1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


الفتح الربانی
أهم أحداث السنة الخامسة للهجرة
سنہ (۵) ہجری کے اہم واقعات
1. بَابُ مَا جَاءَ فِي غَزْوَةِ بَنِي الْمُصْطَلَقِ أَوِ الْمُرَيسِيع
1. غزوۂ بنی مصطلق یا غزوۂ مریسیع کا بیان
حدیث نمبر: 10752
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَقُولُ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةٍ قَالَ يَرَوْنَ أَنَّهَا غَزْوَةُ بَنِي الْمُصْطَلِقِ فَكَسَعَ رَجُلٌ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ فَقَالَ الْأَنْصَارِيُّ يَا لَلْأَنْصَارِ وَقَالَ الْمُهَاجِرِيُّ يَا لَلْمُهَاجِرِينَ فَسَمِعَ ذَلِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مَا بَالُ دَعْوَى الْجَاهِلِيَّةِ فَقِيلَ رَجُلٌ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ كَسَعَ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ دَعُوهَا فَإِنَّهَا مُنْتِنَةٌ قَالَ جَابِرٌ وَكَانَ الْمُهَاجِرُونَ حِينَ قَدِمُوا الْمَدِينَةَ أَقَلَّ مِنَ الْأَنْصَارِ ثُمَّ إِنَّ الْمُهَاجِرِينَ كَثُرُوا فَبَلَغَ ذَلِكَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ فَقَالَ فَعَلُوهَا وَاللَّهِ لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ فَسَمِعَ ذَلِكَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ دَعْنِي أَضْرِبْ عُنُقَ هَذَا الْمُنَافِقِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ يَا عُمَرُ دَعْهُ لَا يَتَحَدَّثُ النَّاسُ أَنَّ مُحَمَّدًا يَقْتُلُ أَصْحَابَهُ
سیدنا جا بر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم ایک غزوہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھے، لوگوں کا خیال ہے کہ یہ غزوہ بنی مصطلق تھا، اسی دوران ایک مہاجر شخص نے ایک انصاری کی دُبُر پر ہاتھ مار دیا تو انصاری نے دہائی دیتے ہوئے کہا: انصاریو! ذرا ادھر آنا اور مہاجر نے بھی مہاجرین کو اپنی مدد کے لیے پکارا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان لوگوں کییہ باتیں سنیں تو فرمایا: یہ جاہلیت والی پکاریں کس لیے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتایا گیا کہ مہاجرین میں سے کسی نے ایک انصاری کی دبرپر ہاتھ مار دیا ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایسی باتوں کو دفع کرو، یہ بدبودار یعنی فتنہ انگیز اور شر انگیز باتیں ہیں۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:مہاجرین جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ آئے تھے تو ان کی تعداد انصار سے بہت تھوڑی تھی، بعد میں مہاجرین کی تعداد بڑھ گئی۔ جب مہاجرین اور انصاریوں والی بات رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی تک پہنچی تو وہ کہنے لگا: کیا مہاجرین اب اس حد تک آگے نکل گئے ہیں؟ اللہ کی قسم! اگر ہم مدینہ واپس گئے تو ہم معزز لوگ ان ذلیلوں کو مدینہ سے باہر نکال دیں گے۔ سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے یہ سنا تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیں، میں اس منافق کی گردن اتار دوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے عمر! اسے چھوڑو، لوگ یہ نہ کہنا شروع کر دیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ہی ساتھیوں کو قتل کرتا ہے۔
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري: 4905، 4907، ومسلم: 2584، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 15223 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 15293»

حكم: صحیح

حدیث نمبر: 10753
عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ خَرَجْتُ مَعَ عَمِّي فِي غَزَاةٍ فَسَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيِّ ابْنِ سَلُولَ يَقُولُ لِأَصْحَابِهِ لَا تُنْفِقُوا عَلَى مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ وَلَئِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِعَمِّي فَذَكَرَهُ عَمِّي لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ فَأَرْسَلَ إِلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ فَحَدَّثْتُهُ فَأَرْسَلَ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُبَيِّ ابْنِ سَلُولَ وَأَصْحَابِهِ فَحَلَفُوا مَا قَالُوا فَكَذَّبَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ وَصَدَّقَهُ فَأَصَابَنِي هَمٌّ لَمْ يُصِبْنِي مِثْلُهُ قَطُّ وَجَلَسْتُ فِي الْبَيْتِ فَقَالَ عَمِّي مَا أَرَدْتَ إِلَى أَنْ كَذَّبَكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ وَمَقَتَكَ قَالَ حَتَّى أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ {إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ} [المنافقون: 1] قَالَ فَبَعَثَ إِلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ فَقَرَأَهَا ثُمَّ قَالَ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ صَدَّقَكَ
سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں:میں ایک غزوہ میں اپنے چچا کے ساتھ نکلا، میں نے عبداللہ بن ابی ابن سلول کو سنا،وہ اپنے ساتھیوں سے کہہ رہا تھا: اس رسول کے ساتھیوں پر خرچ نہ کرو اور اگر ہم مدینہ میں لوٹے تو ہم عزت والے اِن ذلیل لوگوں کو باہر نکال دیں گے۔ میں نے یہ بات اپنے چچا کو بتائی اور میرے چچا نے اس کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کر دیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میری طرف پیغام بھیجا، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کی بات بتا دی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عبداللہ بن ابی ابن سلول اور اس کے ساتھیوں کی طرف پیغام بھیجا، سو وہ آگئے، لیکن انہوں نے قسم اٹھائی کہ انہوں نے یہ بات کہی ہی نہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے جھوٹا اور عبداللہ بن ابی کو سچا قرار دیا، اس سے مجھے بہت پریشانی ہوئی، کبھی بھی اتنی پریشانی مجھے نہیں ہوئی تھی، پس میں گھر میں بیٹھ گیا، میرے چچا نے کہا: تجھے کس چیز نے آمادہ کیا تھا کہ تو ایسی بات کہتا، اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تجھے جھوٹا قرار دے دیا ہے اور تجھ پر ناراض بھیہوئے ہیں،یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیات اتار دیں: {إِذَا جَائَ کَ الْمُنَافِقُونَ … } … جب وہ منافق آپ کے پاس آتے ہیں، …۔ اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میری طرف پیغام بھیجا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ پر یہ آیات پڑھیں اور فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے تجھے سچا قرار دیا ہے۔
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري: 4900، 4901، 4904، ومسلم: 2772، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 19333 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 19548»

حكم: صحیح

2. بَابُ مَا جَاءَ فِي زِوَاجِهِ ﷺ بِجُوَيْرِيَّةً بِنْتِ حَارِث رضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فِي هَذِهِ الْغَزْوَةِ
2. نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اُمّ المؤمنین سیّدہ جویرہ بنت حارث سے شادی کا بیان
حدیث نمبر: 10754
عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ لَمَّا قَسَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ سَبَايَا بَنِي الْمُصْطَلِقِ وَقَعَتْ جُوَيْرِيَةُ بِنْتُ الْحَارِثِ فِي السَّهْمِ لِثَابِتِ بْنِ قَيْسِ بْنِ شَمَّاسٍ أَوْ لِابْنِ عَمٍّ لَهُ وَكَاتَبَتْهُ عَلَى نَفْسِهَا وَكَانَتْ امْرَأَةً حُلْوَةً مُلَاحَةً لَا يَرَاهَا أَحَدٌ إِلَّا أَخَذَتْ بِنَفْسِهِ فَأَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ تَسْتَعِينُهُ فِي كِتَابَتِهَا قَالَتْ فَوَاللَّهِ مَا هُوَ إِلَّا أَنْ رَأَيْتُهَا عَلَى بَابِ حُجْرَتِي فَكَرِهْتُهَا وَعَرَفْتُ أَنَّهُ سَيَرَى مِنْهَا مَا رَأَيْتُ فَدَخَلَتْ عَلَيْهِ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَا جُوَيْرِيَةُ بِنْتُ الْحَارِثِ بْنِ أَبِي ضِرَارٍ سَيِّدِ قَوْمِهِ وَقَدْ أَصَابَنِي مِنَ الْبَلَاءِ مَا لَمْ يَخْفَ عَلَيْكَ فَوَقَعْتُ فِي السَّهْمِ لِثَابِتِ بْنِ قَيْسِ بْنِ الشَّمَّاسِ أَوْ لِابْنِ عَمٍّ لَهُ فَكَاتَبْتُهُ عَلَى نَفْسِي فَجِئْتُكَ أَسْتَعِينُكَ عَلَى كِتَابَتِي قَالَ فَهَلْ لَكِ فِي خَيْرٍ مِنْ ذَلِكَ قَالَتْ وَمَا هُوَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ أَقْضِي كِتَابَتَكِ وَأَتَزَوَّجُكِ قَالَتْ نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ قَدْ فَعَلْتُ قَالَتْ وَخَرَجَ الْخَبَرُ إِلَى النَّاسِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ تَزَوَّجَ جُوَيْرِيَةَ بِنْتَ الْحَارِثِ فَقَالَ النَّاسُ أَصْهَارُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ فَأَرْسَلُوا مَا بِأَيْدِيهِمْ قَالَتْ فَلَقَدْ أَعْتَقَ بِتَزْوِيجِهِ إِيَّاهَا مِائَةَ أَهْلِ بَيْتٍ مِنْ بَنِي الْمُصْطَلِقِ فَمَا أَعْلَمُ امْرَأَةً كَانَتْ أَعْظَمَ بَرَكَةً عَلَى قَوْمِهَا مِنْهَا
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بنو مصطلق کے قیدی تقسیم کیے تو جویریہ بنت حارث، سیدنا ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ یا ان کے چچا زاد بھائی کے حصے میں آئی اور پھر اس نے ان سے مکاتبت بھی کر لی،یہ بڑی ہی خوب رو خاتون تھی، جس نے اس کو دیکھنا تھا، اس نے اس کو اپنے لیے لے لینا تھا، پس وہ اپنی مکاتبت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مدد لینے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئی، اللہ کی قسم! جب میں (عائشہ) نے اس کو اپنے حجرے کے دروازے پر دیکھا تو میں نے اس کے آنے کو ناپسند کیا اور میں جان گئی کہ جو چیز میں دیکھ رہی ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر بھی اسی چیز پر پڑے گی، پس جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئی اور کہا: اے اللہ کے رسول! میں جویریہ بنت حارث بن ابی ضرار ہوں، میرے باپ اپنی قوم کے سردار ہیں اور میں ایسی آزمائش میں پھنس گئی ہوں کہ اس کا معاملہ آپ پر بھی واضح ہے، میں سیدنا ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ یا ان کے چچا زاد بھائی کے حصے میں آئی ہوں اور میں نے ان سے مکاتبت کر لی ہے، اب میں آپ کے پاس آئی ہوں، تاکہ آپ مکاتبت پر میرا تعاون کریں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اچھا یہ بتاؤ کہ کیا تمہیں اس سے بہتر چیز کی رغبت ہے؟ اس نے کہا: جی وہ کیا؟ اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں تمہاری مکاتبت کی قیمت ادا کر کے تم سے شادی کر لیتا ہوں۔ اس نے کہا: جی ہاں، اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تحقیق میں نے ایسے ہی کر دیا ہے۔ اتنے میں لوگوں تک یہ خبر پہنچ گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ جویریہ رضی اللہ عنہا سے شادی کر لی ہے، لوگوں نے کہا: بنو مصطلق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سسرال بن گئے ہیں، پس اس وجہ سے انھوں نے وہ غلام اور لونڈیاں آزاد کر دیں، جو ان کے ہاتھ میں تھے، سیدہ جویریہ رضی اللہ عنہا کی اس شادی کی وجہ سے بنو مصطلق کے سو گھرانوں کے افراد کو آزاد کیا گیا، میں ایسی کوئی خاتون نہیں جانتی جو اپنی قوم کے لیےاس سے زیادہ برکت والی ثابت ہوئی ہو۔
تخریج الحدیث: «اسناده حسن، أخرجه أبوداود: 3931، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 26265 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 26897»

حكم: صحیح

3. بَابُ مَا جَاءَ فِي مِحْنَةِ عَائِشَةَ رضِيَ اللَّهُ عَنْهَا وَ بِحَدِيثِ الْإِنكِ فِي هَذِهِ الْغَزْوَةِ
3. غزوۂ بنو مصطلق میں واقعۂ افک کی وجہ سے اُمّ المؤمنین سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی ابتلاء وآزمائش کا بیان
حدیث نمبر: 10755
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فِي حَدِيثِ الْإِفْكِ قَالَتْ وَاللَّهِ مَا كُنْتُ أَظُنُّ أَنْ يَنْزِلَ فِي شَأْنِي وَحْيٌ يُتْلَى وَلَشَأْنِي كَانَ أَحْقَرَ فِي نَفْسِي مِنْ أَنْ يَتَكَلَّمَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِيَّ بِأَمْرٍ يُتْلَى وَلَكِنْ كُنْتُ أَرْجُو أَنْ يَرَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ فِي النَّوْمِ رُؤْيَا يُبَرِّئُنِي اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِهَا قَالَتْ فَوَاللَّهِ مَا رَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَجْلِسِهِ وَلَا خَرَجَ مِنْ أَهْلِ الْبَيْتِ أَحَدٌ حَتَّى أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى نَبِيِّهِ وَأَخَذَهُ مَا كَانَ يَأْخُذُهُ مِنَ الْبُرَحَاءِ عِنْدَ الْوَحْيِ حَتَّى إِنَّهُ لَيَتَحَدَّرُ مِنْهُ مِثْلُ الْجُمَانِ مِنَ الْعَرَقِ فِي الْيَوْمِ الشَّاتِي مِنْ ثِقَلِ الْقَوْلِ الَّذِي أُنْزِلَ عَلَيْهِ قَالَتْ فَلَمَّا سُرِّيَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَضْحَكُ فَكَانَ أَوَّلُ كَلِمَةٍ تَكَلَّمَ بِهَا أَنْ قَالَ أَبْشِرِي يَا عَائِشَةُ أَمَّا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فَقَدْ بَرَّأَكِ فَقَالَتْ لِي أُمِّي قُومِي إِلَيْهِ فَقُلْتُ وَاللَّهِ لَا أَقُومُ إِلَيْهِ وَلَا أَحْمَدُ إِلَّا اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ بَرَاءَتِي فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ {إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ} [النور: 11] عَشْرَ آيَاتٍ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ هَذِهِ الْآيَاتِ بَرَاءَتِي قَالَتْ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَكَانَ يُنْفِقُ عَلَى مِسْطَحٍ لِقَرَابَتِهِ مِنْهُ وَفَقْرِهِ وَاللَّهِ لَا أُنْفِقُ عَلَيْهِ شَيْئًا أَبَدًا بَعْدَ الَّذِي قَالَ لِعَائِشَةَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ {وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ} إِلَى قَوْلِهِ {أَلَا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ} [النور: 22] فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَاللَّهِ إِنِّي لَأُحِبُّ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لِي فَرَجَعَ إِلَى مِسْطَحٍ النَّفَقَةَ الَّتِي كَانَ يُنْفِقُ عَلَيْهِ وَقَالَ لَا أَنْزِعُهَا مِنْهُ أَبَدًا قَالَتْ عَائِشَةُ وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ سَأَلَ زَيْنَبَ بِنْتَ جَحْشٍ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَمْرِي وَمَا عَلِمْتِ أَوْ مَا رَأَيْتِ أَوْ مَا بَلَغَكِ قَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَحْمِي سَمْعِي وَبَصَرِي وَأَنَا مَا عَلِمْتُ إِلَّا خَيْرًا قَالَتْ عَائِشَةُ وَهِيَ الَّتِي كَانَتْ تُسَامِينِي مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ فَعَصَمَهَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِالْوَرَعِ وَطَفِقَتْ أُخْتُهَا حَمْنَةُ بِنْتُ جَحْشٍ تُحَارِبُ لَهَا فَهَلَكَتْ فِيمَنْ هَلَكَ قَالَ قَالَ ابْنُ شِهَابٍ فَهَذَا مَا انْتَهَى إِلَيْنَا مِنْ أَمْرِ هَؤُلَاءِ الرَّهْطِ
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، وہ حدیث الافک (یعنی بہتان والی بات) بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں: اللہ کی قسم! یہ بات میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھی کہ میرے بارے میں وحی نازل ہو گی، میں اپنے اس معاملہ کو اس سے کم تر سمجھتی تھی کہ اللہ تعالیٰ خود اس کے بارے میں کلام کریں گے اور پھر اس کلام کی تلاوت کی جائے گی، ہاں یہ مجھے امید تھی کہ میرے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خواب دیکھیں گے، جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ مجھے بری کر دیں گے، اللہ کی قسم! نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی نشست گاہ سے حرکت نہ کی تھی اور نہ ہی گھروالوں میں سے ابھی کوئی باہر گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی نازل کر دی اور وحی کے وقت سخت بوجھ کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پسینہ آنا شروع ہو گیا، سردی کے سخت دن میں بھی وحی کے نازل ہوتے وقت آپ کی پیشانی سے پسینہ لؤلؤ موتیوں کی طرح گرتا تھا، اس وحی کے بوجھ کی وجہ سے، جو آپ پر نازل ہو رہی ہوتی تھی، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وحی کے نازل ہونے کی کیفیت ختم ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسکرا رہے تھے، سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وحیکے بعد جو بات کی، وہ یہ تھی: اے عائشہ! خوش ہوجاؤ، اللہ تعالیٰ نے تمہیں بری قرار دیا ہے۔ یہ سن کرمیری ماں نے کہا: عائشہ! کھڑی ہوجا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شکریہ ادا کر۔ لیکن میں نے کہا:میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شکریہ ادا کرنے کے لیے کھڑی نہیں ہوں گی، میں اپنے اس اللہ کی تعریف کروں گی، جس نے میری براء ت نازل کی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کر دیں: {إِنَّ الَّذِینَ جَائُ وْا بِالْإِفْکِ عُصْبَۃٌ مِنْکُمْ} [النور: ۱۱] یہ کل دس آیات تھیں۔ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ مسطح پر خرچ کیا کرتے تھے کیونکہ وہ فقیر تھااور ان کا رشتہ دار بھی تھا، اس نے بھی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں تہمت والی بات کر دی تھی، اس لیے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! میں اس پر آئندہ خرچ نہیں کروں گا، یہ اس حد تک چلا گیا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کر دی: {وَلَا یَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَۃِ اَنْ یُّؤْتُوْٓا اُولِی الْقُرْبٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَالْمُہٰجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَکُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔} … اور تم میں سے فضیلت اور وسعت والے اس بات سے قسم نہ کھالیں کہ قرابت والوں اور مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو دیں اور لازم ہے کہ معاف کر دیں اور درگزر کریں، کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمھیں بخشے اور اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔ یہ آیت سن کر سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! میں پسند کرتاہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بخش دے، پس انہوں نے جو مسطح کا خرچہ لگا رکھا تھا وہ دوبارہ جاری کر دیااورکہا اب میں اسے کبھی نہیں روکوں گا۔سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ زینب بنت حجش رضی اللہ عنہا سے میرے معاملہ کے بارے میں سوال کیا کہ تم اس بارے میں کیا جانتی ہو؟ یا کیا سمجھتی ہو؟ یا تم کو کون سی بات پہنچی ہے؟‘ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں اس بات سے اپنے کان اورآنکھ کو محفوظ رکھنا چاہتی ہوں! اللہ کی قسم، میری معلومات کے مطابق عائشہ میں خیر ہی خیر ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: یہ سیدہ زینب ہی امہات المومنین میں سے میرا مقابلہ کرتی تھیں،لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں تقویٰ کی بدولت اس معاملے میں پڑنے سے بچا لیا اور ان کی بہن سیدہ حمنہ بنت حجش رضی اللہ عنہا نے اپنی بہن کے ساتھ عصبیت اختیار کی اور ہلاک ہونے والوں میں شامل ہوگئی۔ ابن شہاب کہتے ہیں: اس گرو ہ کے بارے میں ہمیں یہی کچھ معلوم ہو سکا۔
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري: 2879، 4025، 4690، 4750، 6662، ومسلم: 2770، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 26141 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 26141»

حكم: صحیح

حدیث نمبر: 10756
عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ أُمِّ رُومَانَ وَهِيَ أُمُّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ كُنْتُ أَنَا وَعَائِشَةُ قَاعِدَتَيْنِ فَدَخَلَتْ امْرَأَةٌ مِنَ الْأَنْصَارِ فَقَالَتْ فَعَلَ اللَّهُ بِفُلَانٍ وَفَعَلَ تَعْنِي ابْنَهَا قَالَتْ فَقُلْتُ لَهَا وَمَا ذَلِكَ قَالَتْ ابْنِي كَانَ فِيمَنْ حَدَّثَ الْحَدِيثَ قَالَتْ فَقُلْتُ لَهَا وَمَا الْحَدِيثُ قَالَتْ كَذَا وَكَذَا فَقَالَتْ عَائِشَةُ أَسَمِعَ بِذَلِكَ أَبُو بَكْرٍ قَالَتْ نَعَمْ قَالَتْ أَسَمِعَ بِذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ نَعَمْ فَوَقَعَتْ أَوْ سَقَطَتْ مَغْشِيًّا عَلَيْهَا فَأَفَاقَتْ حُمَّى بِنَافِضٍ فَأَلْقَيْتُ عَلَيْهَا الثِّيَابَ فَدَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مَا لِهَذِهِ قَالَتْ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَخَذَتْهَا حُمَّى بِنَافِضٍ قَالَ لَعَلَّهُ مِنَ الْحَدِيثِ الَّذِي تُحُدِّثُ بِهِ قَالَتْ قُلْتُ نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَرَفَعَتْ عَائِشَةُ رَأْسَهَا وَقَالَتْ إِنْ قُلْتُ لَمْ تَعْذِرُونِي وَإِنْ حَلَفْتُ لَمْ تُصَدِّقُونِي وَمَثَلِي وَمَثَلُكُمْ كَمَثَلِ يَعْقُوبَ وَبَنِيهِ حِينَ قَالَ {فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ} [يوسف: 18] فَلَمَّا نَزَلَ عُذْرُهَا أَتَاهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهَا بِذَلِكَ فَقَالَتْ بِحَمْدِ اللَّهِ لَا بِحَمْدِكَ أَوْ قَالَتْ وَلَا بِحَمْدِ أَحَدٍ
سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی ماں سیدہ ام رومان رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: میں اور عائشہ رضی اللہ عنہا بیٹھی تھیں کہ ایک انصاری خاتون آئی اور وہ اپنے بیٹے کے متعلق کہنے لگی کہ اللہ اسے ہلاک کرے، تباہ کرے، میں نے اس سے کہا: کیا بات ہے؟ اس نے کہا: وہ بات کرنے والوں میں میرا بیٹا بھی شامل ہے۔ ام رومان رضی اللہ عنہا نے کہا: کونسی بات؟ اس نے کہا: فلاں بات، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے دریافت کیا کہ آیایہ بات ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی سنی ہے؟ اس عورت نے کہا: جی ہاں، انہوں نے پھر پوچھا: کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی اس کا علم ہو چکا ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں! یہ سنتے ہی وہ گر گئی اور وہ بے ہوش ہو گئی اسے شدت کا بخار ہو گیا، اور جسم کانپنے لگا، میں نے اس پر کپڑے ڈالے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئے اور پوچھا: اسے کیا ہوا؟ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اسے شدید بخاری ہو گیا ہے اور اس کا جسم کانپ رہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: شاید اس کییہ کیفیت اس بات کی وجہ سے ہوئی ہے جو کہی جا رہی ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں، اے اللہ کے رسول! یہ باتیں سن کر سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے سر اُٹھایا اور کہا: اگر میں اپنے حق میں کچھ کہوں تو آپ میری معذرت قبول نہیں کریں گے اور اگر میں قسم اُٹھاؤں تب بھی آپ میری بات نہیں مانیں گے، میری اور آپ کی مثال یعقوب علیہ السلام اور ان کے بیٹوں کی سی ہے، جنہوں نے بیٹوں کی بات سن کر کہا تھا: {فَصَبْرٌ جَمِیلٌ وَاللّٰہُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُونَ} … پس صبر کرنا ہی بہتر ہے، تم جو کچھ بیان کر رہے ہو اس پر اللہ ہی کی مدد درکار ہے۔ (سورۂ یوسف: ۱۸) پس جب اللہ کی طرف سے ان کی براء ت نازل ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے پاس آئے اور انہیں نزولِ براء ت کی اطلاع دی تو سیّدہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں اللہ کی حمد کرتی ہوں، آپ کی نہیں،یایوں کہا کہ اللہ کے سوا کسی کی حمد نہیں۔
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري: 3388، 4143، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 27070 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 27610»

حكم: صحیح

حدیث نمبر: 10757
(وَعَنْهَا مِنْ طَرِيقٍ ثَانٍ) عَنْ أُمِّ رُومَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ بَيْنَا أَنَا عِنْدَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا إِذْ دَخَلَتْ عَلَيْنَا امْرَأَةٌ مِنَ الْأَنْصَارِ فَذَكَرَتْ نَحْوَ الْحَدِيثِ الْمُتَقَدِّمِ وَفِيهِ قَالَتْ وَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَأَنْزَلَ اللَّهُ عُذْرَهَا فَرَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ مَعَهُ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَدَخَلَ فَقَالَ يَا عَائِشَةُ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ أَنْزَلَ عُذْرَكِ قَالَتْ بِحَمْدِ اللَّهِ لَا بِحَمْدِكَ قَالَتْ قَالَ لَهَا أَبُو بَكْرٍ تَقُولِينَ هَذَا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ نَعَمْ قَالَتْ فَكَانَ فِيمَنْ حَدَّثَ الْحَدِيثَ رَجُلٌ كَانَ يَعُولُهُ أَبُو بَكْرٍ فَحَلَفَ أَبُو بَكْرٍ أَنْ لَا يَصِلَهُ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ {وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ} إِلَى آخِرِ الْآيَةِ [النور: 22] قَالَ أَبُو بَكْرٍ بَلَى فَوَصَلَهُ
۔(دوسری سند) سیدہ ام رومان رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: میں سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاں تھی کہ ایک انصاری خاتون ہمارے ہاں آئی، اس سے آگے ساری حدیث گزشتہ حدیث کی مانند ہے، البتہ اس میں ہے: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف لائے اور فرمایا: اللہ تعالیٰ نے عائشہ رضی اللہ عنہا کی براء ت نازل کر دی ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی معیت میں واپس اندر آئے اور فرمایا: عائشہ! بے شک اللہ تعالیٰ نے تمہاری براء ت نازل کی ہے۔ انھوں نے کہا:اللہ کا شکر ہے، آپ کا نہیں۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کییہ بات سن کر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: تم ایسی بات اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہتی ہو؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، ام رومان رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر الزام وتہمت لگانے والوں میں سے ایک شخص کی کفالت سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کرتے تھے، اس واقعہ کے بعد انہوں نے قسم اُٹھا لی کہ اب اس کے ساتھ پہلے والا برتاؤ نہیں کریں گے، اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔{وَلَا یَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَۃِ … } تم میں سے جو لوگ صاحبِ فضل اور مال دار ہیں وہ اس بات کی قسم نہ اُٹھائیں کہ وہ اپنے رشتہ داروں، مساکین اور اللہ کی راہ میں ہجرت کر کے آنے والوں کو کچھ نہ دیں گے۔ انہیں چاہیے کہ معاف کر دیںا ور درگزر کریں، کیا تمہیںیہ پسند نہیں کہ اللہ تمہاری خطائیں معاف کر دے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: کیوں نہیں، چنانچہ انہوں نے اس کے ساتھ حسن برتاؤ کا سلسلہ دوبارہ شروع کر دیا۔
تخریج الحدیث: «انظر الحديث بالطريق الاول ترقیم بيت الأفكار الدولية: 27611»

حكم: صحیح

حدیث نمبر: 10758
عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ قَالَ قَالَ رَجُلٌ لِلْبَرَاءِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَهُوَ يَمْزَحُ مَعَهُ قَدْ فَرَرْتُمْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ وَأَنْتُمْ أَصْحَابُهُ قَالَ الْبَرَاءُ إِنِّي لَأَشْهَدُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ مَا فَرَّ يَوْمَئِذٍ وَلَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ حُفِرَ الْخَنْدَقُ وَهُوَ يَنْقُلُ مَعَ النَّاسِ التُّرَابَ وَهُوَ يَتَمَثَّلُ كَلِمَةَ ابْنِ رَوَاحَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ اللَّهُمَّ لَوْلَا أَنْتَ مَا اهْتَدَيْنَا وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّيْنَا فَأَنْزِلَنْ سَكِينَةً عَلَيْنَا وَثَبِّتِ الْأَقْدَامَ إِنْ لَاقَيْنَا فَإِنَّ الْأُولَى قَدْ بَغَوْا عَلَيْنَا وَإِنْ أَرَادُوا فِتْنَةً أَبَيْنَا يَمُدُّ بِهَا صَوْتَهُ
ابو اسحاق سے مروی ہے کہ ایک شخص نے (ازراہِ مذاق) سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تم لوگ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھی تھے اور تم ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تنہا چھوڑ کر بھاگ گئے تھے، سیدنا براء رضی اللہ عنہ نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس روز فرار نہیں ہوئے تھے۔ اور میں نے خندق والے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کے ساتھ مل کر مٹی اُٹھا رہے تھے۔ دوسری روایت کے الفاظ یوں ہیںیہاں تک کہ مٹی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیٹ کی جلد کو چھپا دیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابن رواحہ کے یہ کلمات زبان سے ادا فرما رہے تھے: اَللّٰہُمَّ لَوْلَا أَنْتَ مَا اہْتَدَیْنَا،وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّیْنَا،فَأَنْزِلَنْ سَکِینَۃً عَلَیْنَا،وَثَبِّتِ الْأَقْدَامَ إِنْ لَاقَیْنَا،فَإِنَّ الْأُلٰی قَدْ بَغَوْا عَلَیْنَا،وَإِنْ أَرَادُوا فِتْنَۃً أَبَیْنَا (یا اللہ! اگر تو نہ ہوتا تو ہم راہِ ہدایت نہ پا سکتے اور ہم نہ صدقے کرتے اور نہ نمازیں پڑھتے، تو ہمارے اوپر سکون نازل فرما اور اگر ہمارا دشمن سے مقابلہ ہو تو ہمیں ثابت قدم رکھنا، ان کفار نے ہمارے اوپر سرکشی کی ہے اور دین کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے، اگر انہوں نے کسی فتنہ وفساد کا ارادہ کیا تو ہم اس سے انکار کر دیں گے۔) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کلمات کے ساتھ اپنی آواز کو لمبا کر کے ادا کر رہے تھے۔
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري: 2836، ومسلم: 1803، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 18486 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 18678»

حكم: صحیح

حدیث نمبر: 10759
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ فِي غَدَاةٍ قَرَّةٍ أَوْ بَارِدَةٍ فَإِذَا الْمُهَاجِرُونَ وَالْأَنْصَارُ يَحْفِرُونَ الْخَنْدَقَ فَقَالَ اللَّهُمَّ إِنَّ الْخَيْرَ خَيْرُ الْآخِرَةِ فَاغْفِرْ لِلْأَنْصَارِ وَالْمُهَاجِرَةِ فَأَجَابُوهُ نَحْنُ الَّذِينَ بَايَعُوا مُحَمَّدًا عَلَى الْجِهَادِ مَا بَقِينَا أَبَدًا
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک سرد صبح کو باہر نکلے اور دیکھا کہ مہاجرین اورانصار خندق کھود رہے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یا اللہ! اصل بھلائی تو آخرت کی بھلائی ہے، پس تو انصار اور مہاجرین کی مغفرت فرما دے۔ صحابہ نے جواباً کہا: ہم وہ ہیں جنہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ پر اس بات کی بیعت کی ہے کہ ہم جب تک زندہ رہیں گے جہاد کرتے رہیں گے۔
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري: 2961، 3796، ومسلم: 1805، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 12951 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 12981»

حكم: صحیح

حدیث نمبر: 10760
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مِنْ طَرِيقٍ ثَانٍ قَالَ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ وَالْمُهَاجِرُونَ يَحْفِرُونَ الْخَنْدَقَ فِي غَدَاةٍ بَارِدَةٍ قَالَ أَنَسٌ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ خَدَمٌ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ اللَّهُمَّ إِنَّمَا الْخَيْرُ خَيْرُ الْآخِرَةِ فَاغْفِرْ لِلْأَنْصَارِ وَالْمُهَاجِرَةِ قَالَ فَأَجَابُوهُ نَحْنُ الَّذِينَ بَايَعُوا مُحَمَّدًا عَلَى الْجِهَادِ مَا بَقِينَا أَبَدًا وَلَا نَفِرُّ وَلَا نَفِرُّ وَلَا نَفِرُّ
۔(دوسری سند) سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر نکلے تو مہاجرین سخت سرد صبح کو خندق کھود رہے تھے، ان کے خادم نہیں تھے، (بلکہ وہ اپنا کام خود کیا کرتے تھے)، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اصل بھلائی تو آخرت کی بھلائی ہے، اے اللہ! تو انصار اور مہاجرین کی مغفرت فرما دے۔ صحابہ کرام نے جواباً کہا: ہم وہ لوگ ہیں، جنہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ پر اس بات کی بیعت کی ہے کہ ہم جب تک زندہ رہیں گے جہاد کرتے رہیں گے، اور ہم میدان سے نہیں بھاگیں گے، اور ہم نہیں بھاگیں گے اور ہم نہیں بھاگیں گے۔
تخریج الحدیث: «انظر الحديث بالطريق الاول ترقیم بيت الأفكار الدولية: 13158»

حكم: صحیح

حدیث نمبر: 10761
عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ بِالْخَنْدَقِ وَهُمْ يَحْفِرُونَ وَنَحْنُ نَنْقُلُ التُّرَابَ عَلَى أَكْتَافِنَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ اللَّهُمَّ لَا عَيْشَ إِلَّا عَيْشُ الْآخِرَةِ فَاغْفِرْ لِلْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ خندق کے موقع پر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھے، صحابہ کرام خندق کھود رہے تھے اور ہم اپنے کندھوں پر مٹی اٹھا اٹھا کر منتقل کر رہے تھے، یہ منظر دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! نہیں ہے کوئی زندگی، مگرآخرت کی زندگی، پس تو مہاجرین اور انصار کو بخش دے۔
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري: 4098، ومسلم: 1804، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 22815 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 23203»

حكم: صحیح


1    2    3    4    Next