ہم سے سعید بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے شقیق نے اور ان سے ابومسعود انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ہمیں صدقہ کرنے کا حکم دیا تو ہم میں سے بہت سے بازار جا کر بوجھ اٹھانے کی مزدوری کرتے اور اس طرح ایک مد (غلہ یا کھجور وغیرہ) حاصل کرتے۔ (جسے صدقہ کر دیتے) لیکن آج ہم میں سے بہت سوں کے پاس لاکھ لاکھ (درہم یا دینار) موجود ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الزَّكَاة/حدیث: 1416]
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا اور ان سے ابواسحاق عمرو بن عبداللہ سبیعی نے کہا کہ میں نے عبداللہ بن معقل سے سنا ‘ انہوں نے کہا کہ میں نے عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے سنا کہ جہنم سے بچو اگرچہ کھجور کا ایک ٹکڑا دے کر ہی سہی (مگر ضرور صدقہ کر کے دوزخ کی آگ سے بچنے کی کوشش کرو)۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الزَّكَاة/حدیث: 1417]
ہم سے بشر بن محمد نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی ‘ کہا کہ ہمیں معمر نے زہری سے خبر دی ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن ابی بکر بن حزم نے بیان کیا ‘ ان سے عروہ بن زبیر نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ ایک عورت اپنی دو بچیوں کو لیے مانگتی ہوئی آئی۔ میرے پاس ایک کھجور کے سوا اس وقت اور کچھ نہ تھا میں نے وہی دے دی۔ وہ ایک کھجور اس نے اپنی دونوں بچیوں میں تقسیم کر دی اور خود نہیں کھائی۔ پھر وہ اٹھی اور چلی گئی۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا حال بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے ان بچیوں کی وجہ سے خود کو معمولی سی بھی تکلیف میں ڈالا تو بچیاں اس کے لیے دوزخ سے بچاؤ کے لیے آڑ بن جائیں گی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الزَّكَاة/حدیث: 1418]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
11. بَابُ أَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ:
11. باب: تندرستی اور مال کی خواہش کے زمانہ میں صدقہ دینے کی فضیلت۔
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے «وأنفقوا مما رزقناكم من قبل أن يأتي أحدكم الموت»”اور اس میں سے خرچ کرو جو ہم نے تمہیں دیا ہے، اس سے پہلے کہ تم میں سے کسی کو موت آ جائے“ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان «يا أيها الذين آمنوا أنفقوا مما رزقناكم من قبل أن يأتي يوم لا بيع فيه»”اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اس میں سے خرچ کرو جو ہم نے تمہیں دیا ہے، اس سے پہلے کہ وہ دن آئے جس میں نہ کوئی خرید و فروخت ہو گی۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الزَّكَاة/حدیث: Q1419]
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے عمارہ بن قعقاع نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے ابوزرعہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ یا رسول اللہ! کس طرح کے صدقہ میں سب سے زیادہ ثواب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس صدقہ میں جسے تم صحت کے ساتھ بخل کے باوجود کرو۔ تمہیں ایک طرف تو فقیری کا ڈر ہو اور دوسری طرف مالدار بننے کی تمنا اور امید ہو اور (اس صدقہ خیرات میں) ڈھیل نہ ہونی چاہیے کہ جب جان حلق تک آ جائے تو اس وقت تو کہنے لگے کہ فلاں کے لیے اتنا اور فلاں کے لیے اتنا حالانکہ وہ تو اب فلاں کا ہو چکا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الزَّكَاة/حدیث: 1419]
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے ابوعوانہ وضاح یشکری نے بیان کیا ‘ ان سے فراس بن یحییٰ نے ان سے شعبی نے، ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض بیویوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ سب سے پہلے ہم میں آخرت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کون جا کر ملے گی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کا ہاتھ سب سے زیادہ لمبا ہو گا۔ اب ہم نے لکڑی سے ناپنا شروع کر دیا تو سودہ رضی اللہ عنہا سب سے لمبے ہاتھ والی نکلیں۔ ہم نے بعد میں سمجھا کہ لمبے ہاتھ والی ہونے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد صدقہ زیادہ کرنے والی سے تھی۔ اور سودہ رضی اللہ عنہا ہم سب سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جا کر ملیں ‘ صدقہ کرنا آپ رضی اللہ عنہا کو بہت محبوب تھا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الزَّكَاة/حدیث: 1420]
اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ البقرہ میں) فرمایا «الذين ينفقون أموالهم بالليل والنهار سرا وعلانية»”جو لوگ اپنے مال خرچ کرتے ہیں رات میں اور دن میں پوشیدہ طور پر اور ظاہر ‘ ان سب کا ان کے رب کے پاس ثواب ملے گا ‘ انہیں کوئی ڈر نہیں ہو گا اور نہ انہیں کسی قسم کا غم ہو گا۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الزَّكَاة/حدیث: Q1421-2]
اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا کہ”ایک شخص نے صدقہ کیا اور اسے اس طرح چھپایا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو خبر نہیں ہوئی کہ داہنے ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے“ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”اگر تم صدقہ کو ظاہر کر دو تو یہ بھی اچھا ہے اور اگر پوشیدہ طور پر دو اور دو فقراء کو تو یہ بھی تمہارے لیے بہتر ہے اور تمہارے گناہ مٹا دے گا اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح خبردار ہے۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الزَّكَاة/حدیث: Q1421]
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی ‘ کہا کہ ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا ‘ ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک شخص نے (بنی اسرائیل میں سے) کہا کہ مجھے ضرور صدقہ (آج رات) دینا ہے۔ چنانچہ وہ اپنا صدقہ لے کر نکلا اور (ناواقفی سے) ایک چور کے ہاتھ میں رکھ دیا۔ صبح ہوئی تو لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ آج رات کسی نے چور کو صدقہ دے دیا۔ اس شخص نے کہا کہ اے اللہ! تمام تعریف تیرے ہی لیے ہے۔ (آج رات) میں پھر ضرور صدقہ کروں گا۔ چنانچہ وہ دوبارہ صدقہ لے کر نکلا اور اس مرتبہ ایک فاحشہ کے ہاتھ میں دے آیا۔ جب صبح ہوئی تو پھر لوگوں میں چرچا ہوا کہ آج رات کسی نے فاحشہ عورت کو صدقہ دے دیا۔ اس شخص نے کہا اے اللہ! تمام تعریف تیرے ہی لیے ہے ‘ میں زانیہ کو اپنا صدقہ دے آیا۔ اچھا آج رات پھر ضرور صدقہ نکالوں گا۔ چنانچہ اپنا صدقہ لیے ہوئے وہ پھر نکلا اور اس مرتبہ ایک مالدار کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ صبح ہوئی تو لوگوں کی زبان پر ذکر تھا کہ ایک مالدار کو کسی نے صدقہ دے دیا ہے۔ اس شخص نے کہا کہ اے اللہ! حمد تیرے ہی لیے ہے۔ میں اپنا صدقہ (لاعلمی سے) چور ‘ فاحشہ اور مالدار کو دے آیا۔ (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) بتایا گیا کہ جہاں تک چور کے ہاتھ میں صدقہ چلے جانے کا سوال ہے۔ تو اس میں اس کا امکان ہے کہ وہ چوری سے رک جائے۔ اسی طرح فاحشہ کو صدقہ کا مال مل جانے پر اس کا امکان ہے کہ وہ زنا سے رک جائے اور مالدار کے ہاتھ میں پڑ جانے کا یہ فائدہ ہے کہ اسے عبرت ہو اور پھر جو اللہ عزوجل نے اسے دیا ہے ‘ وہ خرچ کرے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الزَّكَاة/حدیث: 1421]
ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم اسرائیل بن یونس نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے ابوجویریہ (حطان بن خفاف) نے بیان کیا کہ معن بن یزید نے ان سے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ میں نے اور میرے والد اور دادا (اخفش بن حبیب) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ آپ نے میری منگنی بھی کرائی اور آپ ہی نے نکاح بھی پڑھایا تھا اور میں آپ کی خدمت میں ایک مقدمہ لے کر حاضر ہوا تھا۔ وہ یہ کہ میرے والد یزید نے کچھ دینار خیرات کی نیت سے نکالے اور ان کو انہوں نے مسجد میں ایک شخص کے پاس رکھ دیا۔ میں گیا اور میں نے ان کو اس سے لے لیا۔ پھر جب میں انہیں لے کر والد صاحب کے پاس آیا تو انہوں نے فرمایا کہ قسم اللہ کی میرا ارادہ تجھے دینے کا نہیں تھا۔ یہی مقدمہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے کر حاضر ہوا اور آپ نے یہ فیصلہ دیا کہ دیکھو یزید جو تم نے نیت کی تھی اس کا ثواب تمہیں مل گیا اور معن! جو تو نے لے لیا وہ اب تیرا ہو گیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الزَّكَاة/حدیث: 1422]