سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے نماز فجر پڑھی وہ اللہ تعالیٰ کی امان (پناہ) میں ہے“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 3946]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4578، ومصباح الزجاجة: 1384)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/10) (ضعیف)» (حسن بصری نے سمرہ رضی اللہ عنہ سے صرف حدیث عقیقہ سنی ہے، اس لئے اس سند میں انقطاع ہے)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن اللہ عزوجل کے نزدیک اس کے بعض فرشتوں سے زیادہ معزز و محترم ہے“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 3947]
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص گمراہی کے جھنڈے تلے لڑے، عصبیت کی دعوت دے، اور عصبیت کے سبب غضب ناک ہو، اس کی موت جاہلیت کی موت ہو گی“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 3948]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الإمارة 13 (1848)، سنن النسائی/تحریم الدم 24 (4119)، (تحفة الأشراف: 12902)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/296، 306، 488) (صحیح)»
فسیلہ نامی ایک عورت کہتی ہے کہ میں نے اپنے والد کو یہ کہتے سنا کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اے اللہ کے رسول! کیا اپنی قوم سے محبت رکھنا عصبیت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، بلکہ ظلم پر قوم کی مدد کرنا عصبیت ہے“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 3949]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11757، ومصباح الزجاجة: 1386)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الأدب 121 (5119) مختصراً (ضعیف)» (سند میں عباد بن کثیر اور فسیلہ ضعیف ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
8. بَابُ: السَّوَادِ الأَعْظَمِ
8. باب: سواد اعظم (بڑی جماعت کے ساتھ رہنے) کا بیان۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”میری امت گمراہی پر کبھی جمع نہ ہو گی، لہٰذا جب تم اختلاف دیکھو تو سواد اعظم (یعنی بڑی جماعت) کو لازم پکڑو“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 3950]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 1715، ومصباح الزجاجة: 1387) (ضعیف جدا)» (ابو خلف الاعمی حازم بن عطاء متروک اور کذاب ہے، اور معان ضعیف، لیکن حدیث کا پہلا جملہ صحیح ہے)
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن بہت لمبی نماز پڑھائی، پھر جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو ہم نے (یا لوگوں نے) عرض کیا: اللہ کے رسول! آج تو آپ نے نماز بہت لمبی پڑھائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، آج میں نے رغبت اور خوف والی نماز ادا کی، میں نے اللہ تعالیٰ سے اپنی امت کے لیے تین باتیں طلب کیں جن میں سے اللہ تعالیٰ نے دو عطا فرما دیں اور ایک قبول نہ فرمائی، میں نے اللہ تعالیٰ سے یہ طلب کیا تھا کہ میری امت پر اغیار میں سے کوئی دشمن مسلط نہ ہو، تو اللہ تعالیٰ نے مجھے اسے دیا، دوسری چیز میں نے اللہ تعالیٰ سے یہ طلب کی تھی کہ میری امت کو غرق کر کے ہلاک نہ کیا جائے، اللہ تعالیٰ نے اسے بھی مجھے دیا، تیسری یہ دعا کی تھی کہ میری امت آپس میں جنگ و جدال نہ کرے، تو اللہ تعالیٰ نے میری یہ دعا قبول نہ فرمائی“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 3951]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11326، ومصباح الزجاجة: 1388)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/240) (صحیح) (تراجع الألبانی: رقم: 406)»
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے لیے زمین سمیٹ دی گئی حتیٰ کہ میں نے اس کے مشرق اور مغرب کو دیکھ لیا، پھر اس کے دونوں خزانے زرد یا سرخ اور سفید (یعنی سونا اور چاندی بھی) مجھے دئیے گئے ۱؎ اور مجھ سے کہا گیا کہ تمہاری (امت کی) حکومت وہاں تک ہو گی جہاں تک زمین تمہارے لیے سمیٹی گئی ہے، اور میں نے اللہ تعالیٰ سے تین باتوں کا سوال کیا: پہلی یہ کہ میری امت قحط (سوکھے) میں مبتلا ہو کر پوری کی پوری ہلاک نہ ہو، دوسری یہ کہ انہیں ٹکڑے ٹکڑے نہ کر، تیسری یہ کہ آپس میں ایک کو دوسرے سے نہ لڑا، تو مجھ سے کہا گیا کہ میں جب کوئی حکم نافذ کر دیتا ہوں تو وہ واپس نہیں ہو سکتا، بیشک میں تمہاری امت کو قحط سے ہلاک نہ کروں گا، اور میں زمین کے تمام کناروں سے سارے مخالفین کو (ایک وقت میں) ان پر جمع نہ کروں گا جب تک کہ وہ خود آپس میں اختلاف و لڑائی اور ایک دوسرے کو مٹانے اور قتل نہ کرنے لگیں، لیکن جب میری امت میں تلوار چل پڑے گی تو وہ قیامت تک نہ رکے گی، مجھے اپنی امت پر سب سے زیادہ خوف گمراہ سربراہوں کا ہے، عنقریب میری امت کے بعض قبائل بتوں کی پرستش کریں گے، اور عنقریب میری امت کے بعض قبیلے مشرکوں سے مل جائیں گے، اور قیامت کے قریب تقریباً تیس جھوٹے دجال پیدا ہوں گے جن میں سے ہر ایک کا دعویٰ یہ ہو گا کہ وہ اللہ کا نبی ہے، اور میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا، اور ہمیشہ ان کی مدد ہوتی رہے گی، اور جو کوئی ان کا مخالف ہو گا وہ ان کو کوئی ضرور نقصان نہیں پہنچا سکے گا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا حکم آ جائے ۲؎۔ ابوالحسن ابن القطان کہتے ہیں: جب ابوعبداللہ (یعنی امام ابن ماجہ) اس حدیث کو بیان کر کے فارغ ہوئے تو فرمایا: یہ حدیث کتنی ہولناک ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 3952]
ام المؤمنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نیند سے بیدار ہوئے تو آپ کا مبارک چہرہ سرخ تھا، اور آپ فرما رہے تھے: ” «لا إله إلا الله» عرب کے لیے تباہی ہے اس فتنے سے جو قریب آ گیا ہے، آج یاجوج و ماجوج کی دیوار میں اتنا سوراخ ہو گیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ کی انگلیوں سے دس کی گرہ بنائی“۱؎، زینب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ہم ہلاک ہو جائیں گے؟ حالانکہ ہم میں اچھے لوگ بھی موجود ہیں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، جب معصیت (برائی) عام ہو جائے گی“۲؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 3953]
ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عنقریب کئی فتنے ظاہر ہوں گے، جن میں آدمی صبح کو مومن ہو گا، اور شام کو کافر ہو جائے گا مگر جسے اللہ تعالیٰ علم کے ذریعہ زندہ رکھے“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 3954]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4916، ومصباح الزجاجة: 1389)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/المقدمة 32 (350) (ضعیف جداً)» (سند میں علی بن یزید منکر الحدیث اور متروک ہے، علم کے جملہ کے بغیر اصل متن صحیح ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 3696)
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا وهو صحيح دون جملة العلم
حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اتنے میں آپ نے کہا کہ تم میں سے کس کو فتنہ کے باب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث یاد ہے؟ حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: مجھ کو یاد ہے، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تم بڑے جری اور نڈر ہو، پھر بولے: وہ (حدیث) کیسے ہے؟ تو انہوں نے کہا: میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”آدمی کے لیے جو فتنہ اس کے اہل و عیال، اولاد اور پڑوسی میں ہوتا ہے اسے نماز، روزہ، صدقہ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر مٹا دیتے ہیں، (یہ سن کر) عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میری یہ مراد نہیں ہے، بلکہ میری مراد وہ فتنہ ہے جو سمندر کی موج کی طرح امنڈ آئے گا، انہوں نے کہا: امیر المؤمنین! آپ کو اس فتنے سے کیا سروکار، آپ کے اور اس فتنہ کے درمیان تو ایک بند دروازہ ہے، تو انہوں نے پوچھا: کیا وہ دروازہ توڑا جائے گا یا کھولا جائے گا، حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں ؛ بلکہ وہ توڑ دیا جائے گا تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تو پھر وہ کبھی بند ہونے کے قابل نہ رہے گا ۱؎۔ ابووائل شقیق بن سلمہ کہتے ہیں کہ ہم نے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا عمر رضی اللہ عنہ جانتے تھے کہ وہ دروازہ کون ہے؟ جواب دیا: ہاں، وہ ایسے ہی جانتے تھے جیسے یہ جانتے ہیں کہ کل سے پہلے رات ہے، میں نے ان سے ایک ایسی حدیث بیان کی تھی جس میں کوئی دھوکا جھوٹ اور مغالطہٰ نہ تھا، پھر ہمیں خوف محسوس ہوا کہ ہم حذیفہ رضی اللہ عنہ سے یہ سوال کریں کہ اس دروازے سے کون شخص مراد ہے؟ پھر ہم نے مسروق سے کہا: تم ان سے پوچھو، انہوں نے پوچھا تو حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ دروازہ خود عمر رضی اللہ عنہ ہیں (جن کی ذات تمام بلاؤں اور فتنوں کی روک تھی)۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 3955]