۔ ابو العلاء کہتے ہیں: بنو سُلَیم کے ایک آدمی نے مجھے بیان کیا، میرایہی خیال ہے کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا تھا، بہرحال اس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو اس چیز کے ساتھ آزماتا ہے، جو اس کو عطا کرتا ہے، پس جو شخص اللہ تعالیٰ کی تقسیم پر راضی ہو جائے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے اس کے رزق میں برکت کرتا ہے اور مزید وسعت عطا کرتا ہے اور جو اس تقسیم پر راضی نہیں ہوتا، اس کے رزق میں برکت نہیں کی جاتی۔
تخریج الحدیث: «اسناده صحيح، أخرجه البيھقي في الشعب: 9725، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 20279 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 20545»
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، جبکہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس موجود تھے: غُرَباء کے لیے خوشخبری ہے۔ کسی نے کہا: غرباء کون لوگ ہیں؟ اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ بہت زیادہ برے لوگوں کے اندر پائے جانے والے نیک لوگ ہوتے ہیں، ان کی بات نہ ماننے والوں کی تعداد بات ماننے والوں کی بہ نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں: ایک اور دن کی بات ہے، سورج طلوع ہو رہا تھا، جبکہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس موجود تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن میرے امت میں سے ایسے لوگ آئیں گے کہ ان کا نور سورج کی روشنی کی طرح ہو گا۔ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ کون لوگ ہوں گے؟ ایک روایت میں ہے: سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! ان سے مراد ہم لوگ ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جی نہیں، اور تم لوگوں میں بھی بڑی خیر ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ فقراء مہاجرین ہیں، جن کے ذریعے ناپسندیدہ چیزوں سے بچا جاتا ہے اور ان میں جب کوئی فوت ہوتا ہے تو اس کی ضرورت اس کے سینے میں ہوتی ہے، ان لوگوں کو زمین کے مختلف خطوں سے جمع کیا جائے گا۔
تخریج الحدیث: «حديث حسن لغيره، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 6650 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 6650»
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے یہ بھی مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بیشک فقراء مہاجرین بروز قیامت مالدار لوگوں سے چالیس سال پہلے سبقت لے جائیں گے۔ سیدنا عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر تم لوگ چاہتے ہو تو ہم تمہیں اپنے مال میں سے دے دیتے ہیں اور اگر چاہتے ہو تو ہم تمہارا معاملہ سلطان کے سامنے ذکر کر دیتے ہیں، انھوں نے کہا: ہم صبر کریں گے اور کسی سے کسی چیز کا سوال نہیں کریں گے۔
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم: 2979، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 6578 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 6578»
۔ سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں جنت میں داخل ہوا اور اپنے سامنے سے آہٹ سنی، میں نے پوچھا کہ یہ کون سی آواز ہے؟ اس نے کہا: یہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ ہیں، پھر میں آگے کو بڑھا اور دیکھا کہ جنت میں زیادہ تر لوگ فقراء مہاجرین اور مسلمانوں کے بچے ہیں اور سب سے کم مالدار لوگ اور عورتیں ہیں، پھر مجھے بتلایا گیا کہ مالدار لوگوں کا جنت کے دروازے پر ابھی محاسبہ کیا جا رہا ہے اور ان کی مزید جانچ پڑتال کی جا رہی ہے، رہا مسئلہ خواتین کا، تو دو سرخ چیزوں یعنی سونے اور ریشم نے ان کو غافل کر دیا تھا، پھر ہم جنت کے آٹھ دروازوں میں سے کسی ایک دروازے سے باہر آئے، جب میں دروازے پر ہی تھا تو میرے پاس ایک پلڑا لایا گیا اور مجھے اس میں اور میرے امت کو دوسرے پلڑے میں رکھا گیا، پس میں بھاری ثابت ہوا، پھر سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کو لا کر ایک پلڑے میں رکھا گیا اور باقی امت کو دوسرے میں، سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ والا پلڑا جھک گیا، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو لایا گیا اور ایک پلڑے میں رکھا اور باقی ساری امت کو دوسری پلڑے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھاری ثابت ہوئے، پھر میری امت کے ایک ایک آدمی کو پیش کیا گیا، پس وہ آگے کو گزرتے گئے، میں نے اس معاملے میں سیدنا عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو سست اور متأخر پایا، پھر وہ ناامید ہو جانے کے بعدا ٓیا، میں نے کہا: عبد الرحمن! انھوں نے کہا: جی اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا، آپ تک پہنچنے سے پہلے مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ میں کبھی بھی آپ کو نہیں دیکھ سکوں گا، مگر بڑھاپوں کے بعد، میں نے کہا: وہ کیوں؟ انھوں نے کہا: میرے مال کی کثرت کی وجہ سے میرا محاسبہ ہوتا رہا اور مزید جانچ پڑتال کی جاتی رہی۔
تخریج الحدیث: «اسناده ضعيف جدا، علي بن يزيد الھاني واھي الحديث، وعبيد الله بن زحر الافريقي و ابو المھلب مطرح ضعيفان، أخرجه الطبراني في الاوس: 6146، وفي الصغير: 937، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 22232 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 22587»
۔ عباس بن سالم لخمی سے مروی ہے کہ عمر بن عبد العزیز نے ابو سلام حبشی کو بلا بھیجا، اس کو پیغام رساں کے ذریعے لایا گیا، وہ ان سے حوض کے بارے میں حدیث سننا چاہتے تھے، پس ان کو ان کے پاس لایا گیا، عمر بن عبد العزیز نے ان سے سوال کیا اور انھوں نے جواباً کہا: میں نے سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میرے حوض (کی وسعت) عدن سے عمان بلقاء تک ہے، اس کا پانی برف سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے، اس کے پیالے ستاروں کی تعدادجتنے ہیں،جس نے اس سے پانی پی لیا، وہ اس کے بعد کبھی بھی پیاسا نہیں ہو گا، اس پر سب سے پہلے آنے والے فقراء مہاجرین ہوں گے۔ سیدنا عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! وہ کون ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ وہ ہیں جن کے بال پراگندہ ہوتے ہیں، کپڑے میلے ہوتے ہیں، جو آسودہ حال عورتوں سے شادی نہیں کر سکتے اور جن کے لیے بند دروازے نہیں کھولے جاتے۔ یہ سن کر عمر بن عبد العزیز نے کہا: میں نے تو آسودہ حال عورتوں سے شادی بھی ہے اور میرے لیے بند دراوازے بھی کھولے گئے ہیں، الا یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھ پر رحم کر دے، اللہ کی قسم! اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ میں اپنے سر پر اس وقت تک تیل نہیں لگاتا، جب تک وہ پراگندہ نہیں ہو جاتا اور زیب ِ تن کیے ہوئے کپڑے نہیں دھوتا، جب تک وہ میلے نہیں ہو جاتے۔
تخریج الحدیث: «صحيح، قاله الالباني، أخرجه ابن ماجه: 4303، والترمذي: 2444، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 22367 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 22725»
۔ سیدنا ابودردا رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول االلہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے سنا: ضعفاء کو میرے لیے تلاش کر کے لاؤ،بیشک تم لوگ انہی کمزوروں کی وجہ سے رزق دیے اور مدد کئے جاتے ہو۔
تخریج الحدیث: «اسناده صحيح، أخرجه ابوداود: 2594، والترمذي: 1702، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 21731 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 22074»
۔ سیدنا عائذ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا سلمان، سیدنا صہیب اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہم کچھ لوگوں میں بیٹھے ہوئے تھے، وہاں سید نا ابو سفیان بن حرب رضی اللہ عنہ کا گزر ہوا، اِن لوگوں نے کہا: اللہ کے دشمن کی گردن اتارنے میں اللہ کی تلواروں نے اپنا حق ادا نہیں کیا، سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا تم یہ بات قریش کے بزرگ اور سردار کے بارے میں کہتے ہو؟ (کچھ خیال کرو)۔ پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ ساری بات بتلائی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے ابوبکر! شاید تو نے ان کو ناراض کر دیا ہو اور اگر تو نے ان کو ناراض کر دیا تو تیرا ربّ بھی تجھ پر ناراض ہو جائے گا۔ یہ سن کر سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ ان کی طرف لوٹے اور کہا: اے ہمارے بھائیو! شاید تم مجھ سے ناراض ہو گئے ہو؟ انھوں نے کہا: نہیں، اے ابو بکر! اللہ تعالیٰ تجھ کو بخش دے۔
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم: 2504، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 20640 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 20916»
۔ بعض صحابۂ کرام بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: فقیر مؤمن جنت میں غنی مسلمانوں سے چار سو سال پہلے داخل ہوں گے۔ میں نے کہا: حسن تو چالیس برسوں کا ذکر کرتا ہے؟ لیکن انھوں نے اصحاب ِ رسول کے حوالے سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو چار سو سال کی بات کی ہے، یہاں تک کہ غنی آدمی کہے گا: کاش میں بھی بہت زیادہ محتاج ہوتا۔ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ ان فقیروں کی صفات بیان کر دیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ وہ لوگ ہیں کہ جب جنگ کا موقع آتا ہے تو ان کو بھیجا جاتا ہے، لیکن جب غنیمت کی باری آتی ہے تو اوروں کوروانہ کیا جاتا ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جن کو (وڈیروں کے) دروازوں سے دور کر دیا جاتا ہے۔
تخریج الحدیث: «اسناده ضعيف لضعف زيد ابي الحواري، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 23103 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 23491»
۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: فقراء مسلمان، مالدار مسلمانوں سے نصف یوم یعنی پانچ سو سال پہلے جنت میں داخل ہوں گے۔
تخریج الحدیث: «اسناده حسن، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 8521 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 8502»