عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رمضان سے پہلے روزہ مت رکھو، چاند دیکھ کر روزہ رکھو، اور (چاند) دیکھ کر (روزہ) بند کرو، (پس) اگر چاند سے ورے بادل حائل ہو جائے تو تیس (دن) پورے کرو“۔ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2132]
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کھائی کہ ایک ماہ (تک) اپنی بیویوں کے پاس نہیں جائیں گے، چنانچہ آپ انتیس دن ٹھہرے رہے، تو میں نے عرض کیا: کیا آپ نے ایک مہینے کی قسم نہیں کھائی تھی؟ میں نے شمار کیا ہے، ابھی انتیس دن (ہوئے) ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے“۔ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2133]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الصیام 4 (1083)، والطلاق 5 (1479)، سنن الترمذی/تفسیر سورة التحریم (3318)، (تحفة الأشراف: 16635)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الطلاق 24 (2059)، مسند احمد 6/163 (صحیح)»
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں: مجھے برابر اس بات کا اشتیاق رہا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان دونوں بیویوں کے بارے میں پوچھوں جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ: «إن تتوبا إلى اللہ فقد صغت قلوبكما»”اگر تم دونوں اللہ تعالیٰ سے توبہ کر لو (تو بہتر ہے) یقیناً تمہارے دل جھک پڑے ہیں“(التحریم: ۴) میں کیا ہے، پھر پوری حدیث بیان کی، اس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں سے انتیس راتوں تک اس بات کی وجہ سے جو حفصہ رضی اللہ عنہا نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے ظاہر کر دی تھی کنارہ کشی اختیار کر لی، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: آپ نے اپنی اس ناراضگی کی وجہ سے جو آپ کو اپنی عورتوں سے اس وقت ہوئی تھی جب اللہ تعالیٰ نے ان کی بات آپ کو بتلائی یہ کہہ دیا تھا کہ میں ان کے پاس ایک مہینہ تک نہیں جاؤں گا، تو جب انتیس راتیں گزر گئیں تو آپ سب سے پہلے عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے تو انہوں نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے تو ایک مہینے تک ہمارے پاس نہ آنے کی قسم کھائی تھی، اور ہم نے (ابھی) انتیسویں رات کی (ہی) صبح کی ہے، ہم ایک ایک کر کے اسے گن رہے ہیں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مہینہ انتیس راتوں کا بھی ہوتا ہے“۔ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2134]
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے اور انہوں نے کہا: مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے“۔ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2135]
سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا (ایک) ہاتھ دوسرے ہاتھ پر مارا اور فرمایا: ”مہینہ اس طرح ہے، اس طرح ہے، اور اس طرح ہے“، اور تیسری بار میں ایک انگلی دبا لی ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2137]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الصوم4 (1086)، سنن ابن ماجہ/فیہ8 (1657)، (تحفة الأشراف: 3920)، مسند احمد 1/184 (صحیح)»
سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مہینہ اس طرح ہے، اس طرح ہے اور اس طرح ہے“، یعنی انتیس دن کا بھی ہوتا ہے۔ اسے یحییٰ بن سعید وغیرہ نے اسماعیل سے، انہوں نے محمد بن سعد بن ابی وقاص سے، اور محمد بن سعد نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے۔ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2138]
محمد بن سعد بن ابی وقاص کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مہینہ اس طرح ہے، اس طرح ہے، اور اس طرح ہے“۔ اور محمد بن عبید نے اپنے دونوں ہاتھوں کو تین بار ملا کر بتلایا، پھر تیسری بار میں بائیں ہاتھ کا انگوٹھا بند کر لیا، یحییٰ بن سعید کہتے ہیں: میں نے اسماعیل بن ابی خالد سے «عن أبیہ» کی زیادتی کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا: نہیں۔ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2139]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر حدیث رقم: 2137 (صحیح) (اس سند میں محمد بن سعد بن ابی وقاص نے صحابی کا ذکر نہیں کیا ہے، اس لیے ارسال کی وجہ سے یہ سند ضعیف ہے، لیکن اوپر گزرا کہ محمد بن سعد نے اپنے والد سعد بن ابی وقاص سے یہ حدیث روایت کی ہے، اس لیے اصل حدیث صحیح ہے)»
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مہینہ (کبھی) انتیس دن کا ہوتا ہے، اور (کبھی) تیس دن کا، اور جب تم (چاند) دیکھ لو تو روزہ رکھو اور جب اسے دیکھ لو تو روزہ رکھنا بند کرو، (اور) اگر تم پر بادل چھا جائیں تو (تیس کی) گنتی پوری کرو“۔ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2140]
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے“۔ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2141]