عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ جس وقت مسلمان مدینہ آئے تو وہ جمع ہو کر نماز کے وقت کا اندازہ کرتے تھے، اس وقت کوئی نماز کے لیے اذان نہیں دیتا تھا، تو ایک دن لوگوں نے اس سلسلے میں گفتگو کی، تو کچھ لوگ کہنے لگے: نصاریٰ کے مانند ایک ناقوس بنا لو، اور کچھ لوگ کہنے لگے: بلکہ یہود کے سنکھ کی طرح ایک سنکھ بنا لو، تو اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا تم کسی شخص کو بھیج نہیں سکتے کہ وہ نماز کے لیے پکار دیا کرے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلال! اٹھو اور نماز کے لیے پکارو“۔ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 627]
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ کو اذان دہری اور اقامت اکہری کہنے کا حکم دیا۔ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 628]
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ عہدرسالت میں اذان دہری اور اقامت اکہری تھی، البتہ تم «قد قامت الصلاة، قد قامت الصلاة »(دو بار) کہو۔ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 629]
ابو محذورہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بٹھایا، اور حرفاً حرفاً اذان سکھائی (راوی) ابراہیم کہتے ہیں: وہ ہمارے اس اذان کی طرح تھی، بشر بن معاذ کہتے ہیں کہ میں نے ان سے (ابراہیم سے) کہا کہ میرے اوپر دہراؤ، تو انہوں نے کہا: «اللہ أكبر اللہ أكبر»۲؎ «أشهد أن لا إله إلا اللہ» دو مرتبہ، «أشهد أن محمدا رسول اللہ» دو مرتبہ، پھر اس آواز سے دھیمی آواز میں کہا: وہ اپنے اردگرد والوں کو سنا رہے تھے، «أشهد أن لا إله إلا اللہ» دو بار، «أشهد أن محمدا رسول اللہ» دو بار، «حى على الصلاة» دو بار، «حى على الفلاح» دو بار، «اللہ أكبر اللہ أكبر»، «لا إله إلا اللہ»“۔ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 630]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الصلاة 28 (500، 501، 503، 505)، سنن الترمذی/الصلاة 26 (191) مختصراً، سنن ابن ماجہ/الأذان 2 (708)، مسند احمد 2/ 408، 409، سنن الدارمی/الصلاة 7 (1232)، (تحفة الأشراف: 12169)، ویأتي عند المؤلف: (633) (منکر) (یہ حدیث ابو محذورہ سے مروی دیگر روایات کے بر خلاف ہے جس میں اس بات کی صراحت ہے کہ اذان کے کلمات (19) ہیں، دیکھیں اگلی روایات)»
قال الشيخ الألباني: منكر مخالف للروايات الأخرى عن أبي محذورة
ابو محذورہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اذان کے انیس کلمے ہیں، اور اقامت کے سترہ کلمے“، پھر ابومحذورۃ رضی اللہ عنہ نے انیس اور سترہ کلموں کو گن کر بتایا ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 631]
ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اذان سکھائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” «اللہ أكبر اللہ أكبر»، «اللہ أكبر اللہ أكبر»، «أشهد أن لا إله إلا اللہ»، «أشهد أن لا إله إلا اللہ»، «أشهد أن محمدا رسول اللہ»، «أشهد أن محمدا رسول اللہ»“ پھر آپ لوٹتے اور کہتے: «أشهد أن لا إله إلا اللہ»، «أشهد أن لا إله إلا اللہ»، «أشهد أن محمدا رسول اللہ»، «أشهد أن محمدا رسول اللہ»، «حى على الصلاة»، «حى على الصلاة»، «حى على الفلاح»، «حى على الفلاح»، «اللہ أكبر اللہ أكبر»، «لا إله إلا اللہ» ۔ ”اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں، نماز کے لیے آؤ، نماز کے لیے آؤ، کامیابی کی طرف آؤ، کامیابی کی طرف آؤ، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں“۔ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 632]
عبداللہ بن محیریز جو ابومحذورہ کے زیر پرورش ایک یتیم کے طور پر رہے تھے یہاں تک کہ انہوں نے ان کے شام کے سفر کے لیے سامان تیار کیا) کہتے ہیں کہ میں نے ابو محذورہ رضی اللہ عنہ سے کہا: میں شام جا رہا ہوں، اور میں ڈرتا ہوں کہ آپ کی اذان کے متعلق مجھ سے کہیں سوال کیا جائے (اور میں جواب نہ دے پاؤں، اس لیے مجھے اذان سکھا دو)، تو آپ نے کہا: میں چند لوگوں کے ساتھ نکلا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حنین سے لوٹتے وقت ہم حنین کے راستہ میں تھے، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے راستے میں ملے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مؤذن نے نماز کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (ہی) اذان دی، ہم نے مؤذن کی آواز سنی، تو ہم اس کی نقل اتارنے، اور اس کا مذاق اڑانے لگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آواز سنی تو ہمیں بلوایا تو ہم آ کر آپ کے سامنے کھڑے ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”میں نے (ابھی) تم میں سے کس کی آواز سنی ہے؟“ تو لوگوں نے میری جانب اشارہ کیا، اور انہوں نے سچ کہا تھا، آپ نے ان سب کو چھوڑ دیا، اور مجھے روک لیا اور فرمایا: ”اٹھو اور نماز کے لیے اذان دو، تو میں اٹھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بذات خود مجھے اذان سکھائی، آپ نے فرمایا: کہو: «اللہ أكبر اللہ أكبر»، «اللہ أكبر اللہ أكبر»، «اللہ أكبر اللہ أكبر»، «اللہ أكبر اللہ أكبر»، «أشهد أن لا إله إلا اللہ»، «أشهد أن لا إله إلا اللہ»، «أشهد أن محمدا رسول اللہ»، «أشهد أن محمدا رسول اللہ»، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دوبارہ اپنی آواز کھینچو (بلند کرو)“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہو! «أشهد أن لا إله إلا اللہ»، «أشهد أن لا إله إلا اللہ»، «أشهد أن محمدا رسول اللہ»، «أشهد أن محمدا رسول اللہ»، «حى على الصلاة»، «حى على الصلاة»، «حى على الفلاح»، «حى على الفلاح»، «اللہ أكبر اللہ أكبر»، «لا إله إلا اللہ»، پھر جس وقت میں نے اذان پوری کر لی تو آپ نے مجھے بلایا، اور ایک تھیلی دی جس میں کچھ چاندی تھی، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے مکہ میں اذان دینے پر مامور فرما دیجئیے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے تمہیں اس کے لیے مامور کر دیا“، چنانچہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عامل عتاب بن اسید رضی اللہ عنہ کے پاس مکہ آیا تو میں نے ان کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے نماز کے لیے اذان دی۔ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 633]
ابومحذورہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حنین سے نکلے تو میں (بھی) نکلا، میں اہل مکہ کا دسواں شخص تھا، ہم انہیں تلاش کر رہے تھے تو ہم نے انہیں نماز کے لیے اذان دیتے ہوئے سنا، تو ہم بھی اذان دینے (اور) ان کا مذاق اڑانے لگے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان لوگوں میں سے ایک اچھی آواز والے شخص کی اذان میں نے سنی ہے“ چنانچہ آپ نے ہمیں بلا بھیجا تو یکے بعد دیگرے سبھی لوگوں نے اذان دی، اور میں ان میں سب سے آخری شخص تھا جب میں اذان دے چکا (تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا): ”ادھر آؤ!“ چنانچہ آپ نے مجھے اپنے سامنے بٹھایا، اور میری پیشانی پر (شفقت کا) ہاتھ پھیرا، اور تین بار برکت کی دعائیں دیں، پھر فرمایا: ”جاؤ اور خانہ کعبہ کے پاس اذان دو“(تو) میں نے کہا: کیسے اللہ کے رسول؟ تو آپ نے مجھے اذان سکھائی جیسے تم اس وقت اذان دے رہے ہو: «اللہ أكبر اللہ أكبر»، «اللہ أكبر اللہ أكبر»، «اللہ أكبر اللہ أكبر»، «اللہ أكبر اللہ أكبر»، «أشهد أن لا إله إلا اللہ»، «أشهد أن لا إله إلا اللہ»، «أشهد أن محمدا رسول اللہ»، «أشهد أن محمدا رسول اللہ»(پھر دوبارہ) «أشهد أن لا إله إلا اللہ»، «أشهد أن لا إله إلا اللہ»، «أشهد أن محمدا رسول اللہ»، «أشهد أن محمدا رسول اللہ»، «حى على الصلاة»، «حى على الصلاة»، «حى على الفلاح»، «حى على الفلاح»، «اللہ أكبر اللہ أكبر»، «لا إله إلا اللہ»، اور فجر میں «الصلاة خير من النوم»، «الصلاة خير من النوم»”نماز نیند سے بہتر ہے، نماز نیند سے بہتر ہے“ کہا، (اور) کہا: مجھے آپ نے اقامت دہری سکھائی: «اللہ أكبر اللہ أكبر»، «اللہ أكبر اللہ أكبر»، «أشهد أن لا إله إلا اللہ»، «أشهد أن لا إله إلا اللہ»، «أشهد أن محمدا رسول اللہ»، «أشهد أن محمدا رسول اللہ»، «حى على الصلاة»، «حى على الصلاة»، «حى على الفلاح»، «حى على الفلاح»، «قد قامت الصلاة»، «قد قامت الصلاة»، «اللہ أكبر اللہ أكبر»، «لا إله إلا اللہ» ۔ ابن جریج کہتے ہیں کہ یہ پوری حدیث مجھے عثمان نے بتائی، وہ اسے اپنے والد اور عبدالملک بن ابی محذورہ رضی اللہ عنہ کی ماں دونوں کے واسطہ سے روایت کر رہے تھے کہ ان دونوں نے اسے ابومحذورہ رضی اللہ عنہ سے سنی ہے۔ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 634]
مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اور میرے ایک چچا زاد بھائی دونوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے (دوسری بار انہوں نے کہا کہ میں اور میرے ایک ساتھی دونوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم دونوں سفر کرو تو دونوں اذان کہو ۱؎ اور دونوں اقامت کہو، اور جو تم دونوں میں بڑا ہو وہ امامت کرے“۔ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 635]
مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، ہم سب نوجوان اور ہم عمر تھے، ہم نے آپ کے پاس بیس روز قیام کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم رحیم (بہت مہربان) اور نرم دل تھے، آپ نے سمجھا کہ ہم اپنے گھر والوں کے مشتاق ہوں گے، تو آپ نے ہم سے پوچھا: ہم اپنے گھروں میں کن کن لوگوں کو چھوڑ کر آئے ہیں؟ ہم نے آپ کو بتایا تو آپ نے فرمایا: ”تم اپنے گھر والوں کے پاس واپس جاؤ، (اور) ان کے پاس رہو، اور (جو کچھ سیکھا ہے اسے) ان لوگوں کو بھی سیکھاؤ، اور جب نماز کا وقت آ پہنچے تو انہیں حکم دو کہ تم میں سے کوئی ایک اذان کہے، اور تم میں سے جو بڑا ہو وہ امامت کرے“۔ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 636]