1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


الفتح الربانی
باب
1. فَمِنْهُمْ فَاطِمَةُ الزَّهْرَاءُ رَضِيَ اللهُ عَنْهَاْ
1. نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد،اہل بیت اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج امہات المؤمنین کا تذکرہ سیدہ فاطمہ زہراء رضی اللہ عنہا کا تذکرہ
حدیث نمبر: 11369
عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ أَقْبَلَتْ فَاطِمَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا تَمْشِي كَأَنَّ مَشْيَتَهَا مَشْيَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ ”مَرْحَبًا بِابْنَتِي“ ثُمَّ أَجْلَسَهَا عَنْ يَمِينِهِ أَوْ عَنْ شِمَالِهِ ثُمَّ إِنَّهُ أَسَرَّ إِلَيْهَا حَدِيثًا فَبَكَتْ فَقُلْتُ لَهَا اسْتَخَصَّكِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ بِحَدِيثِهِ ثُمَّ تَبْكِينَ ثُمَّ إِنَّهُ أَسَرَّ إِلَيْهَا حَدِيثًا فَضَحِكَتْ فَقُلْتُ مَا رَأَيْتُ كَالْيَوْمِ فَرَحًا أَقْرَبَ مِنْ حُزْنٍ فَسَأَلْتُهَا عَمَّا قَالَ فَقَالَتْ مَا كُنْتُ لِأُفْشِيَ سِرَّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِذَا قُبِضَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ سَأَلْتُهَا فَقَالَتْ إِنَّهُ أَسَرَّ إِلَيَّ فَقَالَ ”إِنَّ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَامُ كَانَ يُعَارِضُنِي بِالْقُرْآنِ فِي كُلِّ عَامٍ مَرَّةً وَإِنَّهُ عَارَضَنِي بِهِ الْعَامَ مَرَّتَيْنِ وَلَا أَرَاهُ إِلَّا قَدْ حَضَرَ أَجَلِي وَإِنَّكِ أَوَّلُ أَهْلِ بَيْتِي لُحُوقًا بِي وَنِعْمَ السَّلَفُ أَنَا لَكِ“ فَبَكَيْتُ لِذَلِكَ ثُمَّ قَالَ ”أَلَا تَرْضَيْنَ أَنْ تَكُونِي سَيِّدَةَ نِسَاءِ هَذِهِ الْأُمَّةِ أَوْ نِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ؟“ قَالَتْ فَضَحِكْتُ لِذَلِكَ
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اس طرح چلتی ہوئی تشریف لائیں، گویا ان کی چال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چال جیسی تھی،نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: پیاری بیٹی کو خوش آمدید۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو اپنی داہنییا بائیں جانب بٹھا لیااور ان سے راز دار انہ طور پر کوئی بات کی تو وہ رونے لگیں۔ (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ) میں نے ان سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو آپ کے ساتھ بطور خاص بات کی اور تم رونے لگ گئیں؟ اس کے بعد پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے راز دارانہ طور پر کوئی بات کی تو وہ مسکرا دیں۔ میں نے کہا کہ میں نے آج تک غم اور خوشی کو اس قدر اکٹھا کبھی نہیں دیکھا۔ میں نے ان سے دریافت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ سے کیا بات کہی ہے؟ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا:میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے راز کو فاش نہیں کروں گی،یہاں تک کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انتقال ہو گیا تو میں نے دوبارہ اس کی بابت ان سے دریافت کیا تو اب کی بار انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے چپکے سے کہا: جبریل علیہ السلام ہر سال میرے ساتھ قرآن مجید کا دور ایک بار کیا کرتے تھے، لیکن اس سال قرآن مجید کا دور دو بار کیا ہے، میرا خیال ہے کہ میری وفات کا وقت قریب آچکا ہے اور میرے اہل بیت میں سے تم ہی سب سے پہلے مجھ سے آملو گی، میں تمہارے لیے بہترین پیش رو ہوں۔ یہ سن کر میں رونے لگی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ تم (آخرت میں) اس امت یا اہل ایمان کی خواتین کی سردار بنو؟ یہ بات سن کر میں مسکرادی۔
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري: 3623، 3624،ومسلم: 2450، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 26413 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 26945»

حكم: صحیح

حدیث نمبر: 11370
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لَمْ يَكُنْ أَحَدٌ أَشْبَهَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ وَفَاطِمَةَ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِمْ أَجْمَعِينَ
سیدناانس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ لوگوں میں سے سیدنا حسن بن علی اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر کوئی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشابہ نہیں تھا۔
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري: 3752، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 12674 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 12703»

حكم: صحیح

حدیث نمبر: 11371
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ عَلِيًّا ذَكَرَ ابْنَةَ أَبِي جَهْلٍ فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ ”إِنَّمَا فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّي يُؤْذِينِي مَا آذَاهَا وَيُنْصِبُنِي مَا أَنْصَبَهَا“
سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ابو جہل کی بیٹی سے نکاح کی باتیں کیں، جب یہ خبر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے، جس بات سے اسے دکھ پہنچتا ہے، مجھے بھی اس سے دکھ پہنچتا ہے اور جو بات اسے غمگین کرتی ہے، مجھے بھی اس بات سے رنج ہوتا ہے۔
تخریج الحدیث: «اسناده صحيح علي شرط الشيخين، اخرجه الترمذي: 3869، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 16123 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 16222»

حكم: صحیح

حدیث نمبر: 11372
عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ أَنَّ الْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ أَخْبَرَهُ أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ خَطَبَ ابْنَةَ أَبِي جَهْلٍ وَعِنْدَهُ فَاطِمَةُ ابْنَةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا سَمِعَتْ بِذَلِكَ فَاطِمَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ لَهُ إِنَّ قَوْمَكَ يَتَحَدَّثُونَ أَنَّكَ لَا تَغْضَبُ لِبَنَاتِكَ وَهَذَا عَلِيٌّ نَاكِحٌ ابْنَةَ أَبِي جَهْلٍ قَالَ الْمِسْوَرُ فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ فَسَمِعْتُهُ حِينَ تَشَهَّدَ ثُمَّ قَالَ ”أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّي أَنْكَحْتُ أَبَا الْعَاصِ بْنَ الرَّبِيعِ فَحَدَّثَنِي فَصَدَقَنِي وَإِنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ بَضْعَةٌ مِنِّي وَأَنَا أَكْرَهُ أَنْ يَفْتِنُوهَا وَإِنَّهَا وَاللَّهِ لَا تَجْتَمِعُ ابْنَةُ رَسُولِ اللَّهِ وَابْنَةُ عَدُوِّ اللَّهِ عِنْدَ رَجُلٍ وَاحِدٍ أَبَدًا“ قَالَ فَتَرَكَ عَلِيٌّ الْخِطْبَةَ
علی بن حسین بن علی بن ابی طالب سے مروی ہے کہ سیدنا مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے ان کو بتلایا کہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے ابو جہل کی بیٹی کو نکاح کا پیغام بھجوایا، جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دختر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ان کی زوجیت میں تھیں، جب سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے یہ بات سنی تو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاں آکر عرض کی کہ آپ کی قوم باتیں بنائے گی کہ آپ اپنی بیٹیوں کے حق میں کسی کے ساتھ غصہ نہیں کرتے،اب دیکھیں ناں کہ یہ علی رضی اللہ عنہ ابو جہل کی بیٹی سے نکاح کرنے کی تیاریوں میں ہیں۔یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبۂ شہادت پڑھا اور پھر فرمایا: میں نے اپنی ایک بیٹی کا نکاح ابو العاص بن ربیع رضی اللہ عنہ سے کیا، پس اس نے میرے ساتھ کی ہوئی بات پوری کی، بے شک فاطمہ بنت محمد میرے جگر کا گوشہ ہے، میں یہ پسند نہیں کرتا کہ لوگ اسے رنجیدہ اورغمگین کریں، اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دختر اور اللہ کے دشمن کی بیٹی کبھی بھی ایک آدمی کی زوجیت میں جمع نہیں ہو سکتیں۔ یہ سن کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنا پروگرام ختم کر دیا۔
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري: 926، 3729،ومسلم: 2449، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 18912 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 19119»

حكم: صحیح

حدیث نمبر: 11373
عَنْ ابْنِ شِهَابٍ أَنَّ عَلِيَّ بْنَ الْحُسَيْنِ حَدَّثَهُ أَنَّهُمْ حِينَ قَدِمُوا الْمَدِينَةَ مِنْ عِنْدِ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ مَقْتَلَ حُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ لَقِيَهُ الْمِسْوَرُ بْنُ مَخْرَمَةَ فَقَالَ هَلْ لَكَ إِلَيَّ مِنْ حَاجَةٍ تَأْمُرُنِي بِهَا قَالَ فَقُلْتُ لَهُ لَا قَالَ هَلْ أَنْتَ مُعْطِيَّ سَيْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ فَإِنِّي أَخَافُ أَنْ يَغْلِبَكَ الْقَوْمُ عَلَيْهِ وَأَيْمُ اللَّهِ لَئِنْ أَعْطَيْتَنِيهِ لَا يُخْلَصُ إِلَيْهِ أَبَدًا حَتَّى تَبْلُغَ نَفْسِي إِنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ خَطَبَ ابْنَةَ أَبِي جَهْلٍ عَلَى فَاطِمَةَ فَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَخْطُبُ النَّاسَ فِي ذَلِكَ عَلَى مِنْبَرِهِ هَذَا وَأَنَا يَوْمَئِذٍ مُحْتَلِمٌ فَقَالَ ”إِنَّ فَاطِمَةَ بَضْعَةٌ مِنِّي وَأَنَا أَتَخَوَّفُ أَنْ تُفْتَنَ فِي دِينِهَا“ قَالَ ثُمَّ ذَكَرَ صِهْرًا لَهُ مِنْ بَنِي عَبْدِ شَمْسٍ فَأَثْنَى عَلَيْهِ فِي مُصَاهَرَتِهِ إِيَّاهُ فَأَحْسَنَ قَالَ ”حَدَّثَنِي فَصَدَقَنِي وَوَعَدَنِي فَوَفَى لِي وَإِنِّي لَسْتُ أُحَرِّمُ حَلَالًا وَلَا أُحِلُّ حَرَامًا وَلَكِنْ وَاللَّهِ لَا تَجْتَمِعُ ابْنَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ وَابْنَةُ عَدُوِّ اللَّهِ مَكَانًا وَاحِدًا أَبَدًا“
علی بن حسین نے بیان کیا کہ جب یہ لوگ شہادت حسین رضی اللہ عنہ کے بعد یزید بن معاویہ کے ہاں سے مدینہ منورہ آئے تو سیدنا مسور بن مخرمہ نے آکر ان سے ملاقات کی اور کہا: میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بتائیں۔ میں نے ان سے کہا:جی کوئی نہیں ہے۔ مسور نے کہا: کیا آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم والی تلوار عنایت کر سکتے ہیں؟مجھے اندیشہ ہے کہ اس تلوار کے بارے میں لوگ آپ پر حاوی ہوجائیں گے۔ اللہ کی قسم! اگر آپ وہ تلوار مجھے عنایت فرمائیں گے تو جب تک میں زندہ رہوں گا، اس وقت تک کسی کو نہیں پہنچنے دوں گا، جبکہ تک وہ مجھے ختم نہیں کر دے گا، بے شک سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی زندگی میں ابو جہل کی بیٹی کو نکاح کا پیغام بھیجا تھا۔ اس موقع پر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے منبر پر کھڑے ہو کر لوگوں کو خطبہ دیتے ہوئے سناجبکہ میں ان دنوں بالغ ہو چکا تھا،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے، مجھے اندیشہ ہے کہ اسے دین کے بارے میں مشکلات میں ڈال دیا جائے گا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بنو عبد شمس سے تعلق رکھنے والے اپنے داماد (ابو العاص رضی اللہ عنہ)کا ذکر کیا اورآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی خوب تعریف کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس نے میرے ساتھ جو عہد وپیماں کیا اسے پورا کیا، ہاں ہاں میں کسیحلال کو حرام یا حرام کو حلال نہیں کرتا، لیکن اللہ کی قسم! رسول اللہ کی دختر اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک جگہ (یعنی ایک آدمی کی زوجیت میں) کبھی اکٹھی نہیں ہو سکتیں۔
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري: 3110،ومسلم: 2449، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 18913 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 19120»

حكم: صحیح

حدیث نمبر: 11374
عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَقُولُ ”إِنَّ بَنِي هِشَامِ بْنِ الْمُغِيرَةِ اسْتَأْذَنُونِي فِي أَنْ يَنْكِحُوا ابْنَتَهُمْ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ فَلَا آذَنُ لَهُمْ“ ثُمَّ قَالَ ”لَا آذَنُ فَإِنَّمَا ابْنَتِي بَضْعَةٌ مِنِّي يُرِيبُنِي مَا أَرَابَهَا وَيُؤْذِينِي مَا آذَاهَا“
سیدنا مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بنو ہشام بن مغیرہ نے مجھ سے اجازت طلب کی ہے کہ وہ اپنی بیٹی کا نکاح سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے کر دیں، میں انہیں اس کی اجازت نہیں دوں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر فرمایا: میں انہیں اس کی اجازت نہیں دیتا، میری بیٹی میرے جگر کا ٹکڑا ہے، جو بات اسے رنجیدہ کرتی ہے، اس سے مجھے بھی رنج ہوتا ہے اور جس بات سے اسے دکھ ہوتا ہے، مجھے بھی اس سے دکھ پہنچتا ہے۔
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري: 5230، 5278،ومسلم: 2449، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 18926 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 19134»

حكم: صحیح

حدیث نمبر: 11375
عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ بَعَثَ إِلَيْهِ حَسَنُ بْنُ حَسَنٍ يَخْطُبُ ابْنَتَهُ فَقَالَ لَهُ قُلْ لَهُ فَلْيَأْتِنِي فِي الْعَتَمَةِ قَالَ فَلَقِيَهُ فَحَمِدَ الْمِسْوَرُ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ وَقَالَ أَمَّا بَعْدُ وَاللَّهِ مَا مِنْ نَسَبٍ وَلَا سَبَبٍ وَلَا صِهْرٍ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ سَبَبِكُمْ وَصِهْرِكُمْ وَلَكِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ قَالَ ”فَاطِمَةُ مُضْغَةٌ مِنِّي يَقْبِضُنِي مَا قَبَضَهَا وَيَبْسُطُنِي مَا بَسَطَهَا وَإِنَّ الْأَنْسَابَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تَنْقَطِعُ غَيْرَ نَسَبِي وَسَبَبِي وَصِهْرِي“ وَعِنْدَكَ ابْنَتُهَا وَلَوْ زَوَّجْتُكَ لَقَبَضَهَا ذَلِكَ قَالَ فَانْطَلَقَ عَاذِرًا لَهُ
سیدنامسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حسن بن حسن نے ان سے ان کی دختر کا رشتہ طلب کیا، اس نے جواباً یہ پیغام بھیجا کہ حسن بن حسن آج رات خود مجھ سے ملو۔ جب ان کی ان سے ملاقات ہوئی تو سیدنا مسور رضی اللہ عنہ نے پہلے تو اللہ کی حمد و ثناء کی اورپھر کہا: اللہ کی قسم! مجھے تمہاری رشتہ داری اور دامادی سے بڑھ کر دوسری کوئی چیز محبوب نہیں ہے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: فاطمہ رضی اللہ عنہا میرے جگر کا ٹکڑا ہے، جس بات سے وہ رنجیدہ ہو میں بھی اس سے رنجیدہ خاطر ہوتا ہوںاور جس بات سے وہ خوش ہو مجھے بھی اس سے خوشی ہوتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میرے تعلق، رشتہ داری اور دامادی کے علاوہ باقی تمام رشتہ داریاں قیامت کے دن منقطع ہو جائیں گی۔ تمہارے نکاح میں ان (یعنی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا) کی ایک دختر موجود ہیں۔ اگر میں تمہارے ساتھ اپنی دختر کا نکاح کروں تو اس سے ان کا دل دکھے گا، چنانچہ وہ انہیں اس بارے میں معذور سمجھ کر چلے گئے۔
تخریج الحدیث: «حديث صحيح، اخرجه الحاكم: 3/ 154، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 18907 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 19114»

حكم: صحیح

حدیث نمبر: 11376
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ ”الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَفَاطِمَةُ سَيِّدَةُ نِسَائِهِمْ إِلَّا مَا كَانَ لِمَرْيَمَ بِنْتِ عِمْرَانَ“
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: حسن اور حسین رضی اللہ عنہما جنتی نوجوانوں کے سردار اور فاطمہ جنتی خواتین کی سردار ہوں گی، ما سوائے مریم بنت عمران کے۔
تخریج الحدیث: «حديث صحيح لغيره، أخرجه ابويعلي: 1169، والنسائي في الكبري: 8514، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 11618 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 11641»

حكم: صحیح

2. بَابُ مَا جَاءَ فِي مَرَضِهَا وَوَفَاتِهَا رَضِيَ اللهُ عَنْهَاْ
2. سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی بیماری اور وفات کا تذکرہ
حدیث نمبر: 11377
حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي رَافِعٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أُمِّ سَلْمَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ اشْتَكَتْ فَاطِمَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا شَكْوَاهَا الَّتِي قُبِضَتْ فِيهِ فَكُنْتُ أُمَرِّضُهَا فَأَصْبَحَتْ يَوْمًا كَأَمْثَلِ مَا رَأَيْتُهَا فِي شَكْوَاهَا تِلْكَ قَالَتْ وَخَرَجَ عَلِيٌّ لِبَعْضِ حَاجَتِهِ فَقَالَتْ يَا أُمَّاهْ اسْكُبِي لِي غُسْلًا فَسَكَبْتُ لَهَا غُسْلًا فَاغْتَسَلَتْ كَأَحْسَنِ مَا رَأَيْتُهَا تَغْتَسِلُ ثُمَّ قَالَتْ يَا أُمَّاهْ أَعْطِينِي ثِيَابِي الْجُدُدَ فَأَعْطَيْتُهَا فَلَبِسَتْهَا ثُمَّ قَالَتْ يَا أُمَّاهْ قَدِّمِي لِي فِرَاشِي وَسَطَ الْبَيْتِ فَفَعَلْتُ وَاضْطَجَعَتْ فَاسْتَقْبَلَتِ الْقِبْلَةَ وَجَعَلَتْ يَدَهَا تَحْتَ خَدِّهَا ثُمَّ قَالَتْ يَا أُمَّاهْ إِنِّي لَمَقْبُوضَةٌ الْآنَ وَقَدْ تَطَهَّرْتُ فَلَا يَكْشِفُنِي أَحَدٌ فَقُبِضَتْ مَكَانَهَا قَالَتْ فَجَاءَ عَلِيٌّ فَأَخْبَرْتُهُ
سیدہ ام سلمی رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا جب مرض الموت میں مبتلا ہوئیں تو میں ان دنوں ان کی تیمار داری کیاکرتی تھی،ایام مرض کے دوران وہ ایک دن کافی ہشاش بشاش تھیں، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کسی کام سے باہر گئے تو سیدہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: اماں جان! میرے نہانے کے لیے پانی رکھ دیں، میں نے ان کے لیے غسل کا پانی رکھ دیا، انہوں نے بہت اچھا غسل کیا اور پھر کہا: اماں جان! مجھے میرے نئے کپڑے لا دیں، میں نے ان کو نئے کپڑے لا دیئے جو انہوں نے زیب تن کیے۔ پھر کہا: اماں جان! میرا بستر کمرے کے درمیان لگا دیں، میں نے اسی طرح کر دیا۔ انہوں نے قبلہ رو لیٹ کر اپنا ہاتھ رخسار کے نیچے رکھ لیا۔ پھر کہا: اماں جان! میں اب فوت ہونے والی ہوں، میں نے غسل کر لیا ہے، کوئی بھی مجھے غسل دینے کے لیے میرا لباس نہ اتارے، چنانچہ وہیں ان کا انتقال ہو گیا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ آئے تو میں نے ان کو سیدہ رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبر دی۔
تخریج الحدیث: «اسناده ضعيف لعنعنة ابن اسحاق ولضعف عبيد الله بن علي، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 27615 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 28167»

حكم: ضعیف

حدیث نمبر: 11378
عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ سَأَلَتْ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بَعْدَ وَفَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَقْسِمَ لَهَا مِيرَاثَهَا مِمَّا تَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْهِ فَقَالَ لَهَا أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ قَالَ ”لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ“ فَغَضِبَتْ فَاطِمَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَهَجَرَتْ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَلَمْ تَزَلْ مُهَاجِرَتَهُ حَتَّى تُوُفِّيَتْ قَالَ وَعَاشَتْ بَعْدَ وَفَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ سِتَّةَ أَشْهُرٍ
سیدناعروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان کرتے ہیں کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا دختر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد امیر المؤمنین ابو بکر رضی اللہ عنہ سے مطالبہ کیا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مال فے کے حصہ سے ان کا حصہ ان کو دے دیں۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہمارا ترکہ ورثاء میں تقسیم نہیں کیا جاتا۔ ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ یہ سن کر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ناراض ہوگئیںاور ابو بکر رضی اللہ عنہ سے بات چیت منقطع کر لی۔یہ سلسلہ انکی وفات تک رہا۔ عروہ کہتے ہیں کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد چھ ماہ زندہ رہی تھیں۔
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري: 3092، ومسلم: 1759، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 25 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 25»

حكم: صحیح


1    2    3    4    Next