سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر قیامت قائم ہو جائے اور تم میں سے کسی ایک کے ہاتھ میں کھجور کا چھوٹا پودا ہو، اگر وہ کھڑا ہونے سے پہلے اسے لگا سکتا ہوتو وہ ضرور ایسا کرے۔
تخریج الحدیث: «اخرجه البخاري تعليقا: 2320، ومسلم: 1553، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 12999 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 13011»
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری بعثت اور قیامت ان دو انگلیوں کی طرح متصل ہیں۔ ساتھ ہی آپ نے انگشت ِ شہادت اور درمیانی انگلی کو پھیلا کر اشارہ کیا۔
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري: 6504، ومسلم: 2951، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 13010 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 13041»
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی دو انگلیوں کے ساتھ اشارہ کیا اور فرمایا: میری بعثت اور قیامت اب اس طرح ایک دوسرے کے قریب قریب ہیں جیسے یہ انگلی اس کے ساتھ ہے۔
تخریج الحدیث: «صحيح لغيره، أخرجه الطبراني:1844، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 20870 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 21160»
سیدنا وہب سوائی کا بیان ہے،وہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میری بعثت اور قیامت اس طرح متصل ہیں جیسے یہ انگلی دوسری انگلی کے ساتھ متصل ہے، یقینا قریب تھا کہ قیامت میری بعثت سے پہلے قائم ہوجاتی۔ پھر امام اعمش نے اپنی انگشت ِ شہادت اور درمیان والی انگلی کو ملا کر اشارہ کیا۔
تخریج الحدیث: «حديث صحيح لغيره دون قوله ان كادت لتسبقھا وھذا اسناد اختلف فيه علي الاعمش، أخرجه الطبراني في الكبير: 22/ 346، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 18770 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 18977»
سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری بعثت اور قیامت کو ایک دوسرے کے ساتھ اس حد تک متصل کر دیا گیا کہ قریب تھا کہ قیامت مجھ سے سبقت لے جاتی۔
تخریج الحدیث: «حسن لغيره، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 22947 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 23335»
سیدنا سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری اور قیامت کے قرب کی مثال ان دو انگلیوں کی طرح ہے۔ اس کے ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انگوٹھے کے ساتھ والی (انگشت ِ شہادت) اور درمیانی (انگلی) کو تھوڑا سا الگ کر کے اشارہ کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری اور قرب ِ قیامت کی مثال مقابلہ کرنے والے دو گھوڑوں کی سی ہے۔ پھر فرمایا: میری اور قرب ِ قیامت کی مثال اس شخص کی سی ہے جسے اس کی قوم نے اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا ہو، جب اسے خطرہ ہو ا کہ دشمن اس سے آگے نکل جائے گا تو وہ اپنا کپڑا لہرا لہرا کر قوم کو اطلاع دینے لگا کہ دشمن تمہارے پاس پہنچ گیا، دشمن تمہارے پاس پہنچ گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بس میں وہی ہوں۔
تخریج الحدیث: «اسناده صحيح، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 22809 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 23195»
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ میدانِ عرفات میں وقوف کیے ہوئے تھے، جب سورج غروب کے وقت ڈھا ل کی مانندہو کر نظر آنے لگا تو وہ رونے لگ گئے اور بہت زیادہ روئے، ان کے قریب کھڑے ایک آدمی نے کہا: اے ابو عبدالرحمن! آپ نے میرے ساتھ کئی بار وقوف کیا ہے، لیکن آپ نے کبھی بھی ایسے تو نہیں کیا تھا۔ انھوں نے کہا:مجھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یاد آ گئے ہیں، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہیں میری جگہ کھڑے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا: لوگو! دنیا کی گزری ہوئی مدت کے مقابلے میں بقیہ زمانے کی وہی نسبت ہے جو آج کے گزرے ہوئے دن کے ساتھ اس باقی وقت کی ہے۔
تخریج الحدیث: «حديث صحيح لغيره، أخرجه الحاكم: 2/ 443، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 6173 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 6173»
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،وہ کہتے ہیں: ایک بھیڑیا ایک چرواہے کی طرف آیا اور اس کے ریوڑ سے ایک بکری اٹھا کرلے گیا، چرواہے نے اس کا پیچھا کیا اور اس سے بکری کو چھڑالیا۔ بھیڑیا ایک اونچے ٹیلے پر چڑھ گیا اور اگلی ٹانگیں کھڑی کر کے سرین پر بیٹھ کر کہنے لگا:میں نے ایسے رزق کا قصد کیا جو اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا کیا تھا، لیکن تو نے مجھ سے وہ چھین لیا، وہ چراوہا کہنے لگا: میں نے آج تلک ایسا منظر نہیں دیکھا کہ بھیڑیا انسانوں کی طرح باتیں کرتا ہو، یہ سن کربھیڑئیے نے کہا: تم میری بات سن کر تعجب کر رہے ہو، اس سے بھی عجیب تر بات یہ ہے کہ دو حرّوں کے مابین کھجوروں کے باغات میں ایک ایسا شخص ہے، جو انسانوں کو ماضی اور مستقبل کی باتیں بتلاتا ہے، وہ چرواہا یہودی تھا، جب اس نے آکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سارا واقعہ سنایا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی تصدیق کی اور فرمایا: جانوروں کا انسانوں کی طرح باتیں کرنابھی علاماتِ قیامت میں سے ہے اور عنقریب ایسا زمانہ آئے گا کہ انسان اپنے گھر سے باہر جا ئے گا تو اس کے اہل خانہ نے اس کی عدم موجودگی میں جو کچھ کیا ہوگا، اس کی واپسی پر اس کے جوتے اور چھڑی اسے سب کچھ بتلا دیں گے۔
تخریج الحدیث: «اسناده ضعيف لضعف شهر بن حوشب، أخرجه عبد الرزاق: 20808، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 8063 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 8049»
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس موجود تھا،ایک آدمی نے آکر عرض کیا: اے اللہ کے رسول! قیامت کب آئے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا: وہ تو قائم ہو کر رہے گی، تم نے اس کے لیے تیاری کیا کر رکھی ہے؟ اس نے کہا:اللہ کی قسم! میں نے قیامت کے لیے کوئی زیادہ اعمال تو نہیں کیے ہیں، البتہ اتنا ضرور ہے کہ میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جن کے ساتھ تم کو محبت ہو گی ‘ آخرت میں انہی کے ساتھ ہوگے اور تم جو امید رکھو گے، وہی کچھ تمہیں ملے گا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز کے لیے کھڑے ہوئے اور جب نما ز سے فارغ ہوئے تو پوچھا: قیامت کے بارے میں پوچھنے والا آدمی کہاں ہے؟ پس اسے لایا گیا، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گھر کی طرف دیکھا،تو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے خاندان بنودوس کے ایک لڑکے پر نظر پڑی، اس کا نام سعد بن مالک رضی اللہ عنہ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ لڑکا اگر زندہ رہا تو اس کے بڑھاپے کو پہنچنے سے پہلے پہلے قیامت آ جائے گی۔ حسن کہتے ہیں: سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے مجھے بتلایا کہ وہ نوجوان ان دنوں ان کا ہم عمر تھا۔
تخریج الحدیث: «حديث صحيح، أخرجه ابويعلي: 2758، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 14012 ترقیم بيت الأفكار الدولية:0»
حكم: صحیح
حدیث نمبر: 12787
۔ وَعَنْ اَنَسٍ اَیْضًا رضی اللہ عنہ اَنَّ رَجُلًا سَاَلَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مَتٰی تَقُوْمُ السَّاعَۃُ وَعِنْدَہٗغُلَامٌمِنَالْاَنْصَارِیُقَالُ لَہُ مُحَمَّدٌ، فَقَالَ لَہٗرَسُوْلُاللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: ((اِنْ یَّعِشْ ہٰذَا الْغُلَامُ فَعَسٰی اَنْ لَّا یُدْرِکَہُ الْھَرَمُ حَتّٰی تَقُوْمَ السَّاعَۃُ۔)) (مسند احمد:13419)
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،وہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آکر دریافت کیا کہ قیامت کب آئے گی؟اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب محمد نامی ایک انصاری لڑکا موجود تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے سوا ل کے جواب میں فرمایا: اگر یہ نوجوان زندہ رہا تو اس کے بوڑھا ہونے سے پہلے پہلے قیامت قائم ہوجائے گی۔
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم: 2953، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 13386 ترقیم بيت الأفكار الدولية:0»