۔ سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: دو آدمی آپس کا ایک جھگڑا لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا: اے عمرو!ان کے درمیان فیصلہ کرو۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ اس امر کے زیادہ حقدار ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگرچہ میں ہوں۔ میں نے کہا: اگر میں ان کے ما بین فیصلہ کروں تومجھے کیا ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر تم نے فیصلہ کیا اور درست صورت تک پہنچ گئے تو دس نیکیاں ملیں گی اوراگر اجتہاد میں خطا اور غلطی ہو گئی تو ایک نیکی ملے گی۔
تخریج الحدیث: «اسناده ضعيف جدا، الفرج بن فضالة ضعيف، محمد بن عبد الاعلي و أبوه لا يعرفان۔ أخرجه الدارقطني: 4/ 203، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 17824 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 17978»
۔ سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سےاسی قسم کی حدیث بیان کی ہے، البتہ اس میں ہے: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر تم نے اجتہاد کیا اور فیصلہ درست کر لیا تو دس اجر ملیں گے اور اگر تم نے اجتہاد کیا اور خطا ہو گئی تو ایک اجر ملے گا۔
تخریج الحدیث: «اسناده ضعيف لضعف الفرج ابن فضالة۔ أخرجه الدارقطني: 4/ 203، والطبراني في ’’الصغير‘‘: 131، وفي ’’الاوسط‘‘: 1606، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 17825 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 17979»
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ دو آدمی اپنا مقدمہ لے کر سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، انھوں نے ان کے درمیان فیصلہ کیا اور جس کے خلاف فیصلہ ہوا، وہ ناراض ہو گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور شکایت کی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے کہا: جب قاضی فیصلہ کرتا ہے اور پوری جد وجہد کرتا ہے اور درست فیصلہ کر لیتا ہے تو اسے دس اجر ملتے ہیں اور اگر پوری محنت کے باوجود اس سے خطا ہو جائے تو اس کو ایک یا دو اجر پھر بھی ملتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «اسناده ضعيف لضعف ابن لھيعة، وجھالة سلمة بن اكسوم۔ أخرجه الحاكم: 4/88، والطبراني في ’’الاوسط‘‘، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 6755 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 6755»
۔ سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب حاکم پوری محنت کے ساتھ فیصلہ کرتا ہے اور درستی کو پہنچ جاتا ہے تو اس کو دو اجر ملتے ہیں اور جب پوری محنت کے باوجود اس سے خطا ہو جاتی ہے تو اس کو ایک اجر ملتا ہے۔ یہ حدیث سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري: 7352، ومسلم: 1716، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 17774 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 17926»
۔ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو عامل بنا کر یمن کی طرف بھیجا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا: جب کوئی مقدمہ پیش ہو تو تو کس طرح فیصلہ کرے گا؟ انھوں نے کہا: جی میں کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ا ٓپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر وہ مسئلہ اللہ تعالی کی کتاب میں نہ ہو تو؟ انھوں نے کہا: تو پھر اللہ کے رسول کی سنت کی روشنی میں کروں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر رسول اللہ کی سنت میں بھی نہ ملے تو؟ انھوں نے کہا: تو پھر میں اجتہاد کروں گا اور اس میں کوئی کمی نہیں کروں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ سن کر سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کے سینے پر تھپکی دی اور فرمایا: اس اللہ کے لئے تعریف ہے، جس نے اپنے رسول کے قاصد کو اس چیز کی توفیق بخشی کہ جس کو اس کا رسول پسند کرتا ہے۔
تخریج الحدیث: «اسناده ضعيف لابھام اصحاب معاذ وجھالة الحارث بن عمرو، لكن مال الي القول بصحته غير واحد من المحققين من اھل العلم۔ أخرجه ابوداود: 3593، والترمذي: 1328، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 22007 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 22357»
۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے یمن کا قاضی مقرر کر کے بھیجا، جبکہ میں ابھی نو عمر تھا، اس لیے میں نے کہا:اے اللہ کے رسول! آپ مجھے ایک ایسی قوم کے ہاں بھیج رہے ہیں، جن کے درمیان نت نئے معاملات جنم لیتے ہیں اور مجھے تو قضا کا علم ہی نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ تیری زبان کی رہنمائی کرے گا اور تیرے دل میں مضبوطی پیدا کر دے گا۔ اس کے بعد دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ کرتے مجھے کبھی کوئی شک و شبہ نہیں ہوا۔
تخریج الحدیث: «حديث صحيح۔ أخرجه ابن ماجه: 2310، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 636 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 636»
۔ یزید بن موہب سے مروی ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے سیدناعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا: لوگوں کے ما بین فیصلہ کرو، انھوں نے کہا: میں دوآدمیوں کے مابین قاضی بنوں گا نہ دو آدمیوں کا امام بنوں گا، اے عثمان! کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا تھا کہ جس نے اللہ تعالی کے ساتھ پناہ مانگی، اس نے بہت بڑی پناہ مانگی؟ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: جی، کیوں نہیں، انھوں نے کہا: تو پھر میں اس بات سے اللہ تعالی کی پناہ چاہتا ہوں کہ آپ مجھے عامل بنائیں، پس سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ان کو معاف کر دیا، لیکن کہا: کسی اور کو یہ حدیث بیان نہ کرنا۔
تخریج الحدیث: «حسن لغيره۔ أخرجه ابن حبان: 5056، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 475 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 475»
۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ کہ حجاج نے ان کے بیٹے کو بصرہ پر قاضی مقرر کرنا چاہا تو انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے عہدئہ قضا طلب کیا اور دوسرے کے تعاون سے اسے حاصل کرنے کی کوشش کی تو اسے اس عہدے کے سپرد کر دیا جائے گا اور جو آدمی نہ اس کو طلب کرتا ہے اور نہ اس کے حصول کے لئے دوسروں کا تعاون لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے فرشتہ نازل کرے گا، جو درستی کی طرف اس کی رہنمائی کرے گا۔
تخریج الحدیث: «اسناده ضعيف، لضعف عبد الاعلي الثعلبي، وضعف بلال بن ابي موسي۔ أخرجه ابوداود: 3587، والترمذي: 1323، وابن ماجه: 2309، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 13302 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 13335»
۔ (دوسری سند)سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے عہدئہ قضا خود طلب کیا وہ اس کے سپرد کر دیا جائے گا اور جسے زبردستی دیا گیا، اس پر ایک فرشتہ نازل ہو گا، جو بہتری کی طرف اس کی رہنمائی کرے گا۔
تخریج الحدیث: «انظر الحديث بالطريق الاول ترقیم بيت الأفكار الدولية: 12208»
۔ عمران بن حطان کہتے ہیں: میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس حاضر ہوا اور ان سے مذاکرہ کرنے لگا، یہاں تک کہ قاضی کے عہدے کا ذکر ہونے لگا، اس موقع پر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قاضی پر قیامت کے روز ایک گھڑی ایسی آئے گی کہ وہ یہ آروز کرے گا کہ کاش کہ اس نے دوآدمیوں کے درمیان ایک کھجور کا بھی فیصلہ نہ کیا ہوتا۔
تخریج الحدیث: «اسناده ضعيف، صالح بن سرج وعمرو بن العلاء الشني من رجال التعجيل۔ أخرجه الطيالسي: 1546، والبيھقي: 10/ 96، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 24464 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 24968»