۔ سیدنا عاصم بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہما کو طلاق دی اور پھر ان سے رجوع کر لیا۔
تخریج الحدیث: «حديث صحيح لغيرھ، أخرجه الطبراني في الكبير: 17/ 366، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 15924 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 16020»
۔ سیدنا لقیط بن صبرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میری ایک بیوی ہے، پھر انھوں نے اس کی زبان درازی اور تکلیف دینے کی شکایت کی،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس کو طلاق دے دو۔ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! وہ پرانی رفیقہ حیات ہے اور اس سے میری اولاد بھی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تو پھر اس کو اپنے پاس رکھو، البتہ تلقین کرتے رہو، اگر اس میں کوئی خیر و بھلائی ہوئی تو وہ اسے قبول کرے گی، لیکن تم نے اپنی بیوی کو اس طرح نہیں مارنا جس طرح لونڈی کو مارا جاتا ہے۔
تخریج الحدیث: «اسناده صحيح، أخرجه بنحوه ابوداود: 144، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 16384 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 16497»
۔ مولائے رسول سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جوعورت بغیر کسی مجبوری کے اپنے خاوند سے طلاق کا مطالبہ کرتی ہے، اس پر جنت کی خوشبو حرام ہو گی۔
تخریج الحدیث: «حديث صحيح، أخرجه الترمذي: 1187، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 22379 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 22738»
۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: آدمی اپنے بھائی کی منگنی پر منگنی نہ کرے، کسی خاتون سے اس کی پھوپھی اور خالہ کی موجودگی میں نکاح نہ کیا جائے، کوئی عوررت اپنی بہن کی طلاق کا سوال نہ کرے، تاکہ وہ اس کے پیالے میں جو کچھ ہے، اس کو انڈیل دے، اس کو چاہیے کہ وہ نکاح کر لے، کیونکہ اس کو وہ کچھ مل جائے گا، جو اللہ تعالیٰ نے اس کے مقدر میں لکھا ہو گا۔
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم: 1408، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 10605 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 10613»
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہماما سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میرے عقد نکاح میں ایک عورت تھی، مجھے اس سے بہت محبت تھی، لیکن میرے باپ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اس کو ناپسند کرتے تھے، پس انہوں نے مجھے حکم دیا کہ میں اس کو طلاق دے دوں،لیکن میں نے انکار کر دیا، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی ایک بیوی ہے، مجھے وہ ناپسند ہے، میں نے اس سے کہا کہ وہ اس کو طلاق دے دے، لیکن اس نے انکار کر دیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے عبد اللہ! اپنی بیوی کو طلاق دے دو۔ سو میں نے اسے طلاق دے دی۔
تخریج الحدیث: «اسناده قوي، أخرجه الترمذي: 1189، والنسائي: 5/339، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 5011 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 5011»
۔ انس بن سیرین سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ان کی اس بیوی کے متعلق سوال کیا، جسے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں طلاق دی تھی، انہوں نے کہا: میں نے اس کو حالتِ حیض میں طلاق دی، پھر میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بتایا اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے یہ بات بیان کی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اسے حکم دو کہ وہ اس سے رجوع کر لے، پھر جب وہ حیض سے پاک ہو جائے تو سنت کے مطابق اسے طہر میں طلاق دے۔ میں نے ایسے ہی کیا، انس بن سیرین کہا: میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ تم نے جو طلاق حالت حیض میں دی تھی کیاوہ شمار کی گئی تھی، انھوں نے کہا: بھلا میں اس کو شمار کیوں نہ کرتا، اگر میں عاجز آگیا اور حماقت کا مظاہرہ کر بیٹھا تو (کیا خیال ہے کہ وہ طلاق شمار نہ ہوتی)۔
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم: 1471، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 6119 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 6119»
۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انھوں نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی، جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ابن عمر سے کہو کہ وہ رجوع کرلے اور پھر اس کو اس حالت میں طلاق دے کہ وہ حالتِ طہر میں ہو یا حاملہ ہو۔
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم: 1471، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 4789 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 4789»
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہماما سے مروی ہے کہ انھوں نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں ایک طلاق دے دی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ رجوع کر لے اور اس کو پاس رکھے، یہاں تک کہ وہ پاک ہو جائے، پھر اس کے پاس ہی اسے دوسرا حیض آئے، پھر اس کو مہلت دے، یہاں تک کہ اسے حیض آئے اور وہ اس سے پاک ہو جائے، اب جبکہ وہ پاک ہوئی ہے، اگر اس کا ارادہ طلاق دینے کا ہو تو وہ قبل از جماع اسے طلاق دے دے، یہ وہ عدت ہے کہ جس کا اللہ تعالیٰ نے طلاق دینے کا حکم دیا ہے۔ جب سیدنا عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے اس بارے میں دریافت کیا جاتا تو وہ کہتے: تونے اپنی بیوی کو ایک مرتبہ طلاق دی ہے یا دو مرتبہ، مجھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رجوع کرنے کا حکم دیا تھا، اور اگر تونے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں تو وہ تجھ پر حرام ہو گئی ہے، اب اس کے حلال ہونے کی یہ صورت ہے کہ وہ تیرے علاوہ کسی دوسرے شخص سے نکاح کرے، ہاں تو نے غلط طریقہ سے طلاق دے کر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی ہے۔
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري: 5332، ومسلم: 1471، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 6061 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 6061»
۔ ابوزبیر کہتے ہیں: میں نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے اس آدمی کے متعلق سوال کیا جو اپنی بیوی کو حالت ِ حیض میں طلاق دیتا ہے، انہوں نے کہا: سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی بیوی کو حالت ِ حیض میں طلاق دی تھی اورسیدنا عمر رضی اللہ عنہ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس طلاق کی اطلاع دی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ابن عمر رجوع کر لے، کیونکہ یہ اس کی بیوی ہے۔
تخریج الحدیث: «اسناده ضعيف، عبدالله بن لھيعة سييء الحفظ، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 15150 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 15217»
۔ ابوزبیر سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:عبد الرحمن بن ایمن نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہماسے سوال کیا جا رہا تھا، جبکہ میں سن رہا تھا، انھوں نے کہا: اس آدمی کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے، جو حالت ِ حیض میں بیوی کو طلاق دیتا ہے؟ انھوں نے کہا: میں ابن عمر رضی اللہ عنہما نے عہد ِ نبوی میں اپنی بیوی کو اسی طرح طلاق دی تھی، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! عبد اللہ نے اپنی بیوی کو حالت ِ حیض میں طلاق دے دی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ رجوع کر لے، پھر جب وہ پاک ہو جائے تو وہ چاہے تو طلاق دے دے اور چاہے تو اپنے پاس رکھ لے۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو مجھ پر لوٹا دیا اور اس کو کچھ خیال نہ کیا، پھر سیدنا ابن عمر کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: {یَا أیُّھَا النَّبِیُّ إِذَا طَلَقَّتُمُ النِّسَائَ فَطَلِّقُوْھُنَّ فِیْ قُبُلِ عِدَّتِہِنَّ} … اے نبی! جب تم عورتوں کو طلاق دینے لگو تو انہیں ان کی عدت کے شروع میں طلاق دو۔ ابن جریج کہتے ہیں: میں نے مجاہد کو سنا کہ وہ اس آیت کو اسی طرح تلاوت کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «صحيح دون قوله: ولم يرھا شيئا، أخرجه مسلم: 1471 دون ھذه الزيادة، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 5524 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 5524»