۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے جہاں بیماری پیدا کی ہے، وہاں اس کا علاج بھی پیدا کیا ہے، پس علاج کیا کرو۔
تخریج الحدیث: «صحيح لغيره، أخرجه ابن ابي شيبة: 8/ 1، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 12596 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 12624»
۔ سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر بیماری کا علاج ہے، جب دواء بیماری کے مطابق ہو جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے مریض صحت مند ہو جا تا ہے۔
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم: 2204، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 14597 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 14651»
۔ اسامہ بن شریک اپنی قوم کے ایک آدمی سے بیان کرتے ہیں کہ ایک دیہاتی آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! لوگوں میں سے سب سے زیادہ بہتر کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو سب سے زیادہ بہتر اخلاق والا ہو۔ اس نے پھر کہا: اے اللہ کے رسول! کیا ہم علاج معالجہ کروا سکتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بالکل علاج کرواؤ، اللہ تعالیٰ نے جو بیماری نازل کی ہے، اس کی دوا بھی پیدا کی ہے اور شفاء بھی پیدا کی ہے، اسے جان لیا جس نے جان لیا اور اس سے بے خبر رہا ہے، جو بے خبر رہا ہے۔
تخریج الحدیث: «حديث صحيح، أخرجه ابوداود: 3855، وابن ماجه: 3436، والترمذي: 2038، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 18456 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 18647»
۔ (دوسری سند) شعبہ، زیاد بن علاقہ سے اور وہ سیدنا اسامہ بن شریک رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا: میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آپ کے صحابۂ کرام بھی موجود تھے، وہ ایسے باادب بیٹھے تھے جیسے کہ ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوئے ہیں، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلام کہا اور وہاں بیٹھ گیا، ایک دیہاتی آیا اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا: اے اللہ کے رسول! کیا ہم علاج کروا سکتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں! علاج کرواؤ یا کرو، بے شک اللہ تعالیٰ نے جو بیماری بھی پیدا کی ہے، اس کا علاج بھی پیدا کیا ہے، صرف بڑھاپے کا (اور ایک روایت کے مطابق موت کا بھی) کوئی علاج نہیں۔ جب سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ بوڑھے ہو گئے تو وہ کہتے تھے: کیا اب تم میرا علاج کر سکتے ہو۔اس کے علاوہ دیہاتیوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ فلاںفلاں چیز میں کوئی حرج ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ کے بندو! اللہ تعالیٰ نے دین میں حرج رکھی ہی نہیں، مگر اس معاملہ میں حرج ہے جو مسلمان ظلم کرتا ہے، یہ حرج ہے، یہ ہلاکت ہے۔ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! سب سے بہتر کیا چیز ہے، جو لوگوں کو عطا کی گئی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اچھے اخلاق۔
تخریج الحدیث: «انظر الحديث بالطريق الاول ترقیم بيت الأفكار الدولية: 18645»
۔ ایک صحابی سے سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انصار کے ایک آدمی کی عیادت کی، جسے زخم لگا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بنو فلاں کا حکیم بلا کر لاؤ۔ لوگوں نے اس کو بلایا اور وہ آ گیا، اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! اے اللہ کے رسول! کیا دوا کام آتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سبحان اللہ! زمین میں جو بیماری بھی ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کی شفاء بھی پیدا کی ہے۔
تخریج الحدیث: «اسناده صحيح، أخرجه ابن ابي شيبة: 8/ 1، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 23156 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 23543»
۔ عطاء بن سائب بیان کرتے ہیں کہ میں عبد الرحمن کے پاس آیا، وہ ایک غلام کو داغ لگا رہے تھے، میں نے کہا: تم اسے داغتے ہو؟ انھوں نے کہا: ہاں یہ عرب والوں کا طریقۂ علاج ہے، سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے جو بیماری بھی پیدا کی ہے، اس کے ساتھ اس کی دواء بھی نازل کی ہے، تم میں سے جو آدمی اس سے نادان رہا ہے، وہ نادان رہا ہے اور جس نے اسے جان لیا ہے، سو اس نے جان لیا۔
تخریج الحدیث: «صحيح لغيره، أخرجه الحميدي: 90، والبيھقي: 9/ 343، وابن حبان: 6062، وابويعلي: 5183، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 4267 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 4267»
۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: داغنے کے بجائے کپڑے سے سینکنا بہتر ہے، گلے میں انگلی مارکر دوائی لگانے کی بجائے ناک میں قطرہ ڈالنا بہتر طریقہ علاج ہے اور اب گلے میں پھونکیں مارنے کی بہ نسبت منہ کی ایک جانب سے دوائی ڈالنا بہتر طریقہ علاج ہے۔
تخریج الحدیث: «اسناده ضعيف، ابراهيم بن يزيد النخعي لم يسمع من عائشة، ومغيرة الضبي روايته عن ابراهيم ضعيفة، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 25371 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 25885»
۔ ابو خذامہ، جو بنو حارث بن سعد بن مریم میں سے ہیں، بیان کرتے ہیں: اے اللہ کے رسول! آپ بتائیں کہ ایک دوا کے ذریعہ ہم علاج کرواتے ہیں اور دم کے ذریعے دم کرواتے ہیں اوربچاؤ کے ذریعہ سے ہم بچاؤ اختیار کرتے ہیں (یعنی احتیاط کر لیتے ہیں)کیا یہ امور اللہ تعالیٰ کی تقدیر کو ردّ کر دیتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ بھی اللہ تعالیٰ کی تقدیر کاحصہ ہیں۔
تخریج الحدیث: «اسناده ضعيف، أخرجه الترمذي: 2148، وابن ماجه: 3437، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 15472 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 15553»
۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خبیث دواکے ساتھ علاج کرنے سے منع فرمایا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مراد زہر تھی۔
تخریج الحدیث: «اسناده حسن، أخرجه ابن ماجه: 3459، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 10194 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 10197»
۔ سیدنا طارق بن سوید حضرمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہماری سر زمین میں انگور ہیں، ہم ان کو نچوڑ کر (شراب بناتے ہیں) اور پھر پیتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں۔ میں نے پھر اپنی بات دہرائی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں۔ میں نے کہا: ہم اس کے ذریعہ بیمار کے لیے شفا طلب کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بیشک یہ شفا نہیں ہے، بلکہ یہ تو خود بیماری ہے۔
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم: 1984، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 18787 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 18994»