یعیش بن طخفہ بن قیس غفاری کہتے ہیں کہ میرے والد اصحاب صفہ میں سے تھے تو (ایک بار) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہمارے ساتھ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر چلو“ تو ہم گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عائشہ! ہمیں کھانا کھلاؤ“ وہ دلیا لے کر آئیں تو ہم نے کھایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عائشہ! ہمیں کھانا کھلاؤ“ تو وہ تھوڑا سا حیس ۱؎ لے کر آئیں، قطاۃ پرند کے برابر، تو (اسے بھی) ہم نے کھایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عائشہ! ہم کو پلاؤ“ تو وہ دودھ کا ایک بڑا پیالہ لے کر آئیں، تو ہم نے پیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ہم لوگوں سے) فرمایا: ”تم لوگ چاہو (ادھر ہی) سو جاؤ، اور چاہو تو مسجد چلے جاؤ“ وہ کہتے ہیں: تو میں (مسجد میں) صبح کے قریب اوندھا (پیٹ کے بل) لیٹا ہوا تھا کہ یکایک کوئی مجھے اپنے پیر سے ہلا کر جگانے لگا، اس نے کہا: اس طرح لیٹنے کو اللہ ناپسند کرتا ہے، میں نے (آنکھ کھول کر) دیکھا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ [سنن ابي داود/أَبْوَابُ النَّوْمِ/حدیث: 5040]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابن ماجہ/ المساجد 6 (752)، الأدب 27 (3723)، (تحفة الأشراف: 4991)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/429) (ضعیف)» (سند میں سخت اضطراب ہے، طخفة بن قیس (ف) سے یا طھفہ (ہ) سے، اس کو قیس بن طخفة نیز یعیش بن طخفة ابو تغفة کہتے ہیں، حتی کہ یہ بھی کہا گیا کہ وہ نہیں بلکہ ان کے والد صحابی تھے، لیکن پیٹ کے بل لیٹنے کی ممانعت ثابت ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
104. باب فِي النَّوْمِ عَلَى سَطْحٍ غَيْرِ مُحَجَّرٍ
104. باب: بغیر چہار دیواری کی چھت پر سوئے تو کیسا ہے؟
علی بن شیبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص گھر کی ایسی چھت پر سوئے جس پر پتھر (کی مڈیر) نہ ہو (یعنی کوئی چہار دیواری نہ ہو) تو اس سے (حفاظت کا) ذمہ اٹھ گیا (گرے یا بچے وہ جانے)۔“[سنن ابي داود/أَبْوَابُ النَّوْمِ/حدیث: 5041]
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو بھی مسلمان اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہوا باوضو سوتا ہے پھر رات میں (کسی بھی وقت) چونک کر اٹھتا ہے اور اللہ سے دنیا اور آخرت کی بھلائی کا سوال کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے ضرور دیتا ہے“۔ ثابت بنانی کہتے ہیں: ہمارے پاس ابوظبیہ آئے تو انہوں نے ہم سے معاذ بن جبل کی یہ حدیث بیان کی، جسے وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں۔ ثابت بنانی کہتے ہیں: فلاں شخص نے کہا ۱؎ کہ میں نے اپنی نیند سے بیدار ہوتے وقت کئی بار اس کلمہ کے ۲؎ ادا کرنے کی کوشش کی مگر کہہ نہ سکا ۳؎۔ [سنن ابي داود/أَبْوَابُ النَّوْمِ/حدیث: 5042]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابن ماجہ/الدعاء 16(3881)، (تحفة الأشراف: 11371)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/235، 244) (صحیح)»
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات میں بیدار ہوئے پھر اپنی ضرورت سے فارغ ہوئے، پھر اپنا ہاتھ منہ دھویا، پھر سو گئے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اپنی ضرورت سے فارغ ہونے کا مطلب ہے پیشاب کیا۔ [سنن ابي داود/أَبْوَابُ النَّوْمِ/حدیث: 5043]
ام سلمہ کی اولاد میں سے ایک شخص سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر اس طرح بچھایا جاتا جس طرح انسان اپنی قبر میں لٹایا جاتا ہے، اور مسجد (نماز پڑھنے کی جگہ یا مسجد نبوی) آپ کے سرہانے ہوتی۔ [سنن ابي داود/أَبْوَابُ النَّوْمِ/حدیث: 5044]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود (ضعیف)» (اس کی سند میں ایک مبہم راوی ہے، معلوم نہیں صحابی ہے یا تابعی)
ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سونے کا ارادہ فرماتے تو اپنا داہنا ہاتھ اپنے گال کے نیچے رکھتے، پھر تین مرتبہ «اللهم قني عذابك يوم تبعث عبادك»”اے اللہ جس دن تو اپنے بندوں کو اٹھائے اس دن مجھے اپنے عذاب سے بچا لے“ کہتے۔ [سنن ابي داود/أَبْوَابُ النَّوْمِ/حدیث: 5045]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 15797)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/287) (صحیح)» (لیکن تین بار لفظ صحیح نہیں ہے)
براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”جب تم اپنی خواب گاہ میں آؤ (یعنی سونے چلو) تو وضو کرو جیسے اپنے نماز کے لیے وضو کرتے ہو، پھر اپنی داہنی کروٹ پر لیٹو، اور کہو «اللهم أسلمت وجهي إليك وفوضت أمري إليك وألجأت ظهري إليك رهبة ورغبة إليك لا ملجأ ولا منجى منك إلا إليك آمنت بكتابك الذي أنزلت وبنبيك الذي أرسلت»”اے اللہ میں نے اپنی ذات کو تیری تابعداری میں دے دیا، میں نے اپنا معاملہ تیرے سپرد کر دیا، میں نے امید وبیم کے ساتھ تیری ذات پر بھروسہ کیا، تجھ سے بھاگ کر تیرے سوا کہیں اور جائے پناہ نہیں، میں ایمان لایا اس کتاب پر جو تو نے نازل فرمائی ہے، اور میں ایمان لایا تیرے اس نبی پر جسے تو نے بھیجا ہے“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم (یہ دعا پڑھ کر) انتقال کر گئے تو فطرت (یعنی دین اسلام) پر انتقال ہوا اور اس دعا کو اپنی دیگر دعاؤں کے آخر میں پڑھو“ براء کہتے ہیں: اس پر میں نے کہا کہ میں انہیں یاد کر لوں گا، تو میں نے (یاد کرتے ہوئے) کہا «وبرسولك الذي أرسلت» تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسا نہیں بلکہ «وبنبيك الذي أرسلت»(جیسا دعا میں ہے ویسے ہی کہو)“۔ [سنن ابي داود/أَبْوَابُ النَّوْمِ/حدیث: 5046]
براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”جب تم پاک و صاف (باوضو) ہو کر اپنے بستر پر (سونے کے لیے) آؤ تو اپنے داہنے ہاتھ کا تکیہ بناؤ“ پھر انہوں نے اسی طرح کی حدیث ذکر کی۔ [سنن ابي داود/أَبْوَابُ النَّوْمِ/حدیث: 5047]
اس سند سے بھی براء رضی اللہ عنہ سے یہی حدیث نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً مروی ہے، سفیان ثوری کہتے ہیں: ایک راوی نے «إذا أتيت فراشك طاهرا»”جب تم باوضو اپنے بستر پر آؤ“ کہا اور دوسرے نے «توضأ وضوءك للصلاة»”تم جب نماز جیسا وضو کر لو“ کہا اور آگے راوی نے معتمر جیسی روایت بیان کی۔ [سنن ابي داود/أَبْوَابُ النَّوْمِ/حدیث: 5048]
حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سونے کے وقت فرماتے: «اللهم باسمك أحيا وأموت»”اے اللہ میں تیرے ہی نام پر جیتا اور مرتا ہوں“ اور جب بیدار ہوتے تو فرماتے «الحمد لله الذي أحيانا بعد ما أماتنا وإليه النشور»”شکر ہے اللہ کا جس نے ہمیں زندگی بخشی (ایک طرح سے) موت طاری کر دینے کے بعد اور اسی کی طرف اٹھ کر جانا ہے“۔ [سنن ابي داود/أَبْوَابُ النَّوْمِ/حدیث: 5049]