1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


الفتح الربانی
تفسير من سورة النساء إلى سورة الأعراف
تفسیر، نساء سے الاعراف
1. بَابُ آيَةِ الْمِيْرَاثِ
1. وراثت کی آیت کا بیان
حدیث نمبر: 8550
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ جَاءَتْ امْرَأَةُ سَعْدِ بْنِ الرَّبِيعِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ بِابْنَتَيْهَا مِنْ سَعْدٍ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَاتَانِ ابْنَتَا سَعْدِ بْنِ الرَّبِيعِ قُتِلَ أَبُوهُمَا مَعَكَ فِي أُحُدٍ شَهِيدًا وَإِنَّ عَمَّهُمَا أَخَذَ مَالَهُمَا فَلَمْ يَدَعْ لَهُمَا مَالًا وَلَا يُنْكَحَانِ إِلَّا وَلَهُمَا مَالٌ قَالَ فَقَالَ يَقْضِي اللَّهُ فِي ذَلِكَ فَنَزَلَتْ آيَةُ الْمِيرَاثِ فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ إِلَى عَمِّهِمَا فَقَالَ أَعْطِ ابْنَتَيْ سَعْدٍ الثُّلُثَيْنِ وَأُمَّهُمَا الثُّمُنَ وَمَا بَقِيَ فَهُوَ لَكَ
۔ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ سیدنا سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کی بیوی اپنی دو بیٹیاں لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی: اے اللہ کے رسول! یہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کی دو بیٹیاں ہیں، ان کا باپ آپ کے ساتھ جنگ احد میں شہید ہو چکا ہے اوران کے چچے نے ان کا سارا مال سمیٹ لیا ہے، ظاہر ہے اگر ان بیٹیوں کے پاس مال نہ ہوا تو ان کی شادی نہیں ہو گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس بارے میں فیصلہ فرمائے گا۔ پس میراث والی آیت نازل ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان بچیوں کے چچے کو بلایا اور اس سے فرمایا: سعد کی بیٹیوں کو دوتہائی اور ان کی ماں کو آٹھواں حصے دو، پھر جو کچھ بچ جائے (وہ بطورِ عصبہ) تیرا ہے۔
تخریج الحدیث: «اسناده محتمل للتحسين۔ أخرجه ابوداود: 2891، 2892، وابن ماجه: 2720، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 14798 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 14858»

حكم: صحیح

2. باب: «وَاللَّاتِي يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ ..»
2. {وَاللَّاتِیْیَاْتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ …} کی تفسیر
حدیث نمبر: 8551
عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ نَزَلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ وَاللَّاتِي يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ [سورة النساء: ١٥] إِلَى آخِرِ الْآيَةِ قَالَ فَفَعَلَ ذَلِكَ بِهِنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ فَبَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ وَنَحْنُ حَوْلَهُ وَكَانَ إِذَا نَزَلَ عَلَيْهِ الْوَحْيُ أَعْرَضَ عَنَّا وَأَعْرَضْنَا عَنْهُ وَتَرَبَّدَ وَجْهُهُ وَكَرَبَ لِذَلِكَ فَلَمَّا رُفِعَ عَنْهُ الْوَحْيُ قَالَ خُذُوا عَنِّي قُلْنَا نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لَهُنَّ سَبِيلًا الْبِكْرُ بِالْبِكْرِ جَلْدُ مِائَةٍ وَنَفْيُ سَنَةٍ وَالثَّيِّبُ بِالثَّيِّبِ جَلْدُ مِائَةٍ ثُمَّ الرَّجْمُ قَالَ الْحَسَنُ فَلَا أَدْرِي أَمِنَ الْحَدِيثِ هُوَ أَمْ لَا قَالَ فَإِنْ شَهِدُوا أَنَّهُمَا وُجِدَا فِي لِحَافٍ لَا يَشْهَدُونَ عَلَى جِمَاعٍ خَالَطَهَا بِهِ جَلْدُ مِائَةٍ وَجُزَّتْ رُءُوسُهُمَا
۔ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر یہ آیت نازل ہوئی: {وَالّٰتِیْیَاْتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ مِنْ نِّسَایِکُمْ فَاسْتَشْہِدُوْا عَلَیْہِنَّ اَرْبَعَۃً مِّنْکُمْ فَاِنْ شَہِدُوْا فَاَمْسِکُوْھُنَّ فِی الْبُیُوْتِ حَتّٰییَتَوَفّٰیھُنَّ الْمَوْتُ اَوْ یَجْعَلَ اللّٰہُ لَھُنَّ سَبِیْلًا۔} … اور تمھاری عورتوں میں سے جو بد کاری کا ارتکاب کریں، ان پر اپنے میں سے چار مرد گواہ طلب کرو، پھر اگر وہ گواہی دے دیں تو انھیں گھروں میں بند رکھو، یہاں تک کہ انھیں موت اٹھا لے جائے، یااللہ ان کے لیے کوئی راستہ بنا دے۔ (سورۂ نساء:۱۵) پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواتین کے ساتھ اسی طرح کیا، پھر ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے اور ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گرد جمع تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی نازل ہوتی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم سے رخ پھیر لیا کرتے تھے، اب کی بار بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم سے رخ پھیر لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رخ مبارک کا رنگ تبدیل ہوگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تکلیف ہوئی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وحی کی کیفیت دور ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھ سے حکم وصول کرو۔ ہم نے کہا: جی ہاں، اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے بار ے میں یہ راستہ بتایا ہے کہ جب کنوارا، کنواری کے ساتھ زناکرے تو سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی اور جب شادی شدہ، شادی شدہ سے زنا کا ارتکاب کرتے تو سو کوڑے اور پھر رجم۔ حسن راوی کہتے ہیں: میں یہ نہ جان سکا کہ یہ اگلا حصہ حدیث کا حصہ ہے یا نہیں ہے: اگر لوگ گواہی دیں کہ یہ مرد اور عورت ایک لحاف میں پائے گئے ہیں، لیکن اس کے ساتھ جماع کی گواہی نہ دیں تو انہیں سو کوڑے مارے جائیں گے اور ان کے سر مونڈ دیئے جائیں گے۔
تخریج الحدیث: «حديث صحيح دون قوله: فان شھدوا الخ، وھذا الاسناد منقطع، فان الحسن البصري لم يسمع من عبادة بن الصامت۔ أخرجه مسلم: 1690 بلفظ خُذُوا عَنِّي خُذُوا عَنِّي قَدْ جَعَلَ اللّٰهُ لَهُنَّ سَبِيلًا الْبِكْرُ بِالْبِكْرِ جَلْدُ مِائَةٍ وَنَفْيُسَنَةٍ وَالثَّيِّبُ بِالثَّيِّبِ جَلْدُ مِائَةٍ وَالرَّجْمُ، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 22780 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 23161»

حكم: صحیح

3. بَابُ قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: «وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ» ‏‏‏‏وَقَوْلِهِ: «وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللَّهُ بِهِ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ» وَقَوْلِهِ: «فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بشَهيد....» ‏‏‏‏
3. وَقَوْلِہٖ: {وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللّٰہُ بِہِ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ}¤وَقَوْلِہٖ: {فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ بِشَہِیْدٍ …}¤ان آیات کی تفسیر کا بیان
حدیث نمبر: 8552
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ أَصَبْنَا نِسَاءً مِنْ سَبْيِ أَوْطَاسٍ وَلَهُنَّ أَزْوَاجٌ فَكَرِهْنَا أَنْ نَقَعَ عَلَيْهِنَّ وَلَهُنَّ أَزْوَاجٌ فَسَأَلْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ [سورة النساء: ٢٤] قَالَ فَاسْتَحْلَلْنَا بِهَا فُرُوجَهُنَّ
۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ہم نے بنو اوطاس قبیلہ کی خواتین لونڈیوں کے طور پرحاصل کیں، جبکہ ان کے خاوند موجود تھے (یعنی وہ پہلے شادی شدہ تھیں اور ان کے خاوند زندہ تھے)، اس لیے ہم نے ان سے جماع کو ناپسند کیا، کیونکہ ان کے خاوند موجود ہیں، پھر جب ہم نے اس بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا تو یہ آیت نازل ہوئی: {وَالْمُحْصَنَاتُ مِنْ النِّسَائِ إِلَّا مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ} … اور خاوند والی عورتیں (بھی حرام کی گئی ہیں) مگر وہ (لونڈیاں) جن کے مالک تمھارے دائیں ہاتھ ہوں۔ تو ملک یمین کی وجہ سے ہم نے ان سے صحبت کی۔
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم: 1456، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 11691 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 11714»

حكم: صحیح

حدیث نمبر: 8553
عَنْ مُجَاهِدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ يَغْزُو الرِّجَالُ وَلَا نَغْزُو وَلَنَا نِصْفُ الْمِيرَاثِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللَّهُ بِهِ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ [سورة النساء: ٣٢]
۔ مجاہد کہتے ہیں کہ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اے اللہ کے رسول! مرد جہاد کرتے ہیں اور ہم عورتیں جہاد میں شرکت نہیں کرتیں اور ہماری وراثت کا حصہ بھی مردوں سے آدھا ہے؟ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: {وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللّٰہُ بِہٖ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَـسَبُوْا وَلِلنِّسَاءِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَـسَبْنَ وَسْـئَلُوا اللّٰہَ مِنْ فَضْلِہٖ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِـیْمًا} … اور اس چیز کی تمنا نہ کرو جس میں اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے، مردوں کے لیے اس میں سے ایک حصہ ہے، جو انھوں نے محنت سے کمایا اور عورتوں کے لیے اس میں سے ایک حصہ ہے، جو انھوں نے محنت سے کمایا اور اللہ سے اس کے فضل میں سے حصہ مانگو۔ بے شک اللہ ہمیشہ سے ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔
تخریج الحدیث: «اسناده ضعيف، فيه انقطاع بين مجاھد وام سلمة۔ أخرجه الترمذي: 3022، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 26736 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 27272»

حكم: ضعیف

حدیث نمبر: 8554
عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَرَأْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ مِنْ سُورَةِ النِّسَاءِ فَلَمَّا بَلَغْتُ هَذِهِ الْآيَةَ فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلَاءِ شَهِيدًا [سورة النساء: ٤١] قَالَ فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ
۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سورۂ نساء تلاوت کی، جب میں اس آیت پر پہنچا: {فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ بِشَہِیْدٍ وَجِئْنَا بِکَ عَلٰی ھٰؤُلَائِ شَہِیْدًا} … وہ کیفیت کیسی ہو گی، جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے اور تجھے ان سب پرگواہ لائیں گے۔ اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري: 5050، ومسلم: 800، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 3551 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 3551»

حكم: صحیح

4. بَابُ: «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُو الرَّسُوْلَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ»
4. {یَااَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُو الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِمِنْکُمْ} کی تفسیر
حدیث نمبر: 8555
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّهُ قَالَ نَزَلَتْ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ [سورة النساء: ٥٩] فِي عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حُذَافَةَ بْنِ قَيْسِ بْنِ عَدِيٍّ السَّهْمِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِذْ بَعَثَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ فِي السَّرِيَّةِ
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا عبد اللہ بن حذافہ سہمی کو ایک لشکر کا امیر بنا کر بھیجا تھا، اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی: {یَااَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُو الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِمِنْکُمْ} … اے ایماندارو! تم اللہ تعالیٰ کی ااطاعت کرو اور رسول اور صاحب ِ امر لوگوں کی اطاعت کرو۔
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري: 4584، ومسلم: 1834، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 3124 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 3124»

حكم: صحیح

5. بَابُ: «فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ» ‏‏‏‏
5. {فَـلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ} کی تفسیر
حدیث نمبر: 8556
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ خَاصَمَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ الزُّبَيْرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ فِي شِرَاجِ الْحَرَّةِ الَّتِي يَسْقُونَ بِهَا النَّخْلَ فَقَالَ الْأَنْصَارِيُّ لِلزُّبَيْرِ سَرِّحِ الْمَاءَ فَأَبَى فَكَلَّمَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ اسْقِ يَا زُبَيْرُ ثُمَّ ارْسِلْ إِلَى جَارِكَ فَغَضِبَ الْأَنْصَارِيُّ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنْ كَانَ ابْنَ عَمَّتِكَ فَتَلَوَّنَ وَجْهُهُ ثُمَّ قَالَ احْبِسِ الْمَاءَ حَتَّى يَبْلُغَ إِلَى الْجُدُرِ قَالَ الزُّبَيْرُ وَاللَّهِ إِنِّي لَأَحْسِبُ هَذِهِ الْآيَةَ نَزَلَتْ فِي ذَلِكَ فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ إِلَى قَوْلِهِ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا [سورة النساء: ٦٥]
۔ سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ اور ایک انصاری کے درمیان حرہ کے ایک نالے کے بارے میں جھگڑا ہو گیا، اس نالے سے کھجوروں کو سیراب کیا کرتے تھے۔ انصاری رضی اللہ عنہ نے سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ سے کہا: میری کھجوروں کے لئے پانی چھوڑدو، لیکن انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا، انصاری وہ مقدمہ لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچ گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے زبیر! تم پہلے سیراب کر کے پانی کواپنے ہمسائے کے لیے چھوڑ دیا کرو۔ لیکن اس فیصلے سے انصاری کو غصہ آ گیا اور اس نے کہا: یہ آپ کی پھوپھی کا بیٹا ہے اس لئے یہ فیصلہ کیا ہے، یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ متغیر ہو گیا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے زبیر! اب اتنی دیر پانی روک کر رکھنا کہ دیوار تک پہنچ جائے، پھر آگے چھوڑنا۔ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اللہ کی قسم! میرا خیال ہے کہ یہ آیت اسی بارے میں ہی نازل ہوئی تھی: {فَلَاوَرَبِّکَ لَایُؤْمِنُوْنَ حَتّٰییُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا} … سو قسم ہے تیرے پروردگار کی! یہ مومن نہیں ہو سکتے، جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں، پھر جو فیصلے آپ ان میں کر دیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں۔ (سورۂ نساء: ۶۵)
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري: 2359، ومسلم: 2357، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 16116 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 16215»

حكم: صحیح

6. بَابُ: «فَمَا لَكُمْ فِي الْمُنَافِقِيْنِ فِئَتَيْنِ»
6. {فَمَا لَکُمْ فِی الْمُنَافِقِیْنِ فِئَتَیْنِ} کی تفسیر
حدیث نمبر: 8557
عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ قَوْمًا مِنَ الْعَرَبِ أَتَوْا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ فَأَسْلَمُوا وَأَصَابَهُمْ وَبَاءُ الْمَدِينَةِ حُمَّاهَا فَأُرْكِسُوا فَخَرَجُوا مِنَ الْمَدِينَةِ فَاسْتَقْبَلَهُمْ نَفَرٌ مِنْ أَصْحَابِهِ يَعْنِي أَصْحَابَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا لَهُمْ مَا لَكُمْ رَجَعْتُمْ قَالُوا أَصَابَنَا وَبَاءُ الْمَدِينَةِ فَاجْتَوَيْنَا الْمَدِينَةَ فَقَالُوا أَمَا لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ فَقَالَ بَعْضُهُمْ نَافَقُوا وَقَالَ بَعْضُهُمْ لَمْ يُنَافِقُوا هُمْ مُسْلِمُونَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فَمَا لَكُمْ فِي الْمُنَافِقِينَ فِئَتَيْنِ وَاللَّهُ أَرْكَسَهُمْ بِمَا كَسَبُوا [سورة النساء: ٨٨] الْآيَةَ
۔ سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عرب کے کچھ لوگ مدینہ منورہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور مسلمان ہو گئے،لیکن جب وہ مدینہ کی وبایعنی بخار میں مبتلا ہوئے تو ان کو پلٹا دیا گیا اور وہ مدینہ سے نکل گئے، ان کو آگے سے صحابۂ کرام کا ایک گروہ ملا اور اس نے ان سے پوچھا: کیا ہوا ہے تم کو،واپس جا رہے ہو؟ انھوں نے کہا: ہمیں مدینہ کی وبا لگ گئی ہے اور اس شہر کی آب و فضا موافق نہ آنے کی وجہ سے پیٹ میں بیماری پیدا ہو گئی ہے۔ مسلمانوں نے کہا:کیا تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات میں نمونہ نہیں ہے؟ اب بعض مسلمانوں نے کہا: وہ منافق ہو گئے ہیں اور بعض نے کہا: وہ منافق نہیں ہوئے، بلکہ مسلمان ہیں، پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کر دی: {فَمَا لَکُمْ فِی الْمُنَافِقِینَ فِئَتَیْنِ وَاللّٰہُ أَرْکَسَہُمْ بِمَا کَسَبُوْا۔} … پھر تمھیں کیا ہوا کہ منافقین کے بارے میں دو گروہ ہوگئے، حالانکہ اللہ نے انھیں اس کی وجہ سے الٹا کر دیا جو انھوں نے کمایا۔
تخریج الحدیث: «اسناده ضعيف، محمد بن اسحاق مدلس وقد عنعن، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 1667 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 1667»

حكم: ضعیف

حدیث نمبر: 8558
عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ إِلَى أُحُدٍ فَرَجَعَ أُنَاسٌ خَرَجُوا مَعَهُ فَكَانَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ فِرْقَتَيْنِ فِرْقَةٌ تَقُولُ بِقِتْلَتِهِمْ وَفِرْقَةٌ تَقُولُ لَا فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فَمَا لَكُمْ فِي الْمُنَافِقِينَ فِئَتَيْنِ [سورة النساء: ٨٨] فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ إِنَّهَا طَيْبَةُ وَإِنَّهَا تَنْفِي الْخَبَثَ كَمَا تَنْفِي النَّارُ خَبَثَ الْفِضَّةِ
۔ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم احد کی طرف نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ (نکلنے والے منافق راستے سے) واپس لوٹ آئے، ان کی وجہ سے صحابہ کرام کے دو فریق بن گئے، ایک فریق کا خیال تھا کہ ہم لوگ ان منافقوں سے لڑیں، جبکہ دوسرے فریق کی رائے یہ تھی کہ ان سے نہیں لڑنا چاہیے، پس یہ آیت نازل ہوئی: {فَمَا لَکُمْ فِی الْمُنَافِقِینَ فِئَتَیْنِ وَاللّٰہُ أَ رْکَسَہُمْ بِمَا کَسَبُوْا۔} … پھر تمھیں کیا ہوا کہ منافقین کے بارے میں دو گروہ ہوگئے، حالانکہ اللہ نے انھیں اس کی وجہ سے الٹا کر دیا جو انھوں نے کمایا۔ پھرآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ طیبہ ہے، یہ گناہوں کی ایسی صفائی کرتا ہے، جیسے آگ چاندی کی میل کچیل کو ختم کر دیتی ہے۔
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري: 1884، ومسلم: 2776، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 21599 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 21935»

حكم: صحیح

7. بَابُ: «وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا ... الخ» ‏‏‏‏
7. {وَمَنْ یَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا … الخ} کی تفسیر
حدیث نمبر: 8559
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَجُلًا أَتَاهُ فَقَالَ أَرَأَيْتَ رَجُلًا قَتَلَ رَجُلًا مُتَعَمِّدًا قَالَ جَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا [سورة النساء: ٩٣] قَالَ لَقَدْ أُنْزِلَتْ فِي آخِرِ مَا نَزَلَ مَا نَسَخَهَا شَيْءٌ حَتَّى قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ وَمَا نَزَلَ وَحْيٌ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَرَأَيْتَ إِنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدَى قَالَ وَأَنَّى لَهُ بِالتَّوْبَةِ وَقَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ ثَكِلَتْهُ أُمُّهُ رَجُلٌ قَتَلَ رَجُلًا مُتَعَمِّدًا يَجِيءُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ آخِذًا قَاتِلَهُ بِيَمِينِهِ أَوْ بِيَسَارِهِ وَآخِذًا رَأْسَهُ بِيَمِينِهِ أَوْ شِمَالِهِ تَشْخَبُ أَوْدَاجُهُ دَمًا قِبَلَ الْعَرْشِ يَقُولُ يَا رَبِّ سَلْ عَبْدَكَ فِيمَ قَتَلَنِي
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی ان کے پاس آیا اور اس نے کہا: اس بارے میں بتائیں ایک آدمی دوسرے آدمی کو جان بوجھ کو قتل کر دیتا ہے (اس کی کیا سزا ہے)؟ انھوں نے کہا: {جَزَاؤُہُ جَہَنَّمُ خَالِدًا فِیہَا وَغَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَلَعَنَہُ وَأَ عَدَّ لَہُ عَذَابًا عَظِیمًا} … اس کا بدلہ جہنم ہے، وہ اس میں ہمیشہ رہے گا اور اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہوا، اللہ تعالیٰ نے اس پر لعنت کی اور اس کے لئے بہت بڑا عذاب تیار کیا ہے۔ یہ آیت سب سے آخر میں اتری ہے، کسی آیت نے اس کو منسوخ نہیں کیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات تک یہی حکم باقی رہا، اس کے بعد اس بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کوئی وحی نازل نہیں ہوئی۔ اس آدمی نے کہا: اگر وہ توبہ کر لے، ایمان مضبوط کر لے اورنیک عمل کرے اور ہدایتیافتہ ہو جائے تو؟ انھوں نے کہا:اس کی توبہ کیسے قبول ہوگی، جبکہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: اس کی ماں اسے گم پائے، ایک آدمی دوسرے آدمی کو جان بوجھ کر قتل کرتا ہے، وہ مقتول روزِ قیامت اس حال میں آئے گا کہ اس نے دائیں یا بائیں ہاتھ سے اپنے قاتل کو پکڑا ہوگا اور اسے سر سے بھی پکڑ رکھا ہوگا، اس وقت مقتول کی رگوں سے خون بہہ رہا ہوگا، وہ اس کو عرش کے سامنے لے آئے گا اور کہے گا: اے میرے رب! اپنے اس بندے سے پوچھو اس نے مجھے کس وجہ سے قتل کیا تھا۔
تخریج الحدیث: «حديث صحيح۔ أخرجه ابن ماجه: 2621، والنسائي: 7/ 58، وأخرجه بنحوه الترمذي: 3029، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 2142 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 2142»

حكم: صحیح


1    2    3    4    5    Next