنا، دونوں عمرہ کو حج میں ملانے کا ذکر کر رہے تھے۔ ضحاک بن قیس نے کہا: ایسا وہی کرے گا جو اللہ کے حکم سے ناواقف ہو، اس پر سعد رضی الله عنہ نے کہا: بہت بری بات ہے جو تم نے کہی، میرے بھتیجے! تو ضحاک بن قیس نے کہا: عمر بن خطاب رضی الله عنہ نے اس سے منع کیا ہے، اس پر سعد رضی الله عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کیا ہے اور آپ کے ساتھ ہم نے بھی اسے کیا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 823]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن النسائی/الحج 50 (2735)، (تحفة الأشراف: 3928)، موطا امام مالک/الحج 19 (60)، سنن الدارمی/الحج 18 (1855) (ضعیف الإسناد) (سند میں محمد بن عبداللہ بن حارث بن نوفل لین الحدیث ہیں، لیکن اصل مسئلہ دیگر احادیث سے ثابت ہے)»
ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ سالم بن عبداللہ نے ان سے بیان کیا کہ انہوں نے اہل شام میں سے ایک شخص سے سنا، وہ عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے حج میں عمرہ سے فائدہ اٹھانے کے بارے میں پوچھ رہا تھا، تو عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما نے کہا: یہ جائز ہے۔ اس پر شامی نے کہا: آپ کے والد نے تو اس سے روکا ہے؟ عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما نے کہا: ذرا تم ہی بتاؤ اگر میرے والد کسی چیز سے روکیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کیا ہو تو میرے والد کے حکم کی پیروی کی جائے گی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی، تو اس نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی، تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث (۸۲۲) حسن ہے، ۲- اس باب میں علی، عثمان، جابر، سعد، اسماء بنت ابی بکر اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے ایک جماعت نے اسی کو پسند کیا ہے کہ حج میں عمرہ کو شامل کر کے حج تمتع کرنا درست ہے، ۴- اور حج تمتع یہ ہے کہ آدمی حج کے مہینوں میں عمرہ کے ذریعہ داخل ہو، پھر عمرہ کر کے وہیں ٹھہرا رہے یہاں تک کہ حج کر لے تو وہ متمتع ہے، اس پر ہدی کی جو اسے میسر ہو قربانی لازم ہو گی، اگر اسے ہدی نہ مل سکے تو حج میں تین دن اور گھر لوٹ کر سات دن کے روزے رکھے، ۵- متمتع کے لیے مستحب ہے کہ جب وہ حج میں تین روزے رکھے تو ذی الحجہ کے (ابتدائی) دس دنوں میں رکھے اور اس کا آخری روزہ یوم عرفہ کو ہو، اور صحابہ کرام میں سے بعض اہل علم جن میں ابن عمر اور عائشہ رضی الله عنہم بھی شامل ہیں کے قول کی رو سے اگر وہ دس دنوں میں یہ روزے نہ رکھ سکے تو ایام تشریق میں رکھ لے۔ یہی مالک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے، ۶- اور بعض کہتے ہیں: ایام تشریق میں روزہ نہیں رکھے گا۔ یہ اہل کوفہ کا قول ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اہل حدیث حج میں عمرہ کو شامل کر کے حج تمتع کرنے کو پسند کرتے ہیں، یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 824]
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تلبیہ یہ تھا «لبيك اللهم لبيك لبيك لا شريك لك لبيك إن الحمد والنعمة لك والملك لا شريك لك»”حاضر ہوں، اے اللہ میں حاضر ہوں، حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں میں حاضر ہوں۔ سب تعریف اور نعمت تیری ہی ہے اور سلطنت بھی، تیرا کوئی شریک نہیں“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن مسعود، جابر، ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا، ابن عباس اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ اور یہی سفیان، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے، ۴- شافعی کہتے ہیں: اگر وہ اللہ کی تعظیم کے کچھ کلمات کا اضافہ کر لے تو کوئی حرج نہیں ہو گا - ان شاء اللہ- لیکن میرے نزدیک پسندیدہ بات یہ ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تلبیہ پر اکتفا کرے۔ شافعی کہتے ہیں: ہم نے جو یہ کہا کہ ”اللہ کی تعظیم کے کچھ کلمات بڑھا لینے میں کوئی حرج نہیں تو اس دلیل سے کہ ابن عمر سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تلبیہ یاد کیا پھر اپنی طرف سے اس میں «لبيك والرغباء إليك والعمل»”حاضر ہوں، تیری ہی طرف رغبت ہے اور عمل بھی تیرے ہی لیے ہے“ کا اضافہ کیا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 825]
نافع کہتے ہیں: عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما نے تلبیہ پکارا اور تلبیہ پکارتے ہوئے چلے، وہ کہہ رہے تھے: «لبيك اللهم لبيك لا شريك لك لبيك إن الحمد والنعمة لك والملك لا شريك لك» ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے تھے: یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تلبیہ ہے، پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تلبیہ کے اخیر میں اپنی طرف سے ان الفاظ کا اضافہ کرتے: «لبيك لبيك وسعديك والخير في يديك لبيك والرغباء إليك والعمل»”حاضر ہوں تیری خدمت میں حاضر ہوں تیری خدمت میں اور خوش ہوں تیری تابعداری پر اور ہر طرح کی بھلائی تیرے ہی دونوں ہاتھوں میں ہے اور تیری طرف رغبت ہے اور عمل بھی تیرے ہی لیے ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 826]