جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز کے اوقات کے بارے میں پوچھا، تو آپ نے فرمایا: ”تم میرے ساتھ نماز پڑھو“، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر اس وقت پڑھائی جب سورج ڈھل گیا، اور عصر اس وقت پڑھائی جب ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہو گیا، اور مغرب اس وقت پڑھائی جب سورج ڈوب گیا، اور عشاء اس وقت پڑھائی جب شفق غائب ہو گئی، پھر (دوسرے دن) ظہر اس وقت پڑھائی جب انسان کا سایہ اس کے برابر ہو گیا، اور عصر اس وقت پڑھائی جب انسان کا سایہ اس کے قد کے دوگنا ہو گیا، اور مغرب شفق غائب ہونے سے کچھ پہلے پڑھائی۔ عبداللہ بن حارث کہتے ہیں: پھر انہوں نے عشاء کے سلسلہ میں کہا: میرا خیال ہے اس کا وقت تہائی رات تک ہے۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 505]
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر پڑھی، اور دھوپ ان کے حجرے میں تھی، اور سایہ ان کے حجرے سے (دیوار پر) نہیں چڑھا تھا۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 506]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/المواقیت 1 (522)، 13 (545)، الخمس 4 (3103)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/فیہ 6 (159)، (تحفة الأشراف: 16585)، موطا امام مالک/وقوت الصلاة 1 (2) (صحیح)»
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر پڑھتے تھے، پھر جانے والا قباء جاتا، زہری اور اسحاق دونوں میں سے ایک کی روایت میں ہے تو وہ ان کے پاس پہنچتا اور وہ لوگ نماز پڑھ رہے ہوتے، اور دوسرے کی روایت میں ہے: اور سورج بلند ہوتا۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 507]
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر پڑھتے اور سورج بلند اور تیز ہوتا، اور جانے والا (نماز پڑھ کر) عوالی جاتا، اور سورج بلند ہوتا۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 508]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «وقد أخرجہ عن طریق شعیب عن الزہری: صحیح مسلم/المساجد 34 (621)، سنن ابی داود/الصلاة 5 (404)، سنن ابن ماجہ/فیہ 5 (682)، (تحفة الأشراف: 1522)، مسند احمد 3/ 223 (صحیح)»
ابوامامہ بن سہل کہتے ہیں: ہم نے عمر بن عبدالعزیز کے ساتھ ظہر پڑھی پھر ہم نکلے، یہاں تک کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، تو ہم نے انہیں عصر پڑھتے ہوئے پایا، تو میں نے پوچھا: میرے چچا! آپ نے یہ کون سی نماز پڑھی ہے؟ انہوں نے کہا: عصر کی، یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ہے جسے ہم لوگ پڑھتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 510]
ابوسلمہ کہتے ہیں کہ ہم نے عمر بن عبدالعزیز کے عہد میں نماز پڑھی، پھر انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو انہیں (بھی) نماز پڑھتے ہوئے پایا، جب وہ نماز پڑھ کر پلٹے تو انہوں نے ہم سے پوچھا: تم نماز پڑھ چکے ہو؟ ہم نے کہا: (ہاں) ہم نے ظہر پڑھ لی ہے، انہوں نے کہا: میں نے تو عصر پڑھی ہے، تو لوگوں نے ان سے کہا: آپ نے جلدی پڑھ لی، انہوں نے کہا: میں اسی طرح پڑھتا ہوں جیسے میں نے اپنے اصحاب کو پڑھتے دیکھا ہے۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 511]
علاء کہتے ہیں کہ وہ جس وقت ظہر پڑھ کر پلٹے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس بصرہ میں ان کے گھر گئے، اور ان کا گھر مسجد کے بغل میں تھا، تو جب ہم لوگ ان کے پاس آئے تو انہوں نے پوچھا: کیا تم لوگوں نے عصر پڑھ لی؟ ہم نے کہا: نہیں، ہم لوگ ابھی ظہر پڑھ کر پلٹے ہیں، تو انہوں نے کہا: تو عصر پڑھ لو، ہم لوگ کھڑے ہوئے اور ہم نے عصر پڑھی، جب ہم پڑھ چکے تو انس رضی اللہ عنہ کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”یہ منافق کی نماز ہے کہ بیٹھا عصر کا انتظار کرتا رہے یہاں تک کہ جب سورج شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان ہو جائے، (غروب کے قریب ہو جائے) تو اٹھے اور چار ٹھونگیں مار لے، اور اس میں اللہ کا ذکر معمولی سا کرے“۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 512]
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص کی عصر فوت گئی گویا اس کا گھربار لٹ گیا“۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 513]
أخبرنا قتيبة عن مالك عن نافع عن ابن عمر - رضى الله عنهما - أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال " الذي تفوته صلاة العصر فكأنما وتر أهله وماله " .
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص کی عصر فوت گئی گویا اس کا گھربار لٹ گیا“۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 513M]