0. بَابُ: تَدْبِيرٍ
0. باب: غلام یا لونڈی کو مدبر بنانے کی دستاویز۔
هَذَا كِتَابٌ كَتَبَهُ فُلاَنُ بْنُ فُلاَنٍ لِفَتَاهُ الصَّقَلِّيِّ الْخَبَّازِ الطَّبَّاخِ الَّذِي يُسَمَّى فُلاَنًا وَهُوَ يَوْمَئِذٍ فِي مِلْكِهِ وَيَدِهِ إِنِّي دَبَّرْتُكَ لِوَجْهِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَرَجَاءِ ثَوَابِهِ فَأَنْتَ حُرٌّ بَعْدَ مَوْتِي لاَ سَبِيلَ لأَحَدٍ عَلَيْكَ بَعْدَ وَفَاتِي إِلاَّ سَبِيلَ الْوَلاَءِ فَإِنَّهُ لِي وَلِعَقِبِي مِنْ بَعْدِي أَقَرَّ فُلاَنُ بْنُ فُلاَنٍ بِجَمِيعِ مَا فِي هَذَا الْكِتَابِ طَوْعًا فِي صِحَّةٍ مِنْهُ وَجَوَازِ أَمْرٍ مِنْهُ بَعْدَ أَنْ قُرِئَ ذَلِكَ كُلُّهُ عَلَيْهِ بِمَحْضَرٍ مِنَ الشُّهُودِ الْمُسَمِّينَ فِيهِ فَأَقَرَّ عِنْدَهُمْ أَنَّهُ قَدْ سَمِعَهُ وَفَهِمَهُ وَعَرَفَهُ وَأَشْهَدَ اللَّهَ عَلَيْهِ وَكَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا ثُمَّ مَنْ حَضَرَهُ مِنَ الشُّهُودِ عَلَيْهِ أَقَرَّ فُلاَنٌ الصَّقَلِّيُّ الطَّبَّاخُ فِي صِحَّةٍ مِنْ عَقْلِهِ وَبَدَنِهِ أَنَّ جَمِيعَ مَا فِي هَذَا الْكِتَابِ حَقٌّ عَلَى مَا سُمِّيَ وَوُصِفَ فِيهِ.
یہ تحریر (معاہدہ) ہے جس کو فلاں بن فلاں بن فلاں نے لکھا ہے اپنے اس غلام کے لیے جو (صیقل گر) نان بائی اور باورچی ہے، جس کا نام فلاں ہے اور وہ آج تک میری ملکیت اور تصرف میں ہے کہ میں نے تجھ کو مدبر (یعنی اپنی موت کے بعد آزاد) کیا اللہ کی رضا مندی اور اس کے ثواب کی امید سے، تو تم میرے مرنے کے بعد آزاد ہو، میرے مرنے کے بعد کسی کا تم پر کوئی اختیار نہیں سوائے ولاء (وارث) کے، اس لیے کہ وہ میرے لیے ہے اور میرے مرنے کے بعد میرے وارثین کے لیے ہے۔ فلاں بن فلاں نے اقرار کیا کہ جو کچھ اس تحریر میں لکھا ہے وہ اپنی خوشی سے صحت اور تصرف کے نافذ ہونے کی حالت میں لکھا گیا ہے۔ جب یہ تحریر اس عہد نامہ میں مذکور گواہ لوگوں کے سامنے پڑھی گئی تو اس نے اس کا اقرار کیا کہ میں نے اس کو سنا اور سمجھا اور جانا اور میں اس پر اللہ کو گواہ بناتا ہوں اور اللہ گواہی کے لیے کافی ہے پھر وہ لوگ گواہ ہیں جو حاضر ہیں۔ فلاں «صیقل گر» باورچی نے اپنی درستی عقل اور جسمانی صحت کی حالت میں اس کا اقرار کیا کہ جو کچھ اس میں ذکر کیا گیا وہ سب ٹھیک اور درست ہے۔ [سنن نسائي/كتاب المزارعة/حدیث: Q3971-2]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «t»
0. بَابُ: عِتْقٍ
0. باب: غلام کی آزادی کی دستاویز۔
هَذَا كِتَابٌ كَتَبَهُ فُلاَنُ بْنُ فُلاَنٍ طَوْعًا فِي صِحَّةٍ مِنْهُ وَجَوَازِ أَمْرٍ وَذَلِكَ فِي شَهْرِ كَذَا مِنْ سَنَةِ كَذَا لِفَتَاهُ الرُّومِيِّ الَّذِي يُسَمَّى فُلاَنًا وَهُوَ يَوْمَئِذٍ فِي مِلْكِهِ وَيَدِهِ إِنِّي أَعْتَقْتُكَ تَقَرُّبًا إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَابْتِغَاءً لِجَزِيلِ ثَوَابِهِ عِتْقًا بَتًّا لاَ مَثْنَوِيَّةَ فِيهِ وَلاَ رَجْعَةَ لِي عَلَيْكَ فَأَنْتَ حُرٌّ لِوَجْهِ اللَّهِ وَالدَّارِ الآخِرَةِ لاَ سَبِيلَ لِي وَلاَ لأَحَدٍ عَلَيْكَ إِلاَّ الْوَلاَءَ فَإِنَّهُ لِي وَلِعَصَبَتِي مِنْ بَعْدِي.
یہ وہ تحریر ہے جس کو فلاں بن فلاں نے اپنی خوشی سے صحت اور تصرف نافذ ہونے کی حالت میں لکھا ہے، فلاں سال کے فلاں مہینے میں اپنے اس رومی غلام کے لیے جس کا نام فلاں ہے اور وہ آج تک اس کی ملکیت اور تصرف میں ہے کہ میں نے تم کو اللہ کا قرب حاصل کرنے اور اس کا بڑا ثواب چاہنے کے لیے آزاد کیا، ایسی قطعی آزادی جو غیر مشروط ہے، میرے لیے رجوع کا کوئی حق باقی نہیں رہا، اب اللہ کے واسطے اور ثواب آخرت کے لیے تم آزاد ہو، اب میرا اور کسی کا بھی تم پر کوئی اختیار نہیں سوائے حق ولاء (وراثت) کے کیونکہ وہ میرا ہے اور میرے بعد میرے عصبات کا ہے۔ [سنن نسائي/كتاب المزارعة/حدیث: Q3971]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «t»