۔ سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جمرے کو کنکریاں مار رہے تھے، اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! کون سا جہاد اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسند ہے؟ جواباً آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش رہے، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوسرے جمرے کو کنکریاں ماریں تو پھر وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درپے ہوا اور کہا: اے اللہ کے رسول! کون سا جہاد اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسند ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس بار بھی خاموش رہے اور جب آگے چلے اور تیسرے جمرے کے پاس پہنچے تو وہی آدمی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! کون سا جہاد اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسند ہے؟ اس بار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ظالم حکمران کے سامنے حق کلمہ کہنا۔
تخریج الحدیث: «حسن لغيره، أخرجه ابن ماجه: 4012، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 22158 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 22511»
۔ سیدنا طارق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: کون سا جہاد سب سے زیادہ فضیلت والا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ظالم بادشاہ کے سامنے حق کلمہ کہنا۔
تخریج الحدیث: «اسناده صحيح، أخرجه النسائي: 7/ 161، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 18828 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 19034»
۔ ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری امت میں بعض لوگ ایسے بھی ہوں گے کہ جن کو پہلے والے لوگوں کے اجر کی طرح ثواب دیا جائے گا، وہ برائی کا انکار کرتے ہوں گے۔
تخریج الحدیث: «حسن لغيره، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 23181 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 23568»
۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچا، آپ (چمڑے کے) سرخ خیمے میں تھے اور آپ کے پاس تقریبًا چالیس آدمی بیٹھے تھے۔ ایک روایت میں ہے: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں جمع کیا، جبکہ ہم چالیس افراد تھے، سیدنا عبد اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: سب سے آخر میں آنے والا میں تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمھیں فتوحات نصیب ہوں گی، تمھاری مدد کی جائے گی اور تم غنیمتیں حاصل کرو گے۔ جو آدمی ایسا زمانہ پا لے وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرے، نیکی کا حکم دے، برائی سے رک جائے اور صلہ رحمی کرے۔ جس نے مجھ پرجان بوجھ کر جھوٹ بولا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم سے تیار کرے۔ وہ آدمی جو کسی قوم کی غیر حق بات پر مدد کرتا ہے، اس کی مثال اس اونٹ کی سی ہے جو کسی کنویں میں گرا دیا گیا اور پھر دم سے پکڑ کا کھینچا گیا۔
تخریج الحدیث: «اسناده صحيح عند من يصحح سماع عبد الرحمن من ابيه مطلقا، أخرجه ابويعلي: 5304، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 3801 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 3801»
۔ سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: آدمی کو روزِ قیامت لایا جائے گا، اسے دوزخ میں پھینک دیا جائے گا، اس کے پیٹ کی آنتیں باہر نکل آئیں گی اور وہ چکی کے گرد گھومنے والے گدھے کی طرح ان کے ارد گرد چکر لگانا شروع کر دے گا۔ جہنم والے جمع ہو کر کہیں گے: اے فلاں! کیا تو ہمیں نیکی کا حکم دیتا اور برائی سے منع نہیں کرتا تھا؟ وہ کہے گا: کیوں نہیں، میں نیکی کا حکم تو دیتا تھا، لیکن خود نہیں کرتا تھا اور برائی سے منع تو کرتا تھا، لیکن خود باز نہیں آتا تھا۔
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم: 2989، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 21800 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 22143»
۔ سیدنا طارق بن شہاب کہتے ہیں: پہلا شخص، جس نے نماز سے پہلے خطبہ دیا، وہ مروان ہے، ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے کہا: اے مروان! تو نے سنت کی مخالفت کی ہے، اس نے کہا: اے ابو فلاں! وہ والے امور چھوڑ دیئے گئے ہیں، سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: اس آدمی نے اپنی ذمہ داری ادا کر دی ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: تم میں جو آدمی برائی کو دیکھے، اس کو اپنے ہاتھ سے تبدیل کرے، اگر اتنی طاقت نہ ہو تو زبان سے روکے اور اگر اتنی طاقت بھی نہ ہو تو دل سے برا سمجھے، اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے۔
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم: 49، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 11460 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 11480»
۔ سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم ضرور ضرور نیکی کا حکم دو گے اور ضرور ضرور برائی سے منع کرو گے، وگرنہ قریب ہو گا کہ اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے کوئی عذاب تم پر مسلط کر دے اور پھر تم اس کو پکارو گے، لیکن وہ تمہیں جواب نہیں دے گا۔
تخریج الحدیث: «حسن لغيره، أخرجه الترمذي: 2169، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 23301 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 23690»
۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس تشریف لائے، میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرے سے پہنچان گئی کہ کسی چیز نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کچھ کرنے پر آمادہ کیا ہے، بہرحال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وضو کیا اور کسی سے کلام کیے بغیر باہر چلے گئے، میں حجروں کے قریب ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: اے لوگو! بیشک اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: نیکی کا حکم دیا کرو اور برائی سے منع کیا کرو، قبل اس کے کہ تم مجھے پکارو گے، لیکن میں تم کو جواب نہیں دوں گا، تم مجھ سے سوال کرو گے، لیکن میں تم کو عطا نہیں کروں گا اور تم مجھ سے مدد طلب کرو گے، لیکن میں تمہاری مدد نہیں کروں گا۔
تخریج الحدیث: «حسن لغيره، أخرجه ابن ماجه: 4004، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 25255 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 25769»
۔ ابو رقاد کہتے ہیں: میں اپنے آقا کے ساتھ نکلا، جبکہ میں لڑکا تھا، پھر جب مجھے سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ تک پہنچا دیا گیا تو وہ کہہ رہے تھے: بیشک ایک آدمی عہد ِ نبوی میں ایسی بات کرتا تھا کہ وہ اس کی وجہ سے منافق ہو جاتا تھا، لیکن اب میں نے تمہاری مجلس میں وہی بات چار دفعہ سنی ہے، (سنو کہ) تم ضرور ضرور نیکی کا حکم کرو گے، برائی سے منع کرو گے اور خیر پر لوگوں کو ابھارو گے، وگرنہ اللہ تعالیٰ تم سب کو عذاب سے برباد کر دے گا یا تمہارے بدترین لوگوں کو تمہارا حکمران بنا دے گے، پھر تمہارے نیکوکار لوگ اللہ تعالیٰ کو پکاریں گے، لیکن ان کی دعا قبول نہیں کی جائے گی۔
تخریج الحدیث: «اثر حسن، أخرجه ابن ابي شيبة: 15/ 44، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 23312 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 23701»
۔ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے لیے لوگوں سے جہاد کرو، وہ قریب ہوں یا دور، اللہ تعالیٰ کے لیے کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہ کرو اور حضر و سفر میں اللہ تعالیٰ کی حدود قائم کرو۔
تخریج الحدیث: «حديث حسن، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 22776 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 23157»