قرہ بن خالد نے حمید بلال سے اور انھوں نے خالد بن عمیر سے روایت کی، کہا: میں نے حضرت عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے، میں نے دیکھا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (ایمان لانے والے) سات لوگوں میں سے ساتواں شخص تھا خاردار درختوں کے پتوں کے سوا ہمارے پاس کھانے کو کچھ نہیں تھا یہاں تک کہ ہماری باچھیں زخمی ہو گئیں۔
خالد بن عمیر بیان کرتے ہیں،میں نے حضرت عتبہ بن غزوان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا،میں نے اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سات ساتھیوں میں ساتواں فرددیکھا،ہمارا کھانا صرف حبلہ درخت کے پتے تھے،حتی کہ ہماری باچھیں چھل گئیں۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہا: انھوں نے (صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین) نے عرض کی، اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !قیامت کے دن ہم اپنے رب کو دیکھیں گے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا دوپہر کے وقت جب بادل نہ ہوں تمھیں سورج کودیکھنے میں کوئی زحمت ہوتی ہے۔؟"انھوں (صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین) نے کہا: نہیں آپ نے فرمایا: "چودھویں کی رات کو جب بادل نہ ہوں تو کیا تمھیں چاند کو دیکھنے میں کوئی زحمت ہوتی ہے؟"انھوں نے (صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین) نے کہا: نہیں آپ نے فرمایا: " مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔!تمھیں اپنے رب کو دیکھنے میں اس سے زیادہ زحمت نہیں ہو گی جتنی زحمت تمھیں ان دونوں کو دیکھنے میں ہو تی ہے۔" آپ نے فرمایا: "وہ (رب) بندے سے ملا قات فرمائے گا تو کہے گا۔اے فلاں!کیا میں نے تمھیں عزت نہ دی تھی، تمھیں سردار نہ بنایا تھا تمھاری شادی نہ کرائی تھی گھوڑے اور اونٹ تمھارے اختیار میں نہ دیے تھے اور تمھیں ایسا نہیں بنا چھوڑا تھا کہ تم سرداری کرتے تھے اور لوگوں کی آمدنی میں سے چوتھائی حصہ لیتے تھے؟وہ جواب میں کہے گا۔ کیوں نہیں! (بالکل ایسا ہی تھا۔) تو وہ فرمائے گا۔ کیا تم سمجھتے تھے کہ تم مجھ سے ملوگے؟ وہ کہے گا۔ نہیں۔ تووہ فرمائے گا۔ آج میں اسی طرح تمھیں بھول جاؤں گا۔ جس طرح تم مجھے بھول گئے تھے پھر دوسرے سے ملاقات کرے گا۔اے فلاں!کیا میں نے تمھیں عز ت اور سیادت سے نہیں نوازا تھا تمھاری شادی نہیں کرائی تھی تمھارے لیے اونٹ اور گھوڑے مسخر نہیں کیے تھے اور تمھیں اس طرح نہیں بنا چھوڑا تھا کہ تم ریاست کے مزے لیتے تھے۔اور لوگوں کے مالوں میں سے چوتھا ئی حصہ وصول کرتے تھے۔؟وہ کہے گا کیوں نہیں میرے رب!تو وہ فرمائے گا۔تمھیں اس بات کا کوئی گمان بھی تھا کہ تم مجھ سے ملا قات کروگے؟ وہ کہے گا۔نہیں تو وہ فرمائے گا اب میں بھی اسی طرح تمھیں بھول جاؤں گا جس طرح تم مجھے بھول گئے تھے۔پھر تیسرے سے ملے گا۔ اس سے بھی وہی فرمائے گا۔وہ کہے گا۔اے میرے رب!میں تجھ پر تیری کتابوں اور تیرے رسولوں پر ایمان لایا تھا اور نمازیں پڑھی تھیں روزے رکھے تھے اور صدقہ دیا کرتا تھا جتنا اس کے بس میں ہو گا (اپنی نیکی کی) تعریف کرے گا، چنانچہ وہ فرمائے گا۔تب تم یہیں ٹھہرو۔فرمایا: پھر اس سے کہا جا ئے گا۔ اب تم تمھارے خلاف اپنا گواہ لائیں گے۔ وہ دل میں سوچے گا میرے خلاف کون گواہی دے گا۔؟پھر اس کے منہ پر مہر لگادی جا ئے گیاور اس کی ران گوشت اور ہڈیوں سے کہا جائے گا۔بولو تو اس کی ران اس کا گوشت اور اس کی ہڈیاں اس کے عمل کے متعلق بتائیں گی۔ یہ (اس لیے) کہا جا ئے گا کہ وہ (اللہ) اس کی ذات سے اس کا عذر دور کردے۔اور وہ منافق ہو گا اور وہی شخص ہو گا جس پر اللہ تعالیٰ سخت ناراض ہو گا۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،صحابہ کرام(رضوان اللہ عنھم اجمعین) نے پوچھا،اےاللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !قیامت کے دن ہم اپنے رب کو دیکھیں گے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"کیا دوپہر کے وقت جب بادل نہ ہوں تمھیں سورج کودیکھنے میں کوئی زحمت ہوتی ہے۔؟"انھوں (صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین)نے کہا:نہیں آپ نے فرمایا:"چودھویں کی رات کو جب بادل نہ ہوں تو کیا تمھیں چاند کو دیکھنے میں کو ئی زحمت ہوتی ہے؟"انھوں نے (صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین)نے کہا: نہیں آپ نے فرمایا:" مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔!تمھیں اپنے رب کو دیکھنے میں اس سے زیادہ زحمت نہیں ہو گی جتنی زحمت تمھیں ان دونوں کو دیکھنے میں ہو تی ہے۔" آپ نے فرمایا:"وہ(رب)بندے سے ملا قات فرمائے گا تو کہے گا۔اے فلاں!کیا میں نے تمھیں عزت نہ دی تھی، تمھیں سردار نہ بنایا تھا تمھاری شادی نہ کرائی تھی گھوڑے اور اونٹ تمھارے اختیار میں نہ دیے تھے اور تمھیں ایسا نہیں بنا چھوڑا تھا کہ تم سرداری کرتے تھے اور لوگوں کی آمدنی میں سے چوتھائی حصہ لیتے تھے؟وہ جواب میں کہے گا۔ کیوں نہیں!(بالکل ایسا ہی تھا۔)تو وہ فرمائے گا۔ کیا تم سمجھتے تھے کہ تم مجھ سے ملوگے؟ وہ کہے گا۔ نہیں۔ تووہ فرمائے گا۔ آج میں اسی طرح تمھیں بھول جاؤں گا۔ جس طرح تم مجھے بھول گئے تھے پھر دوسرے سے ملاقات کرے گا۔اے فلاں!کیا میں نے تمھیں عز ت اور سیادت سے نہیں نوازا تھا تمھاری شادی نہیں کرائی تھی تمھارے لیے اونٹ اور گھوڑے مسخر نہیں کیے تھے اور تمھیں اس طرح نہیں بنا چھوڑا تھا کہ تم ریاست کے مزے لیتے تھے۔اور لوگوں کے مالوں میں سے چوتھا ئی حصہ وصول کرتے تھے۔؟وہ کہے گا کیوں نہیں میرے رب!تو وہ فرمائے گا۔تمھیں اس بات کا کوئی گمان بھی تھا کہ تم مجھ سے ملا قات کروگے؟ وہ کہے گا۔نہیں تو وہ فرمائے گا۔اب میں بھی اسی طرح تمھیں بھول جاؤں گا جس طرح تم مجھے بھول گئے تھے۔پھر تیسرے سے ملے گا۔ اس سے بھی وہی فرمائے گا۔وہ کہے گا۔اے میرے رب!میں تجھ پر تیری کتابوں اور تیرے رسولوں پر ایمان لایا تھا اور نمازیں پڑھی تھیں روزے رکھے تھے اور صدقہ دیا کرتا تھا جتنا اس کے بس میں ہو گا (اپنی نیکی کی)تعریف کرے گا،چنانچہ وہ فرمائے گا۔تب تم یہیں ٹھہرو۔فرمایا: پھر اس سے کہا جا ئے گا۔ اب تم تمھارے خلاف اپنا گواہ لائیں گے۔ وہ دل میں سوچے گا میرے خلاف کون گواہی دے گا۔؟پھر اس کے منہ پر مہر لگادی جا ئے گیاور اس کی ران گوشت اور ہڈیوں سے کہا جائے گا۔بولو تو اس کی ران اس کا گوشت اور اس کی ہڈیاں اس کے عمل کے متعلق بتائیں گی۔ یہ(اس لیے) کہا جا ئے گا کہ وہ (اللہ)اس کی ذات سے اس کا عذر دور کردے۔اور وہ منافق ہو گا اور وہی شخص ہو گا جس پر اللہ تعالیٰ سخت ناراض ہو گا۔"
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (بیٹھے ہوئے) تھے کہ آپ ہنس پڑے پھر آپ نے پوچھا: " کیا تمھیں یہ معلوم ہے کہ میں کس بات پر ہنس رہا ہو ں؟"ہم نے عرض کی اللہ اور اس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ جاننے والے ہیں۔آپ نے فرمایا: "مجھے بندے کی اپنے رب کے ساتھ کی کئی بات پر ہنسی آتی ہے وہ کہے گا۔اے میرے رب!کیا تونے مجھے ظلم سے پناہ نہیں دی؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: وہ فرمائے گا۔کیوں نہیں!فرمایا بندہ کہے گا میں اپنے خلاف اپنی طرف کے گواہ کے سوا اور کسی (کی گواہی) کو جائز قرار نہیں دیتا۔ تو وہ فرمائے گا آج تم اپنے خلاف بطور گواہ خود کافی ہواور کراماً کا تبین بھی گواہ ہیں چنانچہ اس کے منہ پر مہرلگادی جائے گی۔اور اس کے (اپنے) اعضاء سے کہا جائے گا۔بولو، فرمایا: تو وہ اس کے اعمال کے بارے میں بتائیں گے پھر اسے اور (اس کے اعمال کے بارے میں بتائیں گے پھر اسے اور (اس کے اعضاء کے) بولنے کو اکیلا چھوڑ دیا جا ئے گا۔فرمایا: تو (ان کی گواہی سن کر) وہ کہے گا دورہوجاؤ، میں تمھاری طرف سے (دوسروں کے ساتھ) لڑا کرتا تھا۔"
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے،توآپ ہنسے اور فرمایا:"کیا تمھیں یہ معلوم ہے کہ میں کس بات پر ہنس رہا ہو ں؟"ہم نے عرض کی اللہ اور اس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ جاننے والے ہیں۔آپ نے فرمایا:"مجھے بندے کی اپنے رب کے ساتھ کی کئی بات پر ہنسی آتی ہے وہ کہے گا۔اے میرے رب!کیا تونے مجھے ظلم سے پناہ نہیں دی؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا:وہ فرمائے گا۔کیوں نہیں!فرمایا بندہ کہے گا میں اپنے خلاف اپنی طرف کے گواہ کے سوا اور کسی (کی گواہی) کو جائز قرار نہیں دیتا۔ تو وہ فرمائے گا آج تم اپنے خلاف بطور گواہ خود کافی ہواور کراماً کا تبین بھی گواہ ہیں چنانچہ اس کے منہ پر مہرلگادی جائے گی۔اور اس کے اعضاء وارکان(جوارح) سے کہا جائے گا ہر عضو(اپنے عمل کےبارے میں) بولے،تووہ اس کے عملوں کی گواہی دیں گے،پھر اس کو کلام کرنے کے لیے چھوڑدیاجائےگا،تو وہ کہے گا،تمہارے لیے دوری اور تباہی ہو،تمہاری طرف سے تو میں دفاع کررہا تھا،"یعنی تمہیں ہی آگ سے بچانے کی کوشش کررہا تھا۔
ابو زرعہ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (دعا کرتے ہوئے) فرمایا: "اے اللہ!محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے گھروالوں کے رزق کو زندگی برقرار رکھنے جتنا کردے۔"
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی،"اے اللہ!آل محمد کا رزق بقدرکفایت کردے۔"
ابو بکر بن ابی شیبہ عمروناقد زہیر بن حرب اور ابو کریب نے کہا: ہمیں وکیع نے حدیث بیان کی کہا: ہمیں اعمش نے عمار ہ بن قعقاع سے حدیث بیان کی انھوں نے ابو زرعہ سے اور انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی: اے اللہ!آل محمد کا رزق زندگی برقرار رکھنے جتنا کردے۔" اور عمرو کی روایت میں ہے: "اے اللہ! (آل محمدکو زندگی برقرار رکھنے جتنا) رزق دے۔"
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےدعافرمائی،"اے اللہ!آل محمد(خاندان محمد) کارزق بقدر کفایت فرما۔"اور عمرو کی روایت میں "اللهم ارزُق"ہے،یعنی "اِجعَل" کی جگہ"اُرزُق"ہے،مقصد ایک ہی ہے۔
منصور نے ابراہیم سے انھوں نے اسود سے اور انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انھوں نے کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں نے جب سے آپ مدینہ آئے آپ کی وفات تک کبھی تین راتیں مسلسل گندم کی روٹی سیرہو کرنہیں کھائی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والے،جب سے آپ مدینہ تشریف لائے ہیں،کبھی مسلسل تین ر اتیں گندم کی خوراک وغذا سے سیر نہیں ہوئے،حتی کہ آپ کی وفات ہوگئی۔
اعمش نے ابراہیم سے انھوں نے اسود سے اور انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہا: رسول اللہ نے کبھی متواتر تین دن سیر ہو کر گندم کی روٹی نہیں کھائی یہاں تک کہ آپ اپنی راہ پر روانہ ہو گئے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم متواتر تین دن گندم کی روٹی سے سیر نہیں ہوئے،حتی کہ فوت ہوگئے۔
عبد الرحمان بن یزید نے ہمیں اسود سے حدیث بیان کی انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انھوں نےکہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں نے کبھی دودن متواتر جوکی روٹی پیٹ بھر کر نہیں کھائی یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کنبہ(بیوی بچے)متواتر دو دن،جو کی روٹی سے سیر نہیں ہوئے،حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح قبض کرلی گئی۔
عابس نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں نے تین دن سے زیادہ کبھی سیر ہو کر گندم کی روٹی نہیں کھا ئی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا خاندان،تین دن سے زائد گندم کی روٹی سے سیر نہیں ہوا۔