بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور اس نے آپ سے نماز کے اوقات کے متعلق سوال کیا، تو آپ نے فرمایا: ”آنے والے دو دن ہمارے ساتھ نماز پڑھو، چنانچہ (پہلے دن) جب سورج ڈھل گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا، انہوں نے اذان دی، پھر ان کو حکم دیا تو انہوں نے ظہر کی اقامت کہی ۱؎، پھر ان کو حکم دیا، انہوں نے نماز عصر کی اقامت کہی، اس وقت سورج بلند، صاف اور چمکدار تھا ۲؎، پھر جب سورج ڈوب گیا تو ان کو حکم دیا تو انہوں نے مغرب کی اقامت کہی، پھر جب شفق ۳؎ غائب ہو گئی تو انہیں حکم دیا، انہوں نے عشاء کی اقامت کہی، پھر جب صبح صادق طلوع ہوئی تو انہیں حکم دیا، تو انہوں نے فجر کی اقامت کہی، جب دوسرا دن ہوا تو آپ نے ان کو حکم دیا، تو انہوں نے ظہر کی اذان دی، اور ٹھنڈا کیا اس کو اور خوب ٹھنڈا کیا (یعنی تاخیر کی)، پھر عصر کی نماز اس وقت پڑھائی جب کہ سورج بلند تھا، پہلے روز کے مقابلے میں دیر کی، پھر مغرب کی نماز شفق کے غائب ہونے سے پہلے پڑھائی، اور عشاء کی نماز تہائی رات گزر جانے کے بعد پڑھائی اور فجر کی نماز اجالے میں پڑھائی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز کے اوقات کے بارے میں سوال کرنے والا کہاں ہے؟“، اس آدمی نے کہا: اللہ کے رسول! میں حاضر ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہاری نماز کا وقت ان اوقات کے درمیان ہے جو تم نے دیکھا“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصلاة/حدیث: 667]
ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ وہ عمر بن عبدالعزیز کے گدوں پہ بیٹھے ہوئے تھے، اس وقت عمر بن عبدالعزیز مدینہ منورہ کے امیر تھے، اور ان کے ساتھ عروہ بن زبیر بھی تھے، عمر بن عبدالعزیز نے عصر کی نماز میں کچھ دیر کر دی تو ان سے عروہ نے کہا: سنیے! جبرائیل علیہ السلام آئے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت فرمائی، تو ان سے عمر بن عبدالعزیز نے کہا: عروہ! جو کچھ کہہ رہے ہو سوچ سمجھ کر کہو؟ اس پر عروہ نے کہا کہ میں نے بشیر بن ابی مسعود کو کہتے سنا کہ میں نے اپنے والد ابی مسعود رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے، اور انہوں نے میری امامت کی تو میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی۔۔۔ وہ اپنی انگلیوں سے پانچوں نمازوں کو شمار کر رہے تھے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصلاة/حدیث: 668]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/المواقیت 2 (521)، بدء الخلق 6 (3221)، المغازي 12 (4007)، صحیح مسلم/المساجد 31 (610)، سنن ابی داود/الصلاة 2 (394)، سنن النسائی/المواقیت 1 (495)، (تحفة الأشراف: 9977)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/وقوت الصلاة 1 (1)، مسند احمد (4/120) (صحیح)»
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ مسلمان عورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صبح کی نماز پڑھتیں، پھر اپنے گھروں کو واپس لوٹتیں، لیکن انہیں کوئی پہچان نہیں سکتا تھا، یعنی رات کے آخری حصہ کی تاریکی کے سبب ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصلاة/حدیث: 669]
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کریمہ: «وقرآن الفجر إن قرآن الفجر كان مشهودا»(سورة الإسراء: 78) کی تفسیر میں فرمایا: ”اس میں رات اور دن کے فرشتے حاضر رہتے ہیں“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصلاة/حدیث: 670]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «حدیث عبد اللہ بن مسعود تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3135)، وحدیث أبي ہریرة أخرجہ: سنن الترمذی/الصلاة 47 (215)، التفسیر 18 (3135)، (تحفة الأشراف: 12332)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأذان 31 (648)، صحیح مسلم/المساجد 42 (649)، مسند احمد (2/233) (صحیح)»
مغیث بن سمی کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے ساتھ صبح کی نماز «غلس»(آخر رات کی تاریکی) میں پڑھی، جب انہوں نے سلام پھیرا تو میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہوا، اور ان سے کہا: یہ کیسی نماز ہے؟ انہوں نے کہا: یہ وہ نماز ہے جو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، اور ابوبکرو عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ پڑھتے تھے، لیکن جب عمر رضی اللہ عنہ کو نیزہ مار کر زخمی کر دیا گیا تو عثمان رضی اللہ عنہ نے اسے «اسفار»(اجالے) میں پڑھنا شروع کر دیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصلاة/حدیث: 671]
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صبح کو اچھی طرح روشن کر لیا کرو، اس میں تم کو زیادہ ثواب ہے“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصلاة/حدیث: 672]
ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دوپہر کی نماز جس کو تم ظہر کہتے ہو اس وقت پڑھتے تھے جب سورج ڈھل جاتا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصلاة/حدیث: 674]
خباب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ریت کی گرمی (زمین کی تپش) کی شکایت کی، تو آپ نے ہماری شکایت کو نظر انداز کر دیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصلاة/حدیث: 675]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3512)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/المساجد 33 (619)، سنن النسائی/المواقیت 2 (498) مسند احمد (5/108، 110) (صحیح)»