۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: روز قیامت لوگوں کے درمیان سب سے پہلے جو فیصلہ کیا جائے گا، وہ خونوں کے بارے میں ہوگا۔
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري: 6533، 6864، ومسلم: 1678، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 3674 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 3674»
۔ سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ، جو کہ کم احادیث بیان کرنے والے تھے، سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہرگناہ معاف کر دے، مگر وہ آدمی جو کفر کی حالت میں مرتا ہے اور جو جان بوجھ کر مؤمن کو قتل کرتا ہے۔
تخریج الحدیث: «حديث صحيح لغيره۔ أخرجه النسائي: 7/ 81، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 16907 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 17031»
۔ سیدنا جابربن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر لوگوں سے پوچھا: وہ کون سا دن ہے، جس کی حرمت سب سے زیادہ ہے؟ انہوں نے کہا: یہی ہمارا دن۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ کون سا مہینہ ہے، جس کی حرمت سب سے زیادہ ہے۔ انھوں نے کہا: یہی ہمارا ذوالحجہ کا مہینہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ کونسا شہر ہے، جس کی حرمت سب سے زیادہ ہے؟ انھوں نے کہا: یہی ہمارا شہر۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تو پھر تمہارا خون اور تمہارا مال تم پر اسی طرح حرام ہیں، جس طرح تمہارے اس شہر میں اور تمہارے اس مہینے میں تمہارے اس دن کی حرمت ہے۔
تخریج الحدیث: «اسناده صحيح علي شرط الشيخين۔ أخرجه ابن ابي شيبة: 15/ 27، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 14365 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 14418»
۔ سالم بن ابی جعد سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے کسی نے دریافت کیا کہ ایک آدمی ایک مؤمن کو قتل کرتا ہے، لیکن پھر توبہ کر لیتا ہے،ایمان لے آتا ہے، نیک عمل کرتا ہے اور ہدایت یافتہ ہو جاتا ہے۔ انہوں نے کہا: بڑا افسوس ہے تجھ پر، ایسے قاتل کے لئے ہدایت کہاں سے آئے گی؟ میں نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: مقتول اپنے قاتل کے ساتھ چمٹ کر آئے گا اور کہے گا: اے میر ے رب! اس سے پوچھ کہ اس نے کس وجہ سے مجھے قتل کیا تھا۔ اللہ کی قسم! اللہ تعالی نے تمہارے نبی پر اس آیت کو نازل کیا اور اس کو نازل کرنے کے بعد منسوخ نہیں کیا۔ بڑا فسوس ہے تجھ پر، ایسے قاتل کو ہدایت کہاں سے ملے گی؟
تخریج الحدیث: «اسناده صحيح علي شرط مسلم۔ أخرجه النسائي: 7/ 85، وابن ماجه: 2621، وأخرج بنحوه الترمذي: 3029، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 1941 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 1941»
۔ (دوسری سند) ایک آدمی، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس آیا اور کہا: اے ابن عباس!اس آدمی کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے، جو مومن کو قتل کر دیتا ہے؟ انھوں نے کہا:اس کی ماں اسے گم پائے، اس کے لیے توبہ کہاں سے آئے گی، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو یہ فرمایا ہے کہ بیشک مقتول قیامت والے دن اپنے دائیں یا بائیں کے ساتھ اپنے سر کو پکڑ کر اور دوسرے ہاتھ سے اپنے قاتل کو پکڑ کر رحمن کے عرش کی طرف لائے گا،جبکہ اس کی رگیں خون بہا رہی ہوں گی، اور وہ کہے گا: اے میرے ربّ! اس سے پوچھو، اس نے مجھے کیوں قتل کیا تھا۔
تخریج الحدیث: «انظر الحديث بالطريق الاول ترقیم بيت الأفكار الدولية: 2683»
۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مسلمان کا اپنے بھائی کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے لڑنا کفر ہے اور مسلمان کے مال کی حرمت اس کے خون کی حرمت کی مانند ہے۔
تخریج الحدیث: «أخرجه دون الفقرة الاخيرة البخاري: 48، ومسلم: 64، وھذه الفقرة صحيحة بالشواھد، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 4262 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 4262»
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: آدمی اس وقت تک دین کے معاملے میں یعنی نیکیاں کرنے میں وسعت میں رہتا ہے، جب تک حرام خون بہانے کا ارتکاب نہیں کرتا۔
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري: 6862، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 5681 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 5681»
۔ مرثد بن عبد اللہ یزنی ایک صحابی سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قاتل اور قتل کا حکم دینے والے کے بارے میں سوال کیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: دوزخ کو ستر حصوں میں تقسیم کی گیا، قتل کا حکم دینے والے کے لئے انہتر حصے ہوں گے اور قاتل کے لئے ایک حصہ ہو گا اور وہی اس کے لیے کافی ہو گا۔
تخریج الحدیث: «اسناده ضعيف، محمد بن اسحاق مدلس وقد عنعنه۔ أخرجه البيھقي في ’’الشعب‘‘: 5360، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 23066 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 23454»
۔ سیدنا جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا: اے جریر! لوگوں کو خاموش کراؤ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے خطبے میں ارشاد فرمایا: میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارتے پھرو۔
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري: 121، 4405، 7080، ومسلم: 65، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 19167 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 19381»