ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض الموت میں فرمایا: ”میری خواہش یہ ہے کہ میرے پاس میرے صحابہ میں سے کوئی ہوتا“، ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ہم ابوبکر کو نہ بلا دیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے، ہم نے عرض کیا: کیا ہم عمر کو نہ بلا دیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے، ہم نے عرض کیا: کیا ہم عثمان کو نہ بلا دیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں“، تو وہ آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے تنہائی میں باتیں کرنے لگے، اور عثمان رضی اللہ عنہ کا چہرہ بدلتا رہا۔ قیس کہتے ہیں: مجھ سے عثمان رضی اللہ عنہ کے غلام ابوسہلۃ نے بیان کیا کہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے جس دن ان پر حملہ کیا گیا کہا: بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے جو عہد لیا تھا میں اسی کی طرف جا رہا ہوں۔ علی بن محمد نے اپنی حدیث میں: «وأنا صابر عليه» کہا ہے، یعنی: میں اس پر صبر کرنے والا ہوں۔ قیس بن ابی حازم کہتے ہیں: اس کے بعد سب لوگوں کا خیال تھا کہ اس گفتگو سے یہی دن مراد تھا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 113]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 17569، ومصباح الزجاجة: 47)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/المناقب 19 (3711)، مسند احمد (1/58، 69، 5/290، 6/ 214)، مقتصراً علی ما رواہ قیس عن أبي سہلة فقط (صحیح)» (نیز ملاحظہ ہو: تعلیق الشہری علی الحدیث فی مصباح الزجاجة: 46)
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی امّی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”مجھ سے صرف مومن ہی محبت کرے گا، مجھ سے صرف منافق ہی بغض رکھے گا“۔ [سنن ابن ماجه/باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 114]
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”کیا تم اس بات پر خوش نہیں کہ تم میری طرف سے ایسے ہی رہو جیسے ہارون موسیٰ کی طرف سے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 115]
براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حجۃ الوداع کے موقع پر آئے، آپ نے راستے میں ایک جگہ نزول فرمایا اور عرض کیا: «الصلاة جامعة»، یعنی سب کو اکٹھا ہونے کا حکم دیا، پھر علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: ”کیا میں مومنوں کی جانوں کا مومنوں سے زیادہ حقدار نہیں ہوں؟“، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: کیوں نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں ہر مومن کا اس کی جان سے زیادہ حقدار نہیں ہوں؟“، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: کیوں نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ (علی) دوست ہیں اس کے جس کا میں دوست ہوں، اے اللہ! جو علی سے محبت رکھے تو اس سے محبت رکھ، جو علی سے عداوت رکھے تو اس سے عداوت رکھ“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 116]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 1797، ومصباح الزجاجة: 48)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/281) (صحیح)» (لیکن یہ سند ضعیف ہے، اس میں علی بن زید بن جدعان ضعیف ہیں، اور عدی بن ثابت ثقہ ہیں، لیکن تشیع سے مطعون ہیں، لیکن اصل حدیث شواہد کی وجہ صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 1750)
عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں: ابولیلیٰ رات میں علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ بات چیت کیا کرتے تھے، اور علی رضی اللہ عنہ گرمی کے کپڑے جاڑے میں اور جاڑے کے کپڑے گرمی میں پہنا کرتے تھے، ہم نے ابولیلیٰ سے کہا: کاش آپ ان سے اس کا سبب پوچھتے تو بہتر ہوتا، پوچھنے پر علی رضی اللہ عنہ نے (جواباً) کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے غزوہ خیبر کے موقع پر اپنے پاس بلا بھیجا، اس وقت میری آنکھ دکھ رہی تھی، اور (حاضر خدمت ہو کر) میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میری آنکھیں آئی ہوئی ہیں، میں مبتلا ہوں، آپ نے میری آنکھوں میں لعاب دہن لگایا، پھر دعا فرمائی: ”اے اللہ اس سے سردی اور گرمی کو دور رکھ“۔ علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اس دن کے بعد سے آج تک میں نے سردی اور گرمی کو محسوس ہی نہیں کیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں ایسے آدمی کو (جہاد کا قائد بنا کر) بھیجوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے، اور اللہ اور اس کے رسول اس سے محبت کرتے ہیں، اور وہ میدان جنگ سے بھاگنے والا نہیں ہے“۔ لوگ ایسے شخص کو دیکھنے کے لیے گردنیں اونچی کرنے لگے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو بلایا، اور جنگ کا جھنڈا ان کے ہاتھ میں دے دیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 117]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10213، ومصباح الزجاجة: 49)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/99، 133) (حسن)» (اس کی سند میں محمد بن عبد الرحمن بن أبی لیلیٰ شدید سيء الحفظ ہیں، لیکن حدیث طبرانی میں موجود شواہد کی بناء پر حسن ہے، بعض ٹکڑے صحیحین میں بھی ہیں، ملاحظہ ہو: ا لا ٔوسط للطبرانی: 1/127/1، 222/2)
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حسن و حسین جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں، اور ان کے والد ان سے بہتر ہیں“۔ [سنن ابن ماجه/باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 118]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8434، ومصباح الزجاجة: 50) (صحیح)» (اس کی سند میں معلی بن عبدالرحمن ضعیف اور ذاھب الحدیث ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے، جیسا کہ ترمذی اور نسائی نے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 797)
حبشی بن جنادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”علی مجھ سے ہیں، اور میں ان سے ہوں، اور میری طرف سے اس پیغام کو سوائے علی کے کوئی اور پہنچا نہیں سکتا“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 119]
عباد بن عبداللہ کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اللہ کا بندہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بھائی ہوں، اور میں صدیق اکبر ہوں، میرے بعد اس فضیلت کا دعویٰ جھوٹا شخص ہی کرے گا، میں نے سب لوگوں سے سات برس پہلے نماز پڑھی۔ [سنن ابن ماجه/باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 120]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10157، ومصباح الزجاجة: 51) (باطل)» (سند میں عباد بن عبداللہ ضعیف اور متروک ر1وی ہے، اور اس کے بارے میں امام بخاری نے فرمایا: «فيه نظر» اور وہی حدیث کے بطلان کا سبب ہے، امام ذہبی نے فرمایا: یہ حدیث علی رضی اللہ عنہ پر جھوٹ ہے، ملاحظہ ہو: الموضوعات لابن الجوزی: 1/341، وتلخیص المستدرک للذہبی، وتنزیہ الشریعة: 1/386، وشیخ الاسلام ابن تیمیہ وجہودہ فی الحدیث وعلومہ: 310، للدکتور عبد الرحمن الفریوائی)
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے ایک سفر حج میں آئے تو سعد رضی اللہ عنہ ان کے پاس ملنے آئے، لوگوں نے علی رضی اللہ عنہ کا تذکرہ کیا تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ کو نامناسب الفاظ سے یاد کیا، اس پر سعد رضی اللہ عنہ ناراض ہو گئے اور بولے: آپ ایسا اس شخص کی شان میں کہتے ہیں جس کے بارے میں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”جس کا مولیٰ میں ہوں، علی اس کے مولیٰ ہیں“، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے یہ بھی سنا: ”تم (یعنی علی) میرے لیے ویسے ہی ہو جیسے ہارون موسیٰ کے لیے، مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں“، نیز میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”آج میں لڑائی کا جھنڈا ایسے شخص کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے“۔ [سنن ابن ماجه/باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 121]
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ قریظہ پر حملے کے دن فرمایا: ”کون ہے جو میرے پاس قوم (یعنی یہود بنی قریظہ) کی خبر لائے؟، زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ہوں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کون ہے جو میرے پاس قوم کی خبر لائے؟“، زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں، یہ سوال و جواب تین بار ہوا، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر نبی کے حواری (خاص مددگار) ہوتے ہیں، اور میرے حواری (خاص مددگار) زبیر ہیں“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 122]