سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:میں نے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا،راویہ ام درداء کہتی ہیں: میں نے ابودرداء کو اس سے پہلے یا اس کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کنیت کے ساتھ کرتے نہیں سنا، بہرحال وہ کہتے ہیں کہ ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے عیسیٰ! میں تیرے بعد ایک ایسی امت بھیجنے والا ہوں، اگر ان کو وہ چیز ملے جس سے وہ محبت کرتے ہوں، تو وہ میری حمد کریں گے اور شکر بجا لائیں گے اور اگر ان کو ایسے احوال پیش آئیں، جو بظاہر انہیں ناپسند ہوں گے، تب بھی وہ صبر کریں گے اور ثواب کی امید رکھیں گے اور ان کے پاس نہ بردباری ہو گی اور نہ علم ہوگا، عیسیٰ علیہ السلام نے عرض کی: اے میرے رب! جب ان کے پاس حلم اور علم نہ ہوگا تو مذکورہ خصائص ان میں کیسے آئیں گے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں اپنی طرف سے انہیں حلم اور علم سے نواز دوں گا۔
تخریج الحدیث: «اسناده ضعيف لجھالةحال ابي حلبس يزيد بن ميسرة، اخرجه البزار: 2845، والطبراني في الاوسط: 3276، والحاكم: 1/ 348، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 27545 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 28095»
سیدنا معاویہ بن جیدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم امتوں کے ستر کے عدد کو پورا کرنے والے ہو، ان میں سے تم سب سے آخری اور اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے معزر اور مکرم ہو،جنت کے دروازوں کی جانبی لکڑیوں کے مابین چالیس برس کی مسافت ہے، لیکن جنت کے دروازے اس قدر وسیع ہونے کے باوجود تمہارے رش کی وجہ سے تنگ پڑجائیں گے۔
تخریج الحدیث: «اسناده حسن، اخرج الشطر الاول الطبراني في الكبير: 19/ 1030، وأخرج الشطر الثاني ابن حبان: 7388، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 20025 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 20278»
سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اس امت کو باقی امتوں پر تین چیزوں میں فضیلت دی گئی ہے: اس کے لیے پوری زمین کو ذریعۂ طہارت یعنی وضو کے قائم مقام تیمم کا ذریعہ اور عبادت گاہ بنایا گیا ہے اور اس کی صفیں فرشتوں کی صفوں کی مانند بنائی گئی ہیں، سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے مزید بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ سورۂ بقرہ کی آخری آیات مجھے عرش کے نیچے والے خزانوں میں سے عطا کی گئی ہیں، ایسا خزانہ مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دیا گیا۔ اس حدیث کا ایک راوی ابومعاویہ کہتا ہے کہ یہ ساری باتیں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہیں۔
تخریج الحدیث: «اخرجه البخاري: 6480، ومسلم: 522، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 23251 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 23640»
سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس امت کو اللہ کے ہاں قدرو منزلت، بلند مرتبت، دین داری، تائید و نصرت اور زمین پر غلبہ کی بشارت دے دیں۔ راوی کو یہ پانچ چیزیں یاد رہیں اور چھٹی اس کے ذہن سے محو ہوگئی،اس کے بارے میں اسے شک ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس امت کا جوآدمی آخرت کا عمل دنیا کے لیے کرے گا، اس کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ عبداللہ کہتے ہیں: میرے والد نے بتلایا کہ اس حدیث کے راوی ابو سلمہ کا اصل نام مغیرہ بن مسلم ہے اور وہ عبدالعزیز بن مسلم قسملی کا بھائی ہے۔
تخریج الحدیث: «اسناده قوي، اخرجه الحاكم: 4/ 311، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 21220 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 21539»
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری امت پر رحمت کر دی گئی ہے، اسے آخرت میں عذاب نہیں دیا جائے گا، میرے امتیوں کا عذاب دنیا میں قتل، پریشانیوں، زلزلوں اور فتنوں کی صورت میں ہے۔
تخریج الحدیث: «ضعيف، روي يزيد بن ھارون و ھاشم بن القاسم عن عبد الرحمن بن عبد الله المسعودي بعد الاختلاط، اخرجه ابوداود: 4278، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 19678 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 19914»
سیدنا ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری امت پر اللہ کی خصوصی رحمت ہے، آخرت میں اس پر کوئی عذاب نہیں ہو گا، اس کا عذاب تو دنیا میں قتل، پریشانیوں اور زلزلوں کی صورت میں ہے۔
تخریج الحدیث: «ضعيف، انظر الحديث السابق، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 19752 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 19990»
سیدنا ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں اس امت کو دو ضمانتیں حاصل تھیں، اب ان میں سے ایک ضمانت تو اٹھا لی گئی ہے اور دوسری ابھی تک باقی ہے، امان کی ان دو قسموں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:{وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَہُمْ وَأَنْتَ فِیہِمْ وَمَا کَانَ اللّٰہُ مُعَذِّبَہُمْ وَہُمْ یَسْتَغْفِرُونَ} … اور اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کرے گا کہ آپ کے ہوتے ہوئے ان کو عذاب دے اور اللہ تعالیٰ ان کو عذاب نہیں دے گا، اس حالت میں کہ وہ استغفار بھی کرتے ہوں گے۔
تخریج الحدیث: «صحيح لغيره، أخرجه الترمذي: 3082، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة:19607 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 19836»
سیدنا عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس امت پر دو تلواریں ہرگز جمع نہیں فرمائے گا،ایک تلوار اس امت کی اپنی اور دوسری دشمن کی۔
تخریج الحدیث: «اسناده حسن، اخرجه ابوداود: 4301، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 24889 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 24489»
مولائے رسول سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میر ی امت کے دوگروہوں کو اللہ تعالیٰ نے جہنم سے محفوظ کر لیا ہے، ایک وہ گروہ، جو ہندوستان پر حملہ کرے گا اور دوسرا وہ گروہ، جو عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے ساتھ ہوگا۔
تخریج الحدیث: «حديث حسن، اخرجه النسائي: 6/ 42، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 22396 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 22759»
سیدنا میمون بن سنباذ رضی اللہ عنہ نامی ایک صحابی سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میر ی امت کا استحکام برے لوگوں سے ہوگا۔ یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین بار ارشاد فرمائی۔
تخریج الحدیث: «اسناده ضعيف، ومتنه منكر، ھارون بن دينار العجلي البصري ضعيف وابوه دينار مجھول، وميمون بن سنباذ مختلف في صحبته، اخرجه الطبراني في المعجم الكبير: 20/ 835، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 21985 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 22334»