ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص لوگوں کا قاضی (فیصلہ کرنے والا) بنایا گیا تو وہ بغیر چھری کے ذبح کر دیا گیا“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2308]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ: (تحفة الأشراف: 12955)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الأقضیة 1 (3571)، سنن الترمذی/الأحکام 1 (1325)، مسند احمد (2/365) (صحیح)»
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے عہدہ قضاء کا مطالبہ کیا، وہ اپنے نفس کے حوالہ کر دیا جاتا ہے، اور جو اس کے لیے مجبور کیا جائے تو اس کے لیے ایک فرشتہ اترتا ہے جو اسے درست بات کی رہنمائی کرتا ہے“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2309]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الأقضیة 1 (3578)، سنن الترمذی/الأحکام 1 (1323)، (تحفة الأشراف: 256)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/118، 220) (ضعیف)» (سند میں عبدالأعلی ضعیف راوی ہے)
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن بھیجا، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ مجھے (قاضی بنا کر) یمن بھیج رہے ہیں، اور میں (جوان) ہوں، لوگوں کے درمیان مجھے فیصلے کرنے ہوں گے، اور میں یہ بھی نہیں جانتا کہ فیصلہ کیا ہوتا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سینہ پر ہاتھ مارا پھر فرمایا: ”اے اللہ! اس کے دل کو ہدایت فرما، اور اس کی زبان کو ثابت رکھ“، پھر اس کے بعد مجھے دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ کرنے میں کبھی کوئی تردد اور شک نہیں ہوا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2310]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10113)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الأقضیة 6 (3582)، سنن الترمذی/الأحکام 5 (1331)، مسند احمد (1/83، 149) (صحیح)» (سند میں ابو البختری سعید بن فیروز کا سماع علی رضی اللہ عنہ سے نہیں ہے، لیکن حدیث شواہد کی بناء پر حسن یا صحیح ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء: 2600، ابوداود: 3582)
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو حاکم بھی لوگوں کے درمیان فیصلے کرتا ہے، وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ ایک فرشتہ اس کی گدی پکڑے ہوئے ہو گا، پھر وہ فرشتہ اپنا سر آسمان کی طرف اٹھائے گا، اگر حکم ہو گا کہ اس کو پھینک دو، تو وہ اسے ایک ایسی کھائی میں پھینک دے گا جس میں وہ چالیس برس تک گرتا چلا جائے گا“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2311]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9566، ومصباح الزجاجة: 813)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/430) (ضعیف)» (سند میں مجالد بن سعید ضعیف راوی ہے)
عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی مدد قاضی (فیصلہ کرنے والے) کے ساتھ اس وقت تک ہوتی ہے جب تک وہ ظلم نہ کرے، جب وہ ظلم کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو اس کے نفس کے حوالے کر دیتا ہے“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2312]
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے دونوں پر اللہ کی لعنت ہے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2313]
عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”جب حاکم فیصلہ اجتہاد سے کرے اور صحیح بات تک پہنچ جائے تو اس کو دہرا اجر ملے گا، اور جب فیصلہ کی کوشش کرے اور اجتہاد میں غلطی کرے، تو اس کو ایک اجر ملے گا“۔ یزید بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے اس حدیث کو ابوبکر بن عمرو بن حزم سے بیان کیا تو انہوں نے کہا: اسی طرح اس کو مجھ سے ابوسلمہ نے بیان کیا ہے، اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2314]
ابوہاشم کہتے ہیں کہ اگر ابن بریدہ کی یہ روایت نہ ہوتی جو انہوں نے اپنے والد (بریدہ رضی اللہ عنہ) سے روایت کی ہے، اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قاضی تین طرح کے ہیں: ان میں سے دو جہنمی ہیں اور ایک جنتی، ایک وہ جس نے حق کو معلوم کیا اور اسی کے مطابق فیصلہ دیا، تو وہ جنت میں جائے گا، دوسرا وہ جس نے لوگوں کے درمیان بغیر جانے بوجھے فیصلہ دیا، تو وہ جہنم میں جائے گا، تیسرا وہ جس نے فیصلہ کرنے میں ظلم کیا (یعنی جان کر حق کے خلاف فیصلہ دیا) تو وہ بھی جہنمی ہو گا“(اگر یہ حدیث نہ ہوتی) تو ہم کہتے کہ جب قاضی فیصلہ کرنے میں اجتہاد کرے تو وہ جنتی ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2315]
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قاضی غصے کی حالت میں دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ نہ کرے“۱؎۔ ہشام کی روایت کے الفاظ ہیں: ”حاکم کے لیے مناسب نہیں کہ وہ غصے کی حالت میں دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ کرے“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2316]
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ میرے پاس جھگڑے اور اختلافات لاتے ہو اور میں تو ایک انسان ہی ہوں، ہو سکتا ہے تم میں سے کوئی اپنی دلیل بیان کرنے میں دوسرے سے زیادہ چالاک ہو، اور میں اسی کے مطابق فیصلہ کرتا ہوں جو تم سے سنتا ہوں، لہٰذا اگر میں کسی کو اس کے بھائی کا کوئی حق دلا دوں تو وہ اس کو نہ لے، اس لیے کہ میں اس کے لیے آگ کا ایک ٹکڑا دلاتا ہوں جس کو وہ قیامت کے دن لے کر آئے گا“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2317]