1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


الفتح الربانی
تفسير من سورة إبراهيم إلى سورة الشعراء
تفسیر، ابراہیم سے شعراء
1. بَابُ قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: «وَيُسْقَى مِنْ مَاءٍ صَدِيدِ» ‏‏‏‏
1. سورۂ ابراہیم {وَیُسْقٰی مِنْ مَائٍ صَدِیْدٍ …}کی تفسیر
حدیث نمبر: 8643
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ فِي قَوْلِهِ {وَيُسْقَى مِنْ مَاءٍ صَدِيدٍ يَتَجَرَّعُهُ} [إبراهيم: 16-17] قَالَ يُقَرَّبُ إِلَيْهِ فَيَتَكَرَّهُهُ فَإِذَا دَنَا مِنْهُ شُوِيَ وَجْهُهُ وَوَقَعَتْ فَرْوَةُ رَأْسِهِ وَإِذَا شَرِبَهُ قَطَّعَ أَمْعَاءَهُ حَتَّى خَرَجَ مِنْ دُبُرِهِ يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ {وَسُقُوا مَاءً حَمِيمًا فَقَطَّعَ أَمْعَاءَهُمْ} [محمد: 15] وَيَقُولُ اللَّهُ {وَإِنْ يَسْتَغِيثُوا يُغَاثُوا بِمَاءٍ كَالْمُهْلِ يَشْوِي الْوُجُوهَ بِئْسَ الشَّرَابُ} [الكهف: 29]
۔ سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان {وَیُسْقٰی مِنْ مَائٍ صَدِیدٍیَتَجَرَّعُہُ} … اور اسے اس پانی سے پلایا جائے گا جو پیپ ہے۔ وہ اسے بمشکل گھونٹ گھونٹ پئے گا۔ کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: جب یہ پانی دوزخی کے قریب کیا جائے گا تو وہ اس کو ناپسند کرے گا،پھر جب وہ منہ قریب کرے گا تو اس کا چہرہ جھلس جائے گا اورا س کے سر کی کھال اس میں گرجائے گی اور جب اس کو پئے گا تو اس کی انتڑیاں کٹ جائیں گی جو کہ اس کے پائخانے کے راستے سے نکل جائیں گی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {وَسُقُوا مَائً حَمِیمًا فَقَطَّعَ أَ مْعَائَ ہُمْ} … ان کو گرم پانی پلایا جائے گا، جو ان کی انتڑیوں کو کاٹ کے رکھ دے گا۔ مزید فرمایا: {وَإِنْ یَسْتَغِیثُوْایُغَاثُوْا بِمَائٍ کَالْمُہْلِیَشْوِی الْوُجُوہَ بِئْسَ الشَّرَابُ} … اور اگر وہ پانی مانگیں گے تو انھیں پگھلے ہوئے تانبے جیسا پانی دیا جائے گا، جو چہروں کو بھون ڈالے گا، برا مشروب ہے۔
تخریج الحدیث: «ضعيف، قاله الالباني۔ أخرجه الترمذي: 2583، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 22285 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 22641»

حكم: ضعیف

2. بَابُ: «‏‏‏‏اَلَمْ تَرَكَيْفَ ضَرَبَ اللهُ مَثَلًا كَلِمَةٌ طَيِّةٌ كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ» ‏‏‏‏
2. {اَلَمْ تَرَکَیْفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ اَصْلُہَا ثَابِتٌ …} کی تفسیر
حدیث نمبر: 8644
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ فِي قَوْلِهِ {كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ} [إبراهيم: 24] قَالَ هِيَ الَّتِي لَا تَنْفُضُ وَرَقُهَا وَظَنَنْتُ أَنَّهَا النَّخْلَةُ
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس آیت {کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ}کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: یہ وہ درخت ہے، جس کے پتے نہیں جھڑتے، اور میرا خیال تھا کہ یہ کھجور کا درخت ہے۔
تخریج الحدیث: «اسناده ضعيف لضعف شريك بن عبد الله النخعي، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 5647 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 5647»

حكم: ضعیف

3. بَابُ: «يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ»
3. {یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ آمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْآخِرَۃِ} کی تفسیر
حدیث نمبر: 8645
عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ قَالَ ذَكَرَ عَذَابَ الْقَبْرِ قَالَ يُقَالُ لَهُ مَنْ رَبُّكَ فَيَقُولُ اللَّهُ رَبِّي وَنَبِيِّي مُحَمَّدٌ فَذَلِكَ قَوْلُهُ {يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا} [إبراهيم: 27] يَعْنِي بِذَلِكَ الْمُسْلِمَ زَادَ فِي رِوَايَةٍ وَفِي الْآخِرَةِ
۔ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عذاب قبر کا ذکر کیا اور فرمایا: قبر میں بندے سے کہا جاتا ہے کہ تیرا ربّ کون ہے؟ وہ کہتا ہے: اللہ تعالیٰ میرا ربّ ہے اور میرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں،یہ درست جواب اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا مصداق ہے: {یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِینَ آمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَفِیْ الْآخِرَۃِ} … اللہ ان لوگوں کو جو ایمان لائے، پختہ بات کے ساتھ خوب قائم رکھتا ہے، دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں بھی۔ یعنی اس سے مراد مسلمان ہے۔
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري: 1369، ومسلم: 2871، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 18575 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 18776»

حكم: صحیح

4. بَابُ «يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ والسَّمْوَاتُ وَبَرَزُوا لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّار»
4. {یَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَ رْضُ غَیْرَ الْأَ رْضِ وَالسَّمٰوَاتُ وَبَرَزُوْا لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِ} کی تفسیر
حدیث نمبر: 8646
عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَا أَوَّلُ النَّاسِ سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ عَنْ هَذِهِ الْآيَةِ {يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ وَالسَّمَاوَاتُ وَبَرَزُوا لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ} [إبراهيم: 48] قَالَتْ فَقُلْتُ أَيْنَ النَّاسُ يَوْمَئِذٍ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ عَلَى الصِّرَاطِ
۔ مسروق سے روایت ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے لوگوں میں سب سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس آیت کے بارے میں دریافت کیا: {یَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَ رْضُ غَیْرَ الْأَ رْضِ وَالسَّمٰوَاتُ وَبَرَزُوْا لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِ} … جس دن زمین تبدیل کر دی جائے گی اور آسمان بھی اور لوگ اللہ کے سامنے ظاہر ہو جائیں گے، جو یکتا و یگانہ اور زبردست ہے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اس وقت لوگ کہاں ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: پل صراط پر۔
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم: 2791، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 24069 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 24570»

حكم: صحیح

5. بَابُ: «وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمِينَ مِنْكُمْ» ‏‏‏‏
5. سورۂ حجر {وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمِیْنَ مِنْکُمْ …}کی تفسیر
حدیث نمبر: 8647
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ كَانَتِ امْرَأَةٌ حَسْنَاءُ تُصَلِّي خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَكَانَ بَعْضُ الْقَوْمِ يَسْتَقْدِمُ فِي الصَّفِّ الْأَوَّلِ لِئَلَّا يَرَاهَا وَيَسْتَأْخِرُ بَعْضُهُمْ حَتَّى يَكُونَ فِي الصَّفِّ الْمُؤَخَّرِ فَإِذَا رَكَعَ نَظَرَ مِنْ تَحْتِ إِبْطَيْهِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي شَأْنِهَا {وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمِينَ مِنْكُمْ وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَأْخِرِينَ} [الحجر: 24]
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک حسین عورت، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اقتداء میں نماز پڑھا کرتی تھی، کچھ لوگ اس نظریے سے اگلی صف میں کھڑے ہوتے تھے تاکہ وہ اس کو دیکھ نہ سکیں اور کچھ لوگ آخری صف میں اس نیت سے کھڑے ہوتے تھے کہ جب وہ رکوع کریں گے تو بغلوں کے نیچے سے اسے دیکھیں گے، پس اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل کیا: {وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمِینَ مِنْکُمْ وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَأْخِرِینَ} … ہم تم میں سے آگے والوں کو بھی جانتے ہیں اور پیچھے والوں کو بھی جانتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «صحيح، قاله الالباني۔ أخرجه ابن ماجه: 1046، والترمذي: 3122، والنسائي: 2/ 118، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 2783 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 2783»

حكم: صحیح

6. بَابُ: «وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِنَ الْمَثَانِي»
6. {وَلَقَدْ آتَیْنَاکَ سَبْعًا مِنَ الْمَثَانِیْ} کی تفسیر
حدیث نمبر: 8648
(وَعَنْهُ أَيْضًا) عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي أُمِّ الْقُرْآنِ هِيَ أُمُّ الْقُرْآنِ وَهِيَ السَّبْعُ الْمَثَانِي وَهِيَ الْقُرْآنُ الْعَظِيمُ
۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ بھی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ام القرآن (یعنی سورۂ فاتحہ) کے بارے میں فرمایا: یہی وہ سات آیات ہیں جو بار بار دہرائی جاتی ہیں اور اسی سورت کو قرآن عظیم کہتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري: 4704، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 9788 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 9787»

حكم: صحیح

حدیث نمبر: 8649
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ فِي التَّوْرَاةِ وَلَا فِي الْإِنْجِيلِ مِثْلَ أُمِّ الْقُرْآنِ وَهِيَ السَّبْعُ الْمَثَانِي وَهِيَ مَقْسُومَةٌ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ
۔ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے سورۂ فاتحہ جیسی سورت نہ تورات میں نازل کی اور نہ انجیل میں،یہی بار بار پڑھی جانے والی سات آیات ہیں اور یہ سورت میں (اللہ) اور میرے بندے کے درمیان تقسیم کی گئی ہے اور میرے بندے کے لیے وہی کچھ ہے، جو اس نے سوال کیا۔
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري: 4704، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 9788 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 21410»

حكم: صحیح

7. باب: «إن الله يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَان» ‏‏‏‏
7. سورۂ نحل {اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ …}کی تفسیر
حدیث نمبر: 8650
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ بَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ بِفِنَاءِ بَيْتِهِ بِمَكَّةَ جَالِسٌ إِذْ مَرَّ بِهِ عُثْمَانُ بْنُ مَظْعُونٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَكَشَرَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ أَلَا تَجْلِسُ قَالَ بَلَى قَالَ فَجَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ مُسْتَقْبِلَهُ فَبَيْنَمَا هُوَ يُحَدِّثُهُ إِذْ شَخَصَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ بِبَصَرِهِ إِلَى السَّمَاءِ فَنَظَرَ سَاعَةً إِلَى السَّمَاءِ فَأَخَذَ يَضَعُ بَصَرَهُ حَتَّى وَضَعَهُ عَلَى يَمِينِهِ فِي الْأَرْضِ فَتَحَرَّفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ عَنْ جَلِيسِهِ عُثْمَانَ إِلَى حَيْثُ وَضَعَ بَصَرَهُ وَأَخَذَ يُنْغِضُ رَأْسَهُ كَأَنَّهُ يَسْتَفْقِهُ مَا يُقَالُ لَهُ وَابْنُ مَظْعُونٍ يَنْظُرُ فَلَمَّا قَضَى حَاجَتَهُ وَاسْتَفْقَهَ مَا يُقَالُ لَهُ شَخَصَ بَصَرُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ إِلَى السَّمَاءِ كَمَا شَخَصَ أَوَّلَ مَرَّةٍ فَأَتْبَعَهُ بَصَرَهُ حَتَّى تَوَارَى فِي السَّمَاءِ فَأَقْبَلَ إِلَى عُثْمَانَ بِجِلْسَتِهِ الْأُولَى قَالَ يَا مُحَمَّدُ فِيمَ كُنْتُ أُجَالِسُكَ وَآتِيكَ مَا رَأَيْتُكَ تَفْعَلُ كَفِعْلِكَ الْغَدَاةَ قَالَ وَمَا رَأَيْتَنِي فَعَلْتُ قَالَ رَأَيْتُكَ تَشْخَصُ بِبَصَرِكَ إِلَى السَّمَاءِ ثُمَّ وَضَعْتَهُ حَيْثُ وَضَعْتَهُ عَلَى يَمِينِكَ فَتَحَرَّفْتَ إِلَيْهِ وَتَرَكْتَنِي فَأَخَذْتَ تُنْغِضُ رَأْسَكَ كَأَنَّكَ تَسْتَفْقِهُ شَيْئًا يُقَالُ لَكَ قَالَ وَفَطِنْتَ لِذَاكَ قَالَ عُثْمَانُ نَعَمْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ أَتَانِي رَسُولُ اللَّهِ آنِفًا وَأَنْتَ جَالِسٌ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَمَا قَالَ لَكَ قَالَ {إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ} [النحل: 90] قَالَ عُثْمَانُ فَذَلِكَ حِينَ اسْتَقَرَّ الْإِيمَانُ فِي قَلْبِي وَأَحْبَبْتُ مُحَمَّدًا
۔ سیدنا عبدا للہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ میں اپنے گھر کے صحن میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس سے عثمان بن مظعون کا گزر ہوا اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ کر مذاق سے ہنسے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: عثمان! کیا تم ہمارے پاس بیٹھ نہیں جاتے؟ اس نے کہا: جی کیوں نہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے سامنے بیٹھ گئے اور اس سے باتیں کر نے لگے، اچانک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی نظر آسمان کی طرف اٹھائی اور کچھ دیر آسمان کی طرف دیکھا، پھر نظر نیچے کی اور دائیں جانب زمین پر دیکھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ساتھی عثمان کی طرف سے منحرف ہوگئے اور سرجھکائے انداز پر بیٹھ گئے، گویا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی سے کوئی بات سمجھ رہے ہوں۔ ابن مظعون یہ سارا منظر دیکھ رہے تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا کام پورا کر لیا اور جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا گیا تھا وہ سمجھ لیا، تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی نگاہ آسمان کی جانب اٹھائی، جس طرح پہلی مرتبہ اٹھائی تھی، اپنی نظر کو اس چیز کے پیچھے لگایا حتیٰ کہ وہ چھپ گئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عثمان کی جانب پہلے کی مانند متوجہ ہوئے، انہوں نے کہا: اے محمد! جب بھی میں آپ کے ساتھ بیٹھتا ہوں یا آتا جاتا ہوں، تو جس طرح آپ نے صبح کیا تھا، اس طرح آپ نے کبھی نہیں کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم نے مجھے کیا کرتے دیکھا ہے؟ اس نے کہا: میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی ہے، پھرآپ نے دائیں جانب جھکائی ہے، پھر آپ نے مجھ سے اعراض کر لیا اورمجھے چھوڑ دیا اور اس طرح سر جھکا لیا تھا، جس طرح آپ کوئی چیز سمجھ رہے ہیں،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تم نے یہ حالت دیکھی ہے؟ عثمان نے کہا:جی میں نے دیکھی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ابھی تمہارے بیٹھے بیٹھے اللہ تعالیٰ کا قاصد آیا تھا۔ عثمان نے کہا: اللہ کا قاصد؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ انھوں نے کہا: تو پھر اس نے کیا کہا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس نے کہا: {إِنَّ اللّٰہَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِیتَائِ ذِی الْقُرْبٰی وَیَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَائِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْیِ یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُونَ} … بے شک اللہ تعالیٰ عدل و احسان اور قرابتداروں کو دینے کا حکم دیتے ہے، اور بے حیائی، برائی اور سرکشی سے منع کرتا ہے، وہ تم کو نصیحت کرتا ہے تاکہ تم عبرت پکڑو۔ سیدنا عثمان بن مظعون کہتے ہیں؛ اس وقت سے ایمان نے میرے دل میں جگہ پکڑ لی تھی اور میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرنے لگا تھا۔
تخریج الحدیث: «اسناده ضعيف، شھر بن حوشب مختلف فيه، وعبد الحميد بن بھرام مختلف فيه ايضا، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 2919 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 2919»

حكم: ضعیف

حدیث نمبر: 8651
عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كُنْتُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ جَالِسًا إِذْ شَخَصَ بِبَصَرِهِ ثُمَّ صَوَّبَهُ حَتَّى كَادَ أَنْ يُلْزِقَهُ بِالْأَرْضِ قَالَ ثُمَّ شَخَصَ بِبَصَرِهِ فَقَالَ أَتَانِي جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ فَأَمَرَنِي أَنْ أَضَعَ هَذِهِ الْآيَةَ بِهَذَا الْمَوْضِعِ مِنْ هَذِهِ السُّورَةِ {إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ} [النحل: 90]
۔ سیدنا عثمان بن ابی عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا، اچانک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نگاہ اٹھائی اور پھر نیچے جھکائی، اور قریب تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زمین کے ساتھ لگا دیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نگاہ اٹھائی اور فرمایا: جبریل علیہ السلام میرے پاس آئے ہیں اور انھوں نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں یہ آیت فلاں سورت کے فلاں مقام پر رکھوں: {إِنَّ اللّٰہَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِیتَائِ ذِی الْقُرْبٰی وَیَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَائِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْیِ یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُونَ} … بے شک اللہ تعالیٰ عدل و احسان اور قرابتداروں کو دینے کا حکم دیتا ہے، اور بے حیائی، برائی اور سرکشی سے منع کرتا ہے، وہ تم کو نصیحت کرتا ہے تاکہ تم عبرت پکڑو۔
تخریج الحدیث: «اسناده ضعيف لضعف ليث بن ابي سليم، وشھر بن حوشب، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة:)17918 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 18081»

حكم: ضعیف

حدیث نمبر: 8652
عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لَمَّا كَانَ يَوْمُ أُحُدٍ قُتِلَ مِنْ الْأَنْصَارِ أَرْبَعَةٌ وَسِتُّونَ رَجُلًا وَمِنْ الْمُهَاجِرِينَ سِتَّةٌ فَقَالَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ لَئِنْ كَانَ لَنَا يَوْمٌ مِثْلُ هَذَا مِنْ الْمُشْرِكِينَ لَنُرْبِيَنَّ عَلَيْهِمْ فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ الْفَتْحِ قَالَ رَجُلٌ لَا يُعْرَفُ لَا قُرَيْشَ بَعْدَ الْيَوْمِ فَنَادَى مُنَادِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ أَمِنَ الْأَسْوَدُ وَالْأَبْيَضُ إِلَّا فُلَانًا وَفُلَانًا نَاسًا سَمَّاهُمْ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى {وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِهِ وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِلصَّابِرِينَ} [النحل: 126] فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ نَصْبِرُ وَلَا نُعَاقِبُ
۔ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے احد کے دن انصار میں سے چونسٹھ اور مہاجرین میں سے چھ آدمی شہید ہو گئے، صحابہ کرام میں سے بعض افراد نے کہا: اب اگر ہمیں کسی دن موقع ملا تو ہم کئی گنا بڑھ کر زیادتی کریں گے، پھر جب مکہ فتح ہوا تو اس دن ایک آدمی نے کہا: آج کے بعد قریش کا نام نہ رہے گا۔ لیکن اُدھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منادی نے یہ آواز دی: سیاہ فام ہو، سفید فام ہو،ہر ایک کو امن مل گیا ہے، ما سوائے فلاں فلاں کے، چند لوگوں کے نام لیے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کر دی: {وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِہِ وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَہُوَ خَیْرٌ لِلصَّابِرِینَ} … اگر تم بدلہ لو تو جس طرح تمہیں سزا دی گئی ہے، اتنی ہی سزا دواور اگر تم صبر کرو گے تو یہ صبرکرنے والوں کے لئے بہتر ہو گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہم صبرکریں گے اور سزا نہیں دیں گے۔
تخریج الحدیث: «اسناده حسن۔ أخرجه الترمذي: 3129، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 21229 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 21549»

حكم: صحیح


1    2    3    4    5    Next